Islam Times:
2025-04-25@08:51:15 GMT

ابتہال اور وانیا اگروال، تمھاری جرأت کو سلام

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

ابتہال اور وانیا اگروال، تمھاری جرأت کو سلام

اسلام ٹائمز: بے حسی کے اس دور میں جب کہ حرم کے اماموں کو ظلم کے خلاف اُف تک کہنے کا یارا نہیں ہے کہ کہیں حاکم وقت ناراض نہ ہوجائے، جب کہ مسلمان حکمرانوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں کہ بچوں کی چیخیں انھیں پریشان نہ کریں، جب کہ دو ارب مسلمان اور آٹھ ارب انسان ظلم کا ننگا ناچ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، ایسے میں مراکش کی ابتہال اور ہندوستان کی وانیا اگروال نے اس اندھی بہری دنیا کو آئینہ بھی دکھایا ہے اور راستہ بھی سُجھایا ہے۔ آپ جائے ظلم سے بہت دور رہ کر پر امن طریقے سے تن تنہا بہت بڑا احتجاج کرسکتے ہیں اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے۔ تحریر: محی الدین غازی

ظلم کے خلاف جہاد کرنے کے لیے تلوار اور بندوق ضروری نہیں ہیں۔ کبھی کسی کم زور و ناتواں انسان کے دل سے بلند ہونے والی ایک للکار ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیتی ہے۔ گذشتہ دنوں کی بات ہے۔ مائیکروسوفٹ کمپنی کی پچاسویں سال گرہ تھی۔ واشنگٹن کے ایک عالیشان کانفرنس ہال میں یہ تقریب بڑی شان و شوکت سے منائی جارہی تھی۔ ایک سیشن میں جب کہ کمپنی کا مالک بل گیٹس بھی موجود تھا۔

مائیکروسوفٹ کے AI سیکشن کا سی ای او مصطفیٰ سلیمان اسٹیج پر کھڑا بڑے طمطراق کے ساتھ یہ بتارہا تھا کہ AI سے انسانیت کو کتنا فیض پہنچ رہا ہے۔ اتنے میں ایک نوجوان لڑکی جرأت و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے اسٹیج پر پہنچ گئی۔ اس نے چیخ کر کہا: مصطفی تمھیں شرم آنی چاہیئے، تم اور تمھاری کمپنی فلسطین میں پچاس ہزار معصوموں کے قتل میں شریک ہیں۔ اس کے بعد اس نے فلسطینی رومال (کوفیہ) اسٹیج پر اچھال دیا۔

اسٹیج کے پاسبان اسے باہر لے گئے لیکن وہ ظلم کے خلاف بلند آواز میں احتجاج کرتی رہی۔ اس بہادر لڑکی کا نام ابتہال ہے۔ اس کا تعلق مراکش سے ہے۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ ہے اور مائیکروسوفٹ کمپنی میں پروگرام انجینئر ہے۔ بتاتے ہیں کہ اس کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار ڈالر ہے۔ جب کہ مصطفیٰ سلیمان کا تعلق ملک شام سے ہے۔ ابتہال نے کہا مصطفی سرزمین شام میں تمھارا خاندان تمھاری اصلیت جان لے گا۔ ابتہال کے احتجاجی ویڈیو کو بار بار دیکھنا چاہیئے۔
کتنا اعتماد ہے اس کے احتجاج میں
کتنی قوت ہے اس کے لفظ لفظ میں
کیسی پُر اثر اس کی آواز ہے
کس تمکنت کے ساتھ اس نے ظالموں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ہے
ایک نازک لڑکی لمحوں میں کتنی طاقتور ہوگئی
علامہ اقبال نے طرابلس کی فاطمہ کے بارے میں جو اشعار کہے تھے وہ مراکش کی ابتہال پر بھی صادق آتے ہیں:
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سِپَر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گُلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی
اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہُوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
مختلف رپورٹوں کے مطابق مائیکروسوفٹ کمپنی نے اسرائیلی فوج کو AI کی ٹیکنالوجی دی ہوئی ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ بے گناہ شہریوں کو اندھا دھند بم باری کا نشانہ بناتی ہے۔ ابتہال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی تقریب کے ایک دوسرے سیشن میں ایک اور بہادر لڑکی نے بل گیٹس کے سامنے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس لڑکی کا نام وانیا اگروال ہے اور تعلق ہندوستان سے ہے۔ کمپنی نے دونوں کے اکاؤنٹ بند کردیئے ہیں جو اس بات کی اطلاع ہے کہ دونوں کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

