مہنگائی: پاکستان میں ناشتہ خریدنا عوام کی دسترس سے باہر ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
کراچی:
حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی کے دعوے کے باوجود کھانے پینے خصوصاً صبح ناشتے میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہو سکی۔
کم آمدنی والے ایک چھوٹے خاندان کو روزانہ ناشتہ خریدنے کے لیے 500 روپے درکار ہوتے ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں کمی کے اثرات منافع خوروں کے باعث عوام تک منتقل نہیں ہو پا رہے، جس کی ایک بڑی وجہ حکومتی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے نظام کا غیر فعال ہونا ہے۔
ماہرِ معاشیات کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں کمی کا حکومتی دعویٰ زمینی حقائق کی نفی کرتا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ دینے کے لیے حکومت کو سوشل سیکیورٹی کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
ایکسپریس نے ناشتے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی۔ ایک نجی ادارے کے شعبہ آئی ٹی میں ملازم اور پاپوش نگر کی رہائشی سلطانہ کوثر نے بتایا کہ حکومت مہنگائی میں کمی کے دعوے تو کر رہی ہے اور یہ بتا رہی ہے کہ مارچ 2025 میں مہنگائی کی شرح 0.
انہوں نے بتایا کہ صبح کا ناشتہ جو پورے دن کی مصروفیت کا لازمی حصہ ہے، ناشتے میں جو اشیاء استعمال ہوتی ہیں، ان کی قیمتیں گزشتہ دو برسوں کی نسبت کم ہونے کے بجائے 10 سے 15 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ اگر مہنگائی میں کمی ہوئی ہے تو ناشتے کے سامان کی قیمتیں بھی کم ہونی چاہئیں۔
مختلف بازاروں میں پانی اور جوس فروخت کرنے والے، کھارادر کے رہائشی عاصم احمد نے بتایا کہ وہ مختلف بازاروں اور مارکیٹوں میں گرمیوں میں پانی اور جوس فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کرائے کے مکان میں دو بچوں اور اہلیہ کے ہمراہ رہتے ہیں۔ 12 گھنٹے محنت کرنے کے بعد 1200 سے 1800 روپے مزدوری حاصل ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے دو وقت کے کھانے کے علاوہ صبح ناشتے کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ جو ناشتہ 2022ء میں 150 سے 200 روپے کا آتا تھا، وہ 2023ء میں 250 سے 300 روپے، 2024ء میں 400 روپے اور 2025ء میں 450 سے 500 روپے یا اس سے زائد میں آ رہا ہے۔ تو حکومت بتائے کہ مہنگائی کہاں کم ہوئی ہے؟۔
پی آئی بی میں ناشتہ اور دودھ فروخت کرنے والے دکاندار دلشاد منیر نے بتایا کہ دو برسوں میں دودھ کی قیمت 40 روپے اضافے کے بعد 220 روپے فی لیٹر پر پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں پیک دودھ کے ایک چھوٹے ڈبے کی قیمت میں 50 روپے اضافہ ہوا ہے۔ یہ دودھ کا ڈبہ 90 روپے کا مل رہا ہے، جبکہ مختلف اقسام کی ڈبل روٹی کی قیمتوں میں بھی 30 سے 60 روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چھوٹی 4 پیس والی ڈبل روٹی کی قیمت 20 روپے بڑھ کر 50 روپے ہو گئی ہے اور مختلف اقسام کی ڈبل روٹی 80 روپے سے لے کر 200 روپے یا اس سے زائد ہو گئی ہے۔ انڈے اس وقت 240 روپے درجن ہیں، ایک انڈا 20 روپے کا ہو گیا ہے، جبکہ مختلف اقسام کے پاپے کے پیکٹ کی قیمت 20 سے 40 روپے اضافے کے بعد 50 سے 150 روپے یا اس سے زائد میں فروخت ہو رہے ہیں، جبکہ مختلف اقسام کے بن 30 روپے سے 100 روپے تک میں فروخت ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ناشتے کے آئٹمز کی فروخت سب سے زیادہ ہوتی ہے، لیکن مہنگائی کی وجہ سے لوگ ناشتے کا سامان محدود تعداد میں خریدتے ہیں۔ 4 افراد پر مشتمل کم آمدنی والی فیملی مہنگائی کے اس دور میں 4 انڈے 80 روپے، چھوٹی ڈبل روٹی 80 روپے، 250 گرام دودھ کا ڈبہ 90 روپے، اس کے علاوہ 50 روپے کی چینی اور 30 روپے والا چائے کا ساشے خرید کر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اس طرح ایک چھوٹی فیملی تقریباً 400 روپے کا ناشتہ خریدتی ہے لیکن ناشتے کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے کم آمدنی والا طبقہ گھر میں ہی پراٹھا اور چائے بنا کر اپنا گزارہ کرتا ہے۔
