بھارت: وقف بل منظوری کے بعد مکیش امبانی سے 15 ہزار کروڑ کا بنگلہ خالی کرانے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
دنیا بھر کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک بھارتی تاجر مکیش امبانی اور نیتا امبانی کو ممکنہ طور پر اپنا 15 ہزار کروڑ روپے کا بنگلہ اینٹیلیا خالی کرنا پڑ سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں بھارتی حکومت کی جانب سے منظور ہونے والے قانون وقف ترمیمی بل مکیش امبانی کو اینٹیلیا خالی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ممبئی میں واقع مکیش امبانی اور نیتا امبانی کا 5 ارب ڈالرز کا پُر تعیش بنگلہ اس زمین پر تعمیر ہے جہاں اس سے قبل یتیم خانہ قائم تھا جسے چیریٹیبل ٹرسٹ کے تحت چلایا جاتا تھا۔
بھارتی سیاسی رہنما اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ انٹیلیا جس زمین پر بنایا گیا تھا وہ اصل میں وقف ٹرسٹ کی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 1986ء میں کریم بھائی ابراہیم نے یہ زمین وقف بورڈ کو عطیہ کی تھی، تاہم 2002ء میں مہاراشٹر حکومت کے شدید دباؤ پر بورڈ نے یہ زمین مکیش امبانی کو اونے پونے داموں میں بیچ دی تھی حالانکہ ازروئے اسلامی قانون وقف جائیداد نہ فروخت ہو سکتی ہے نہ ٹرانسفر۔
واضح رہے کہ اس غیرقانونی خرید و فروخت کا مقدمہ اس وقت بھارتی سپریم کورٹ میں لٹکا ہوا ہے۔
اس کے باوجود 2006ء سے 2010ء کے درمیان امریکی آرکیٹیکچرل فرم نے اینٹیلیا کو ڈیزائن اور تعمیر کیا، جو اب دنیا کی مشہور و مہنگی ترین نجی رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔
مزیدپڑھیں:اسکول ٹیچر کی کلاس میں سونے کی ویڈیو وائرل
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مکیش امبانی
پڑھیں:
بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کے دور میں کشمیری صحافیوں پر ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کی کٹھ پتلی انتظامیہ آزاد صحافیوں کی آوازوں کو خاموش کرانے اور آزادی صحافت کو دبانے کے لیے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کشمیری صحافیوں کو مسلسل مظالم کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کے دور میں کشمیری صحافیوں پر ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کی کٹھ پتلی انتظامیہ آزاد صحافیوں کی آوازوں کو خاموش کرانے اور آزادی صحافت کو دبانے کے لیے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019ء کے بعد مقبوضہ علاقے میں بھارتی ایجنسیاں صحافیوں کو سچ بولنے پر گرفتار اور ہراساں کر رہی ہیں اور انہیں بار بار طلبی، چھاپوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو محض اپنا کام کرنے پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں میڈیا کو ہندوتوا کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے شدید دبائو کا سامنا ہے جبکہ بھارت کا گودی میڈیا بی جے پی کے فرقہ وارانہ اور کشمیر دشمن ایجنڈے کا پرچار جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق اور میڈیا کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ آزادی صحافت پر بھارت کی منظم پابندیوں اور کشمیری صحافیوں کو مسلسل نشانہ بنائے جانے کا سنجیدہ نوٹس لیں۔ بیان میں کہا گیا کہ دنیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میںسچ پر حملوں اور صحافت کو جرم بنانے پر بی جے پی حکومت کا محاسبہ کرنا چاہیے۔