ابتہال اور وانیا اگروال دونوں کو اپنے اقدام پر ذرا بھی افسوس نہیں ہے۔ انھیں پورا اطمینان ہے کہ انھوں نے ضمیر کی آواز کو دبنے نہیں دیااور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کردیا۔ ابھی ان دونوں بچیوں نے کیریر کی شان دار ابتدا کی تھی، آگے کے لیے انھوں نے خوابوں کے نہ جانے کتنے حسین محل تعمیر کئے تھے، انھیں کم عمری میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میں بہترین ملازمت ملی تھی جو آج کے دور میں کسی بھی کمپیوٹر انجینئر کا سنہرا خواب ہوتی ہے لیکن پھر انھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے مصنوعی خوشی کے سارے گھروندے توڑ ڈالے اور حقیقی خوشی کا وہ لمحہ پالیا، جو دنیا کے بڑے بڑے دولت مندوں اور حاکموں کو حاصل نہیں ہے۔

بے حسی کے اس دور میں جب کہ حرم کے اماموں کو ظلم کے خلاف اُف تک کہنے کا یارا نہیں ہے کہ کہیں حاکم وقت ناراض نہ ہوجائے، جب کہ مسلمان حکمرانوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں کہ بچوں کی چیخیں انھیں پریشان نہ کریں، جب کہ دو ارب مسلمان اور آٹھ ارب انسان ظلم کا ننگا ناچ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، ایسے میں مراکش کی ابتہال اور ہندوستان کی وانیا اگروال نے اس اندھی بہری دنیا کو آئینہ بھی دکھایا ہے اور راستہ بھی سُجھایا ہے۔ آپ جائے ظلم سے بہت دور رہ کر پر امن طریقے سے تن تنہا بہت بڑا احتجاج کرسکتے ہیں اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے۔

آفریں ہوں تجھ پر مراکش کی بیٹی ابتہال اور ہندوستان کی بیٹی وانیا اگروال۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے وانیا اگروال کی صدائے احتجاج میں بڑا پیغام ہے۔ وہ ہندتوا کی زہر افشانیوں سے اور مودی میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئی۔ اس نے اپنے زندہ ضمیر کی آواز سنی اور پھر اسے اس طرح بلند کیا کہ اس کی آواز پوری دنیا میں گونج اٹھی۔ آج میں اپنی کتاب ’’مسلم خواتین: ایکٹیوزم کی راہیں‘‘ کا انتساب ابتہال اور وانیا اگروال کی بہادری کے نام کرتا ہوں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ظلم کے خلاف مراکش کی کی آواز نے اپنے نہیں ہے ہے اور

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
 ہوتا ہوں آپ میں کبھی ہوتا نہیں ہوں میں
کیوں کر بنوں کسی کا کہ اپنا نہیں ہوں میں 
اک عمر یہ شعور سمجھتے گزر گئی
لیکن شعور آج بھی سمجھا نہیں ہوں میں 
اے دوست تجھ کو حق ہے مجھے تو بھی چھوڑ دے
اب تو کسی کے حق میں منافع نہیں ہوں میں 
سچ ہے ترے رفیق کے جیسا میں نہیں تھا 
خوش ہوں ترے رفیق کے جیسا نہیں ہوں میں
جاہ و جلال ہے ترا کمتر تری طرح 
دنیا ترے مقام کا بھوکا نہیں ہوں میں
سب کچھ لٹا کے خاک بسر در بدر پھرا
پر کندِ نہ تراش کو بھایا نہیں ہوں میں
کاظم ؔمرا خدا ہے جو شہ رگ سے ہے قریب 
اتنا اداس ہو نہیں تنہا نہیں ہوں میں
(کاظم رضا۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
میرا تھا مگر مجھ سے جدا ہو کے مرا ہے
اک شخص گرفتارِ انا ہو کے مرا ہے
بخشی تھی محبت نے جسے رونقِ دنیا
ویرانے میں نفرت کا خدا ہو کے مرا ہے
آواز کی لہروں کے تعاقب میں پریشاں
اک شور مری چپ کی صدا ہو کے مرا ہے
کس واسطے سورج پہ میں الزام لگاؤں
دیوار سے جب سایہ خفا ہو کے مرا ہے
مدت سے نگہباں تھا مرے ضبط کا حانی
آنکھوں سے جو کل اشک ادا ہو کے مرا ہے
(حانی ہنجرا۔ڈسکہ)

۔۔۔
غزل
دشتِ الفت میں کھو گئے آخر
جان سے ہاتھ دھو گئے آخر
رات اختر شماریوں میں کٹی
تو نہ آیا تو سو گئے آخر
تیری ہر بات مان لیتے ہیں
تو نے چاہا تو لو گئے آخر
عشق کا سلسلہ عجیب سا ہے
ہنستے پہلے تھے رو گئے آخر
جان اپنی بھی وار دی ہم نے
تم ہمارے نہ ہو گئے آخر
میرے محبوب تیری فرقت میں
چار کندھوں پہ ڈھو گئے آخر
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)

۔۔۔
غزل
 پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
لوگ مزدوری کماتے ہوئے مر جاتے ہیں 
اے بشر پیڑ نہ کاٹ اِن پہ ہمارے گھر ہیں
’ ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ‘
ایسے گھڑتے ہیں کچھ احباب مَصارع جن کو 
سب گلوکار بھی گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کتنے ہیں مصور جو تری چاہت میں
تیری تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں 
مانگتا ہے وہ تعلق میں سہولت محکم
اور ہم ساتھ نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
(زین محکم سکھیکی۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
قہقہے آنسوئوں میں تر کرلو
اب یونہی زندگی  بسر کرلو
جھوٹ کے سلسلے نہیں روکو
بس انھیں تھوڑا مختصر کرلو
اس میں آخر فریب  ملتا ہے
پیار جتنا بھی ٹوٹ کر، کرلو
غم نبھاتا ہے ساتھ مرنے تک 
سو، اسے اپنا ہمسفر کرلو
سچ نے تو آشکار ہونا ہے
تم بھلے لاکھ اگر مگر کرلو
آگہی کرب ہے نزاکتؔ جی
خود کوخودسے بھی بے خبر کرلو
 (نزاکت ریاض۔پنڈ مہری، تحصیل حسن ابدال)

۔۔۔
غزل
اُس مشربِ وصال کی وہ چاشنی ملی 
ہر چیز رقص کرتے ہوئے ڈولتی ملی
سورج کی کیا مجال جو روشن اِسے کرے 
ماہِ فلک کو تجھ سے یہ تابندگی ملی 
یہ کارِ سخت پہلے نہ تھا میرا ہم مزاج 
تجھ سے ملا تو عشق کی جادوگری ملی 
میں ہوں نوائے وقتِ سحر، نغمہ ہائے شوق
مجھ سے ہی اس چمن کو ترو تازگی ملی 
کرتا ہوں خرچ اس کو میانہ روی کے ساتھ
معلوم ہے کہ زیست نہیں مفت کی ملی
مانگا خدا سے کوئی جو مجھ کو سمجھ سکے 
بدلے میں کوئے فکر تری دوستی ملی
( جنید ضیاء۔ بونیر)