ماہرِ معاشیات پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار خان نے بتایا کہ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مارچ 2025 میں مہنگائی کی شرح 0.7 فیصد رہی، جو گزشتہ ماہ 1.5 فیصد تھی۔ یہ اعداد و شمار حکومت کے جاری کردہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کا حکومتی دعویٰ عام لوگوں کے لیے سود مند نہیں ہے، کیونکہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کے محکموں کی غفلت ہے کیونکہ وہ منافع خوروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے والا میکنزم فرسودہ اور ناکام ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک شرح سود اور مہنگائی میں کمی کی شرح میں یکسانیت نہیں آئے گی، تب تک اس کمی کے فوائد عوام تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے اور غذائی اشیاء پر ٹیکس ختم کیے جائیں تاکہ کھانے پینے کی چیزیں سستی ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک چھوٹی فیملی کے لیے روزانہ ناشتے سمیت کھانے پینے کے اخراجات کے لیے 2022ء میں 600 روپے، 2023ء میں 800 روپے سے زائد، 2024ء میں 1 ہزار سے زائد اور 2025ء میں 1200 روپے سے زائد روزانہ کی بنیاد پر خرچ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے طبقے کے مسائل حل کرنے کے لیے مربوط سماجی تحفظ کی اسکیمز شروع کرنا ہوں گی۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی وقار مہدی نے کہا کہ حکومت سندھ کی پوری کوشش ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے۔ اس کے لیے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو منافع خوروں کے خلاف کارروائی کے لیے ہدایت کی گئی ہے اور انہی احکامات پر روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے۔
Tagsپاکستان
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان مہنگائی کو کنٹرول کرنے مہنگائی میں کمی انہوں نے کہا کہ کی قیمتوں میں مختلف اقسام نے بتایا کہ مہنگائی کی کھانے پینے کہ مہنگائی میں کمی کے کرنے والے ناشتے کے ڈبل روٹی کی قیمت روپے سے روپے کا رہے ہیں کی شرح کے لیے
پڑھیں:
اپوزیشن اور قوم پرست جماعتیں عوام میں اضطراب نہ پھیلائیں‘چولستان کینال منصوبے پر کاپچھلے سال سے رکا ہوا ہے.مرادعلی شاہ
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپوزیشن اور قوم پرست جماعتوں سے عوام میں اضطراب نہ پھیلانے کی درخواست کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ چولستان کینال منصوبے پر کام گذشتہ سال جولائی سے رکا ہوا ہے جبکہ سندھ کے اعتراض کی وجہ سے قومی معاشی کونسل میں اس منصوبے کی منظوری نومبر سے رکی ہوئی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر معاملات ہمارے ہاتھ سے نکلے تو ہر قسم کی کال دیں گے.(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ نہروں کی تعمیر کے معاملے پر سب سے پہلے ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا تھا سندھ حکومت یہ کینال کبھی بننے نہیں دے گی کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے پنجاب حکومت کا نام لیے بغیر اس پر چولستان کینال کا یکطرفہ افتتاح کر کے سندھ کے لوگوں میں بدگمانی پیدا کرنے کا الزام لگایا. انہوں نے کہاکہ سب کو پتا لگ چکا ہے منصوبے کا جو افتتاح کیا گیا تھا وہ حقیقتاً افتتاح بھی نہیں تھایاد رہے کہ گذشتہ ماہ کے آغاز میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چولستان منصوبے کا افتتاح کیا تھا مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ منصوبے کو روکنے پر وہ وفاقی حکومت کے شکر گزار ہیں تاہم ان سے شکوہ ہے کہ اس پراجیکٹ کو اب تک ختم کیوں نہیں کر دیا گیا. انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کو اندازہ ہے معاملات درست نہیں چل رہے وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی اور فوڈ سکیورٹی کے مسائل کینال بنا کر نہیں بلکہ پیداوار اورپانی کے بہتر استعمال سے حل کیے جا سکتے ہیں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس معاملے وفاقی حکومت کی جانب سے رابطے کیے گئے ہیں اورمیں امید کرتا ہوں کہ وزیر اعظم انصاف سے کام لیں گے. دوسری جانب اپوزیشن اور قوم پرست جماعتیں چولستان کینال پراجیکٹ پر پیپلزپارٹی کے موقف کو مرکزمیں اس کی اتحادی حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے ساتھ گٹھ جوڑقراردے رہے ہیں ان کا کہنا ہے جب جولائی 2024میں صدر آصف علی زرداری نے اجلاس میں صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے نہروں کے منصوبے کی منظوری دی تھی اس وقت پیپلزپارٹی کو” اصولی موقف“یاد کیوں نہیں رہا؟. انہوں نے کہا کہ آج صدرمملکت کے صاحبزادے بلاول بھٹوزرداری اور پیپلزپارٹی کی مرکزی لیڈرشپ اچانک محترک کیوں ہوگئی ہے؟ان کا کہنا ہے کہ اصل میں پیپلزپارٹی قوم پرست اور اپوزیشن کی جانب سے سندھ بھر میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کی کامیابی سے خوفزدہ ہوگئی ہے اور اسے سندھ اپنے ہاتھوں سے نکلتا نظرآرہا ہے اس لیے پیپلزپارٹی اپنی ہی جماعت کے شریک چیئرمین اور صدرمملکت کے فیصلے کے خلاف نام نہاد احتجاج ‘بیانات اور جلسوں کے ذریعے سندھ کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے.