اہل تشیع کو تعلیمی نصاب کے متعلقہ اداروں میں نمائندگی دی جائے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مکاتب فکر کو نصاب تعلیم کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت سمیت قومی، تعلیمی اور دینی اداروں میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ موجودہ نصاب تعلیم کے سلسلے میں اہل تشیع کے موقف کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قوم کو متعلقہ اداروں میں نمائندگی دی جائے۔ اپنے جاری کردہ بیان میں مرکزی رہنماء مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور چیئرمین نصاب تعلیم کمیٹی علامہ مقصود علی ڈومکی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مکاتب فکر کو نصاب تعلیم کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت سمیت قومی، تعلیمی اور دینی اداروں میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام اور نصاب میں اہل تشیع کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے، جو کہ آئینِ پاکستان اور اسلامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
علامہ ڈومکی نے سات مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ علماء بورڈ کے ایکٹ کی شق 6، جز 3 میں ترمیم کی جائے تاکہ فیصلے اکثریتی دباؤ کے بجائے تمام مکاتب کے عقائد کی روشنی میں اتفاق رائے سے ہوں۔ انکا مطالبہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی سفارشات کی روشنی میں صدیوں سے رائج متفق علیہ درود شریف میں تبدیلی کا عمل روکا جائے، اور متنازعہ نصاب تعلیم کے حوالے سے ملک کے کروڑوں شیعہ سنی مسلمانوں کے مطالبات شامل کرتے ہوئے 1975 کی طرز پر نیا نصاب تعلیم مرتب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان میں اہل تشیع کو مساوی نمائندگی دی جائے، جیسا کہ متحدہ علماء بورڈ میں ہے۔
انکا مطالبہ ہے کہ قومی نصاب کونسل اور نصاب تعلیم کمیٹیز میں بھی تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو برابر نمائندگی دی جائے۔ ٹیکسٹ بک بورڈز کی دینی کتب کی جائزہ کمیٹیوں میں چاروں مکاتبِ فکر کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامیات کے ماہرین مضمون چاروں مسالک سے لیے جائیں۔ اسلامیات کے مسودات کی منظوری کے لئے تمام مکاتب فکر پر مشتمل علماء کی کمیٹی کی اجازت اور اتفاق رائے لازمی قرار دیا جائے۔ اکثریت کی بنیاد پر کسی مسلک پر زبردستی اپنے عقائد مسلط کرنے کا عمل کسی طور پر درست نہیں۔
علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ اہل تشیع کی مسلسل نظراندازی، آئین پاکستان بنیادی شہری حقوق اور ملی وحدت کے منافی ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تقریباً سات کروڑ اہل تشیع شہری اس وقت مختلف ریاستی اداروں میں نمائندگی سے محروم ہیں۔ شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر اہم پلیٹ فارمز پر اہل تشیع علماء کی نمائندگی نہ ہونا تشویشناک امر ہے۔ بعض اداروں میں صرف ایک یا دو افراد کو نمائندگی دی جاتی ہے، جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت واقعی مذہبی ہم آہنگی، اتحادِ امت اور مساوات پر یقین رکھتی ہے تو تمام فیصلے اور تقرریاں مساوی نمائندگی کے اصول کے تحت کی جائیں۔ اور متنازعہ نصاب تعلیم کو 1975 کے نصاب تعلیم کو فرقہ وارانہ تعصب سے پاک کرتے ہوئے 1975 کے نصاب تعلیم کی طرز پر از سر نو ترتیب دیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل نمائندگی دی جائے نصاب تعلیم کو پاکستان میں علامہ مقصود تمام مکاتب انہوں نے اہل تشیع ڈومکی نے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
نجکاری کمیشن کے تمام فیصلوں کی میں خود نگرانی کروں گا( وزیراعظم)
خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ناگزیر ہے، شہباز شریف
قومی اداروں کی بیش قیمت اراضی پر ناجائز قبضہ کسی صورت قبول نہیں، جائزہ اجلاس میں بات چیت
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے، نجکاری کمیشن کو مکمل خود مختاری دی جائے گی، تمام فیصلوں کی میں خود نگرانی کروں گا۔وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ریاستی ملکیتی اداروں (SOEs ) کی نجکاری پر پیش رفت پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔وزیراعظم نے کہا کہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملکی معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے، نجکاری کے عمل کو موثر، جامع اور مستعدی سے کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، منتخب انجکاری کمیشن کے تمام فیصلوں کی میں خود نگرانی کروں گا( وزیراعظم)داروں کی نجکاری میں تمام قانونی مراحل اور شفافیت کے تقاضے پورے کیے جائیں، قومی اداروں کی بیش قیمت اراضی پر ناجائز قبضہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔وزیراعظم نے خصوصی ہدایت دی کہ نجکاری کے مراحل میں قومی اداروں کی ملکیت میں بیش قیمت اراضی کے تصفیے میں ہر ممکن احتیاط ملحوظ خاطر رکھی جائے، مذکورہ اداروں کی مرحلہ وار نجکاری کے اہداف مارکیٹ کے معاشی ماحول کے مطابق مقرر کیے جائیں تاکہ قومی خزانے کو ممکنہ نقصان سے ہر صورت بچایا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کے مراحل میں سرخ فیتے اور غیر ضروری عناصر کا خاتمہ کرنے کے لئے نجکاری کمیشن کو قانون کے مطابق مکمل خود مختاری دی جائے گی، تمام فیصلوں پر مکمل اور موثر انداز میں عمل درآمد یقینی بنایا جائے، نجکاری کمیشن میں جاری کام کی پیشرفت کی باقاعدگی سے خود نگرانی کروں گا۔وزیراعظم نے کہا کہ نجکاری کے مراحل اور اداروں کی تشکیل نو میں پیشہ ور ماہرین کی مشاورت اور بین الاقوامی معیار کو برقرار رکھا جائے۔وزیراعظم کو 2024ء میں نجکاری لسٹ میں شامل کیے گئے اداروں کی نجکاری پر پیشرفت پر بریفنگ دی گئی۔ انہیں بتایا گیا کہ نجکاری کمیشن، منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری میں قانونی، مالیاتی اور شعبہ جاتی تقاضوں کو مدنظر رکھ رہا ہے، منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری کو کابینہ سے منظور شدہ پروگرام کے تحت مقررہ وقت میں مکمل کیا جائے گا،پی آئی اے، بجلی کی ترسیل کار کمپنیز (ڈسکوز)، سمیت نجکاری کی لسٹ میں شامل تمام اداروں کی نجکاری کو مقررہ معاشی، اداراجاتی اور انتظامی اہداف کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔اجلاس میں وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن سردار اویس خان لغاری، وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، چیٔرمین نجکاری کمیشن محمد علی، وزیر مملکت برائے خزانہ و ریلوے بلال اظہر کیانی اور دیگر متعلقہ سرکاری افسران اور اعلی حکام نے شرکت کی۔