۔۔۔
غزل
پہلو نشیں رہا ہے جو کل تک کدھر گیا
جانے کہاں یہ میرا دلِ در بدر گیا 
جاتے ہیں میرے سامنے وہ غیر کی طرف
ہائے! کوئی سنبھالے یہ میرا جگر گیا
اندھے کے ہاتھ آئی ہے تلوارِ تند و تیز
آئے گا جو بھی سامنے اس کا تو سر گیا 
پھیلی ہوئی ہے ہر سو اداسی مکان میں
ایسے وہ چھوڑ کر مرے دیوار و در گیا 
اب تو دلِ بے چارہ کا چارہ نہیں کوئی
جب سے چھڑا کے ہاتھ مرا چارہ گر گیا 
پہلے پہل تو دور سے پہچانتا تھا وہ
لیکن وہ آج پاس سے گزرا، گزر گیا 
ٹھہری ہوئی ہے آج بھی یہ نظرِ پر امید
جس راہ مجھ کو چھوڑ مرا ہمسفر گیا 
آنکھوں کا رزقِ اشک ہوا تنگ کس لیے
کس واسطے یہ رنج کا  دریا اتر گیا
اک بار کے فریب سے آیا نہ باز دل
چوکھٹ پہ ان کی آج میں بارِ دگر گیا
ہیں ثبت اب بھی دل پہ نقوشِ رخِ جمال
دیکھے اسے اگرچہ زمانہ گزر گیا
اب آئے ہیں وہ کس لیے لینے مری خبر
کوئی انھیں بتاؤ کہ فیصل ؔتو مر گیا
(فیصل رشید۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
ہوا سے دوستی ہے، خواب روشنی کے ہیں
 مری جناب، مسائل یہ زندگی کے ہیں
قدم قدم پہ بکھرتی ہیں آرزو کلیاں
 جو راستے میں کھڑے پل ہیں بے بسی کے ہیں
چراغ لے کے چلے ہیں ہوا کے پہلو میں
 ہمیں خبر ہے یہ لمحے تو بے کلی کے ہیں
نگاہِ شوق میں جو عکس جگمگاتے ہیں
 وہ آئینے تو نہیں، ٹکڑے روشنی کے ہیں
صدا یہ دیتی ہے ہر شے سکوتِ شب میں کہیں
 جو درد، ہنستے لبوں پر ہیں شاعری کے ہیں
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
آنسو دکھائی دیتے ہیں کب بارشوں کے بیچ
جینا بھی اک کمال ہے ان حادثوں کے بیچ
مزدور نیند پوری کرے یا وہ دیکھے خواب
اک خواب ٹوٹتا ہے کئی کروٹوں کے بیچ
اک عکس تھا کہ جس سے تھی اچھی دعا سلام
وہ بھی نہ ٹوٹ جائے کہیں آئنوں کے بیچ
نطشے کا فلسفہ ہو کہ اقبال کی خودی
دونوں ہی دفن ہوگئے ہیں سازشوں کے بیچ 
اک دائرہ ہے زندگی اس مستطیل میں
چھپنا فضول جائے گا سب زاویوں کے بیچ  
ٹانکا کہاں چھپا ہے کہاں کوئی چاک ہے
کرتے کا رہ گیا ہے بھرم سلوٹوں کے بیچ
آنکھوں نے ضبط سیکھ لیا ایک عمر  بعد
کب تک بھلا وہ رہتی مری عادتوں کے بیچ
ٓپیتا اگر نہ زہر تو پھر سوچ یہ مقیمؔ
سقراط کیسے رہتا بھلا بزدلوں کے بیچ
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
نوائے باغباں ہم لکھ رہے ہیں 
صدائے بلبلاں ہم لکھ رہے ہیں
رقم تاریخ کی تم نے سلف کی 
تمہاری داستاں ہم لکھ رہے ہیں 
اثر انداز ہوتا تھا جو دل پر 
وہ اندازِ بیاں ہم لکھ رہے ہیں 
خزاں دیدہ چمن تم نے لکھا تھا 
بہارِ گلستاں ہم لکھ رہے ہیں 
لکھا ہے تم نے سوزِ خانقاہی 
مجاہد کی اذاں ہم لکھ رہے ہیں 
نہیں ہے جن سے واقف بزمِ دوراں 
وہ اسرارِ نہاں ہم لکھ رہے ہیں 
اندھیرا چھٹ رہا ہے دھیرے دھیرے 
چراغِ ضو فشاں ہم لکھ رہے ہیں 
نویدِ ارمغاں حیدرؔ سنائے
ابھی آہ و فغاں ہم لکھ رہے ہیں
(حیدر میواتی ندوی۔ میوات، انڈیا)

۔۔۔
غزل
تیرے بن دل میرا قبرستان ہے 
دفن جس میں ایک اک ارمان ہے
خواب سب بکھرے پڑے ہیں جابجا 
آگیا غم کا عجب طوفان ہے
بے رخی پر عقل یہ حیران ہے
یوں ملا جیسے کوئی انجان ہے 
ہجر کی شب تیری یادوں کا ہجوم 
میرے جینے کا یہی سامان ہے
آج تک کوئی نہیں بھایا مجیدؔ
وہ گیا دل کا چمن ویران ہے
(مجید سومرو۔ پنو عاقل، سندھ)

۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنی سی بس شکایت ہے
لمحہ بھر بھی نہیں رعایت ہے
دلِ مضطر سکون پائے جو
کیا پڑھوں کونسی وہ آیت ہے
یاخدا بخش دے، نجات اب تو
دل ہزیمت طرف سے غایت ہے
بن چکا ہے جگر نوالہ اب
سانس رک جا تجھے ہدایت ہے
موت دعوت کرے منور ؔکی
زیست کو اس قدر حمایت ہے
(منور علی۔ گجرات)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • فضائی کمپنی نے مسافر کو جہاز سے اترجانے کے لیے 3 ہزار ڈالر کی پیشکش کیوں کی؟
  • گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر کیوں، لکی موٹرز نے وجہ بتادی
  • امریکا نے ایرانی ایل پی جی کمپنی اور اس کے کارپوریٹ نیٹ ورک پر بھی پابندیاں عائد کردی
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • ٹیسلا کی فروخت، منافع میں کمی، ایلون مسک کا حکومت میں اپنا کردار کم کرنے کا اعلان
  • ٹیسلا کو بڑا جھٹکا کمپنی کے منافع میں70فیصد کمی
  • وفاقی دارالحکومت میں نجی سیکورٹی کمپنیز اور گارڈز کی انسپکشن ، نجی سیکورٹی کمپنی کا منیجر ،بغیر لائسنس اسلحہ استعمال کرنے والے گارڈزگرفتار
  • تین بڑے ایئرپورٹس پر ای گیٹس کی تنصیب کا معاملہ، جرمن کمپنی کا پی اے اے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ
  • صارفین کی حقیقی عمر کی تصدیق کیلئے میٹا نے اے آئی کا سہارا لے لیا