محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم نے کہا کہ کوئی بھی جو یہ سوچتا ہے کہ وہ امریکا آسکتا ہے اور یہود دشمن تشدد اور دہشت گردی کی وکالت کے لیے آئین کی پہلی ترمیم کے پیچھے چھپ سکتا ہے تو وہ دوبارہ سوچ لے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی امیگریشن حکام نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر یہود مخالف پوسٹ کرنے والے افراد کو ویزے اور رہائشی اجازت نامے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی امیگریشن حکام نے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیں گے اور ان لوگوں کو ویزے یا رہائشی اجازت نامے دینے سے انکار کر دیں گے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے یہود دشمن مواد پوسٹ کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔ یہود مخالف کے طور پر بیان کی جانے والی پوسٹس میں ان گروہوں کی حمایت میں سوشل میڈیا کی سرگرمیاں شامل ہوں گی جنہیں امریکا نے دہشت گرد قرار دیا ہے، جن میں مزاحمتی تحریک حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثی مجاہدین شامل ہیں۔

یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکا میں موجود طلبا کے ویزے متنازعہ طور پر منسوخ کرنے کے بعد سامنے آیا ہے، جہاں آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم نے ایک بیان میں محکمہ کی ترجمان ٹریشیا میک لافلن کے حوالے سے کہا کہ یہ واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی جو یہ سوچتا ہے کہ وہ امریکا آسکتا ہے اور یہود دشمن تشدد اور دہشت گردی کی وکالت کے لیے آئین کی پہلی ترمیم کے پیچھے چھپ سکتا ہے تو وہ دوبارہ سوچ لے، اسے یہاں خوش آمدید نہیں کیا جائے گا۔ 

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز سوشل میڈیا کے اس مواد پر غور کرے گی جو کسی غیر ملکی کی جانب سے یہود دشمن دہشت گردی، یہود دشمن دہشت گرد تنظیموں یا دیگر یہود دشمن سرگرمیوں کی تائید، حمایت، فروغ یا پشت پناہی کی نشاندہی کرتا ہے اور اس مواد کو فوائد کا تعین کرنے میں ایک منفی عنصر کے طور پر شمار کرے گی۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کہا ہے کہ یہ پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہوگی اور طلبا کے ویزوں اور امریکا میں مستقل رہائشی گرین کارڈز کے لیے درخواستوں پر لاگو ہوگی۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں کہا تھا کہ انہوں نے تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسا کر رہے ہیں۔

مارکو روبیو نے کہا کہ غیر امریکی شہریوں کو امریکیوں جیسے حقوق حاصل نہیں ہیں اور ویزے جاری کرنا یا مسترد کرنا ججوں کا نہیں بلکہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔ متعدد افراد جن کے ویزے منسوخ کیے گئے، کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کبھی یہودیوں کے لیے نفرت کا اظہار نہیں کیا، اور کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ وہاں موجود تھے جہاں احتجاج ہورہا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں ملک بدری کا کیس نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کی قیادت کرنے والے محمود خلیل کا ہے، امریکا کا مستقل رہائشی ہونے کے باوجود انہیں ملک بدر کردیا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے سرکردہ یونیورسٹیوں کو لاکھوں ڈالر کی وفاقی فنڈنگ سے بھی محروم کر دیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا یہود دشمن نے کہا کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات

اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان

امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔

امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • گاڑی کے شیشوں پر منٹوں میں حیران کن فن پارے، پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا نوجوان آرٹسٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • بلو اسکائی کے صارفین 40 ملین سے تجاوز، نیا فیچر ’ڈس لائک‘ متعارف
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • آئمہ کرام کی رجسٹریشن کیلئے کوئی قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے، محکمہ داخلہ
  • پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب
  • امریکا: دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • امریکا, دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم