انڈر پاسز کیلیے دن رات کام، اسکول بحالی کیلیے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ جسٹس محمد علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
جسٹس محمد علی مظہر نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ انڈر پاسز کی تعمیر کے لیے دن رات کام کیا جاتا ہے مگر اسکولوں کی بحالی کے لیے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟۔
خیبر پختونخوا میں 2005ء کے زلزلے سے متاثرہ اسکولوں کی بحالی کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں خیبرپختونخوا کے سیکرٹری فنانس، سیکرٹری ایجوکیشن اور سیکرٹری پلاننگ اینڈ ورکس عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت جسٹس امین الدین خان نے صوبائی سیکرٹریز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ کی مصروفیات کا اندازہ ہے۔ بچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر امور کی انجام دہی ہونی چاہیے۔
سیکرٹری ایجوکیشن نے بتایا کہ زلزلے سے 3 ہزار سے زائد اسکولز متاثر ہوئے۔ فنانس کے مسائل ہیں۔ ہمیں فنڈز نہیں دیے جا رہے۔
سیکرٹری فنانس کے پی کے نے عدالت میں بتایا کہ 4اپریل کو صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد فنڈز دیے جا چکے ہیں، جس پر عدالت کے استفسار پر سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس نے بتایا کہ ہمیں فنڈز مل چکے ہیں۔ 49 اسکولز کی بحالی کا کام رہتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اسکولز کی بحالی کے لیے ڈبل شفٹوں یا 3 شفٹوں میں کیوں کام نہیں کیا جاتا؟۔ انڈر پاس یا بائی پاس بنانے کے لیے ڈبل شفٹوں یا 3 شفٹوں میں کام کیا جاتا ہے۔
سیکرٹری کمیونی کیشن اینڈ ورکس نے عدالت کو بتایا کہ 1231 ملین روپے کے فنڈز جاری ہو چکے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے اسکولز کی بحالی کے لیے مکمل پلان طلب کرلیا۔ عدالت نے چیف سیکرٹری خیبرپختوا کو عدالتی کارروائی سے متعلق آگاہ کرنے کی ہدایت بھی کی اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیا جاتا کی بحالی بحالی کے بتایا کہ کے لیے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہینِ مذہب کے الزامات پر کمیشن بنانے کا فیصلہ معطل کردیا
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے الزامات پر کمیشن قائم کرنے کا جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فیصلہ معطل کردیا اور کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس اعظم خان نے کیس کی سماعت کی جس میں راؤ عبد الرحیم کی جانب سے وکیل کامران مرتضیٰ و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس خادم حسین سومرو نے استفسار کیا کہ اس فیصلے سے آپ متاثرہ کیسے ہیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہمیں مکمل حق سماعت نہیں دیا گیا ۔ 400 کیسز ہیں اور کچھ کیسز اس کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ کیا اس کیس میں کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے؟
وکیل نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔ عدالت میں یہ کیس نمٹایا گیا تھا پھر تحریری فیصلہ آیا کہ کیس زیر التوا رہے گا کیا کسی اور کی طرف سے رِٹ پٹیشن قابل سماعت ہو سکتی ہے؟
کامران مرتضیٰ نے عدالت نے اپنا مؤقف بتاتے ہوئے مزید کہا کہ بے شک بھائی بیٹا یا باپ ہو ان میں سے کوئی بھی ہو متاثرہ فریق کیسے ہے ؟ آرڈر ایسے کر رہے ہیں جیسے سپریم کورٹ سے بھی اوپر کی عدالت ہے۔
جسٹس اعظم خان نے استفسار کیا کہ فائنل آرڈر کے بعد کیا کیس زیر التوا رکھ سکتے ہیں؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعدازاں عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا، عدالت نے توہین مذہب کے الزامات پر کمیشن قائم کرنے کا جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فیصلہ معطل کردیا اور کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔
Tagsپاکستان