چین کی جوابی کاروائی امریکی مصنوعات پر125فیصدنیا ٹیرف عائدکرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 اپریل ۔2025 )امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی میں نئی پیش رفت ہوئی ہے اوربیجنگ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف کے نفاذکے جواب میں امریکہ سے آنے والی درآمدی اشیا پر 125 فیصد نیا ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جو ہفتے کے روز سے نافذ العمل ہوگا.
(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں چین، امریکہ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف میں اضافے کا جواب ویسے ہی ٹیرف بڑھا کر دے رہا ہے اگرچہ چین کی وزارتِ تجارت نے امریکی ٹیرف کو نمبرز کا کھیل اور غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک مذاق بن کر رہ جائے گا لیکن اس کے باوجود بیجنگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے مزید کسی ٹیرف کا جواب نہیں دے گا.
ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ میں اضافہ ممکن ہے اور امریکا جوابی کاروائی کے طور پر چین پر ٹیرف میں مزید اضافہ کرسکتا ہے جس عندیہ وائٹ ہاﺅس دے چکا ہے کہ کچھ چینی مصنوعات پر 145 فیصد تک ٹیرف لگ سکتا ہے فینٹانائل (ایک خطرناک نشہ آور دوا) بنانے والی کمپنیوں پر پہلے ہی20 فیصد ٹیکس لاگو ہے. چین کے اعلان سے قبل یورپ کی سٹاک مارکیٹوں میں کاروبار کا آغاز احتیاط کے ساتھ ہوا لیکن اب ان میں مندی دیکھنے میں آئی ہے امریکہ کے مشرقی ساحل پر ابھی کاروبار کا آغازنہیں ہوا اس لیے ابھی تک صدر ٹرمپ کی جانب سے صدر شی جن پنگ کے تازہ اقدام پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں طاقتوں کی تجارتی جنگ سے پوری دنیا کو معاشی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے چینی قیادت کا کہناہے کہ وہ کسی دباﺅ یا دھمکی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے گی خاص طور پر ایسے دباﺅ کے جسے وہ بارہا ٹرمپ انتظامیہ کی ”ہٹ دھرمی“ قرار دے چکی ہے ٹیرف کی جنگ شروع ہونے سے پہلے چین کی امریکہ کو برآمدات کی مالیت بہت زیادہ تھی لیکن اگر اسے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ صرف دو فیصد بنتی ہے. چینی حکومت نے اپنی عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ امریکہ کے معاشی حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ چین کی طرف سے لگائے جانے والے جوابی ٹیرف بھی امریکی برآمد کنندگان کو نقصان پہنچا رہے ہیں ادھر چین بار بار اس عزم کا اظہار کررہا ہے کہ بیجنگ ہتھیار ڈالنے والا نہیں ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جانب سے چین کی
پڑھیں:
ٹرمپ کی پالیسیاں، تنازعات کا ابھار
امریکا کے عالمی شہرت یافتہ ہالی ووڈ سٹی لاس اینجلس میں پرتشدد مظاہروں کی خبریں سب کے لیے حیرانی کا باعث ہیں۔ یہ شہر، ایکٹرز ، ایکٹرسز، سنگرز، پروڈیوسرز کی رہائش گاہوں اسٹوڈیوز کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ ریاست کیلیفورنیا کا یہ شہر جدیدیت اور امن و امان کے لیے مشہور ہے ۔اس شہر میں صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے خلاف مظاہرے ہونا امریکا کی حالیہ سیاست میں نئی تبدیلی ہے ، اطلاعات کے مطابق یہ مظاہرے امریکا کے دیگر شہروں میں پھیل سکتے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ حکومت نے احتجاج کو روکنے کے لیے نیشنل گارڈز کو تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیلیفورنیا کی ریاستی حکومت نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے، جس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ لاس اینجلس میں مظاہروں کے ردِ عمل میں نیشنل گارڈ ز کی تعیناتی کو غیرآئینی قرار دے اور مستقبل میں ایسی کسی بھی تعیناتی کو روکنے کا حکم جاری کرے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے ردعمل میں احتجاج آنے والے دنوں میں ان کے لیے مزید مشکلات کا سبب بن سکتا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس 2 اپریل سے تجارتی محاذ پر ٹیرف وارکا آغازکر رکھا ہے۔ ان کی جارحانہ ٹیرف پالیسی کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم بظاہر امریکا کی معیشت کو بچانے کے لیے ایسے اقدامات کررہے ہیں لیکن وقت بتائے گا کہ یہ اقدام کتنا فائدہ مند رہا ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پر دنیاکے تمام ممالک نے شدید ردعمل دیا ہے۔ یوںدنیا کے سخت ردعمل نے صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے؟کیا ان کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت کو مضبوط کر پائے گی یا کساد بازاری میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟ امریکا کی گرتی ہوئی معیشت اور ٹیرف کے خلاف مختلف ممالک کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ مختلف ممالک کی کمپنیاں ٹیرف ادائیگی کے برعکس امریکا کے اندر تجارتی لین دین سے گریز اختیار کرسکتی ہیں کیونکہ دوسرے ممالک جو بھی اقدام اٹھاتے ہیں امریکا کی معیشت پر اس کا منفی اثر ہوگا۔
چین ،جاپان اور جنوبی کوریا مزید ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ ان حالات میں چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ امریکا کی تجارت اگر رک جاتی ہے تو امریکی شہریوں کے لیے مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے گا، جس کے باعث امریکی جی ڈی پی میں نمایاں کمی آ سکتی ہے، جب کہ دوسری طرف چین کی معیشت مزید بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ چین کے علاقائی بلاکس بشمول آسیان کے ملا کر کل29 ممالک کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدات ہیں جن میں پاکستان سنگا پور، نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا، کمبوڈیا، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، لاوس فلپائن وغیرہ شامل ہیں جن کے ساتھ تجارت میں مزید تیزی آنے کے واضع امکانات موجود ہیں۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی خود امریکا کے لیے کیونکر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ امریکا بنیادی طور پر ایک کنزیومر سوسائٹی ہے۔ اگرچہ جنگی ساز و سامان، ہوائی جہاز اور بڑی صنعتیں امریکا میں کام کررہی ہیں تاہم عام ضروریات زندگی میں استعمال ہونے والی تمام اشیا امریکا درآمد کرتا ہے۔
ساری دنیا کا مال امریکا میں فروخت ہوتا ہے۔ ان حالات میں ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت میں بہتری لانے کے بجائے امریکا کے لیے مزید مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔60 ممالک پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مطلب ہے کہ 60 فیصد تجارت ختم بھی ہوسکتی ہے۔ جس سے امریکا کے اندر مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے ، جس سے امریکی عوام میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے۔ برکس ممالک کا رول مذید بہتر ہوکر سامنے آسکتا ہے۔ امریکا کا سب سے بڑا اتحادی یورپ بھی برکس کی طرف جھکاؤ کر سکتا ہے۔
ڈبلیو ٹی او معاہدات کی ایک اہم شق یہ بھی ہے ٹیرف کو کم سے کم کیا جائے۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ان معاہدات کی بھی نفی ہے۔کیا ’’لبریشن ڈے‘‘ امریکی معیشت کیانجماد و زوال کی بنیاد بھی بن سکتا ہے؟ ایسی رائے دینا قبل از وقت ہے تاہم حالات کا رخ تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی اور اگر رد عمل شدید آتا ہے جیسا کہ نظر آرہا ہے تو امریکی معیشت کا متاثر ہونا لازمی ہے ۔ امریکا نے ساری دنیا کے خلاف محاذ بنا لیا ہے ،ہ آیندہ چل کر امریکا اپنے اتحادیوں سے علیحدہ بھی ہو سکتاہے۔ جس کے باعث دنیا نیو ورلڈ کے برعکس ایک نئے معاشی آرڈرکی طرف بڑھ سکتی ہے۔ کیا امریکا اور اس کے تھنک ٹینکس اتنی بڑی اسٹرٹیجک غلطی کر سکتے ہیں؟
ادھر صدرڈونلڈ ٹرمپ اورایلون مسک کے درمیان تعلق میں بھی اس وقت ایک بڑی دراڑ دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ دونوں کے درمیان رسہ کشی کے بڑے سیاسی اور معاشی نتائج نکل سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران روس، یوکرین اور حماس اسرائیل کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو ایسی جنگیں صرف ایک ٹیلی فون کال پر ختم کرا دیں گے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران ان مذاکرات میں شامل ہے جن کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے بدلے جنگ بندی معاہدہ طے کرنا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے اسٹیٹ ڈائننگ روم میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ غزہ اس وقت ہمارے اور حماس اور اسرائیل کے درمیان وسیع پیمانے پر مذاکرات کے وسط میں ہے۔ ایران درحقیقت اس میں شامل ہے اور ہم دیکھیں گے کہ غزہ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ہم قیدیوں کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے اس معاملے کی وضاحت نہیں کی اور وائٹ ہاس نے مذاکرات میں ایران کے شامل ہونے کی تفصیلات کے لیے درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔ نیویارک میں اقوامِ متحدہ میں ایران کے مشن نے بھی تبصرے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔
روس، یوکرین جنگ جاری ہے، چاہے ٹرمپ دعویٰ کرتے رہیں کہ وہ مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ روس کو روکنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ ادھر یوکرین کے صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ یوکرین کی شمولیت کے بغیر مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور یوکرین ایسے کسی مذاکرات کے نتیجے کو قبول نہیں کرے گا۔روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تھا اور فریقین کے درمیان تین سال بعد بھی لڑائی جاری ہے۔
جنگ کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوچکی ہیں جب کہ یوکرین میں بڑی تعداد میں آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اسی طرح امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیلی سرزمین میں گھس کر حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو اسرائیل پر کبھی حملہ نہیں ہوتا۔ فلسطینیوں کا خیال ہے کہ تل ابیب کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی، چاہے وائٹ ہاؤس میں کوئی بھی آئے۔متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ سمیت دنیا بھر میں جنگیں ختم کرنے کے ٹرمپ کے وعدے پیچیدہ حقیقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔
متعدد مبصرین نے کہا کہ امریکی صدر جنگ بندی کا معاہدہ کر سکتے ہیں لیکن یہ اسرائیل کی شرائط اور مفادات کے مطابق ہوگا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے حصول کے لیے مصر، قطر اور امریکا کی قیادت میں کئی ماہ کی علاقائی اور بین الاقوامی ثالثی ناکام رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنے میں ناکام ہیں یا وہ اسے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ طویل عرصے سے تنازع کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے خبردارکیا تھا کہ بنیامن نیتن یاہو اگر جنگ جاری رکھتے ہیں تو اس میں تنہا ہوں گے۔ اسرائیل نے غزہ میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو وسعت دی ہے اور انسانی امداد کی بندش کو جاری رکھا ہے۔ روزانہ فضائی حملوں میں فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے جب کہ نیتن یاہو نے ’حماس کو ہمیشہ کے لیے تباہ‘ کرنے کے لیے پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اسرائیل کے آپریشن عربات جدعون (Gideon’s Chariots) کو انجام دینے کے لیے جنوبی اور شمالی غزہ میں اضافی فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر ان کی چھتوں سے جبراً محروم کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی بے دخلی ہمیشہ سے بنیامن نیتن یاہو کا مقصد رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور انسانی امداد کی ناکہ بندی نے بین الاقوامی سطح پر اضطراب پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے اس سنگین صورت حال کو ’’ ناقابلِ بیان، ظالمانہ اور غیر انسانی‘‘ قرار دیا ہے۔