امریکا کا چین پر 104 فیصد ٹیرف کے نفاذ کا اعلان، چین نے متبادل منڈیوں کی تلاش شروع کردی
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
امریکا نے چین کی طرف سے آنے والی درآمدات پر ایک بار پھر بڑا حملہ کیا ہے۔ اب کی بار بعض چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے۔ اس ٹیکس کا نفاذ گزشتہ شب 12 بجے سے ہوگیا ہے۔
امریکا کی جانب سے ایک بار پھر ٹیکس حملہ کے بعد چین اور ہانگ کانگ کی مارکیٹیں بلندی کی طرف مائل ہونے کے بعد مندی کا شکار ہوگئیں۔
واضح رہے کہ شنگھائی سمیت ایشیا کی متعدد اسٹاک مارکیٹوں میں گزشتہ روز قدرے بہتری نظر آئی تھی۔ ایسا کئی روز کی مندی کے بعد ہوا تھا تاہم گزشتہ روز امریکا کی جانب سے چند چینی مصنوعات پر ٹیرف 100 فیصد سے بھی بڑھائے جانے کے بعد بدھ کے روز کاروبار شروع ہوتے ہی چین کے شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس میں 1.
دیگر ایشیائی منڈیوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ جاپانی بینچ مارک نکی میں 4 فیصد کمی ہوئی۔ جنوبی کوریا کی کوسپی میں کاروبار کا آغاز ہونے کے ایک گھنٹہ بعد ہی 1.5 فیصد کمی کا شکار ہوگئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل ٹریڈ میں 1930 کی دہائی کے بعد پہلی بار ابتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔
دوسری طرف چین نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے عائد محصولات کا جواب دے گا۔
یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے اعلان کیا تھا کہ منگل کا دن ختم ہوتے ہی رات 12:01 بجے سے امریکا کی جانب سے چند چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیکس لاگو ہو جائے گا۔
امریکا کی جانب سے یہ اقدام اس لیے کیا گیا ہے کہ چین نے ٹرمپ ٹیرف کے جواب میں امریکا کی طرف سے آنے والی درآمدات پر بھی جوابی ٹیکس عائد کردیا ہے۔ اب امریکا چاہتا ہے کہ چین یہ جوابی ٹیرف واپس لے لیکن چین نے اس مطالبے کو غور کرنے کے قابل بھی نہیں سمجھا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 70 ممالک نے امریکا سے ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کے لیے رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئَے پر ملک کے لیے علیحدہ حکمتِ عملی اپنائی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ ٹیرف پر چین امریکا سے معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔
کیرولین لیویٹ کا مزید کہنا تھا کہ ٹیرف کے معاملے پر کوئی تاخیر نہیں ہوگی اور نہ ہی اسے توسیع دی جائے گی۔
ماہرین ان دنوں اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ امریکا اور چین کے مابین ہونے والی تجارتی کشیدگی کے کیا اثرات برآمد ہوں گے؟
وانگارڈ انویسٹمنٹ فرم کے ایشیا پیسیفک کے چیف اکانومسٹ چیانگ وانگ کا کہنا ہے کہ بلاشبہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی میں اضافے کے باعث چین کی برآمدات میں تیزی سے کمی آئے گی۔
اس کے نتیجے میں مقامی سرمایہ کاری، لیبر مارکیٹ، کھپت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گا۔
اطلاعات کے مطابق اب چین نے متبادل منڈیاں تلاش کرنے کے لیے یورپی کمیشن سے رابطہ کرلیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا کی جانب سے ٹیرف کے کے لیے چین نے کے بعد
پڑھیں:
ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیا اور بحرالکاہل خطے کی معاشی ترقی کی شرح بارے پیش گوئی میں کمی کردی ،رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے ترقی پذیر ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کے لیے رواں سال اور آئندہ سال کی معاشی ترقی کی پیش گوئی کے درجے میں کمی کردی، ان تخمینوں میں کمی کی بنیادی وجہ امریکا کی بلند ٹیرف پالیسیاں، عالمی تجارت کی غیر یقینی صورتحال اور ملکی سطح پر کمزور طلب ہے۔ بینک نے ایشیائی ترقیاتی بارے اپنے حالیہ جائزے میں کہا ہے کہ علاقائی معیشتیں رواں سال (2025)4.7 فیصد کی شرح سے ترقی کریں گی جو اپریل کی پیش گوئی کے مقابلے میں 0.2 فیصد کم ہے، آئندہ سال کے لیے ترقی کی پیش گوئی 4.7 فیصد سے کم ہو کر 4.6 فیصد کر دی گئی ۔اے ڈی بی نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا کی ٹیرف پالیسیوں اور تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا تو ترقی پذیر ایشیا اور بحرالکاہل کی معاشی ترقی کے امکانات مزید متاثر ہو سکتے ہیں، دیگر خطرات میں عالمی سطح پر تنازعات اور جغرافیائی کشیدگیاں شامل ہیں جو سپلائی چین کو متاثر اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہیں، اس کے علاوہ چین میں پراپرٹی مارکیٹ توقع سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہے۔(جاری ہے)
بینک کے چیف ماہر اقتصادیات البرٹ پارک نے کہاکہ ایشیا اور پیسیفک نے اس سال بیرونی طور پر مشکل حالات کا سامنا کیا ،تاہم غیر یقینی صورتحال اور خطرات میں اضافے کے باعث اقتصادی آئوٹ لک میں کمی ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ خطے کی معیشتوں کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور کھلی تجارت و علاقائی انضمام کو فروغ دینا چاہیے تاکہ سرمایہ کاری، روزگار اور ترقی کو سہارا دیا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ چین جو خطے کی سب سے بڑی معیشت ہے، کے لیے ترقی کی پیش گوئی رواں سال کیلئے 4.7 فیصد اور آئندہ سال 4.3 فیصد کی سطح پر برقرار رکھی گئی ہے ۔ اس کی حکومتی پالیسیوں کی مدد سے کھپت اور صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملنے کی توقع ہے جس سے پراپرٹی مارکیٹ کی کمزوری اور برآمدات میں کمی کا ازالہ ہوسکے گا۔جائزے میں بھارت کی معاشی ترقی کی شرح رواں سال 6.5 فیصد اور آئندہ سال 6.7 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جو اپریل کی پیش گوئی سے بالترتیب 0.2 اور 0.1 فیصد پوائنٹس کم ہے ،کیونکہ تجارتی غیر یقینی صورتحال اور امریکی ٹیرف کا برآمدات اور سرمایہ کاری پر اثر پڑے گا،جنوب مشرقی ایشیا کی معیشتیں تجارتی حالات کی خرابی اور غیر یقینی صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔ اے ڈی بی نے اس خطے کی ترقی کی شرح رواں سال 4.2 فیصد اور آئندہ سال 4.3 فیصد رہنے کی پیشکوئی کی ہے جو اپریل کی پیش گوئیوں سے تقریباً 0.5 فیصد پوائنٹس کم ہے ،تاہم قفقاز اور وسطی ایشیا کی معیشتوں کی ترقی کی پیش گوئی میں بہتری آئی ہے۔ تیل کی پیداوار میں متوقع اضافے کے باعث اس خطے کے لیے ترقی کی پیش گوئی 0.1 فیصد پوائنٹس بڑھا کر رواں سال 5.5 فیصد اور آئندہ سال کیلئے 5.1 فیصد کر دی گئی ہے۔اے ڈی بی کی رپورٹ میں ترقی پذیر ایشیا اور پیسیفک میں افراطِ زر میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے کیونکہ تیل کی قیمتوں میں نرمی اور زرعی پیداوار میں بہتری سے خوراک کی قیمتوں پر دباؤ کم ہو رہا ہے، افراط زر کی شرح رواں سال 2.0 فیصد اور آئندہ سال 2.1 فیصد متوقع ہے جو اپریل کی پیش گوئی سے بالترتیب 2.3 فیصد اور 2.2 فیصد کم ہے۔\932