ٹرمپ کی دھمکیوں کے سائے میں ایران امریکا جوہری مذاکرات آج ہوں گے
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
واشنگٹن:
ٹرمپ کی دھمکیوں کے سائے میں ایران امریکا جوہری مذاکرات آج عمان میں ہوں گے۔
مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی کریں گے جبکہ امریکی وفد کی نمائندگی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کریں گے، عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران ان مذاکرات میں شدید شکوک و شبہات کے ساتھ شریک ہو رہا ہے خاص طور پر جب امریکا اور اسرائیل کی جانب سے مسلسل دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر امریکا پر زور دیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے فوجی حملے کیے جائیں دوسری جانب ٹرمپ نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو ایران پر شدید بمباری کی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس نے جمعہ کو ایک بار پھر ٹرمپ کی دھمکی دہرائی کہ اگر ایران نے اپنا جوہری پروگرام ختم نہ کیا تو "اسے بھاری قیمت چکانا ہوگی"۔
امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے وال اسٹریٹ جرنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی "ریڈ لائن" یہ ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل نہ ہو اور جوہری پروگرام کا خاتمہ مذاکرات کی ابتدائی شرط ہے تاہم انہوں نے مفاہمت کے دوسرے راستوں کے لیے آمادگی کا بھی عندیہ دیا۔
دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ہونے والے اعلیٰ سطحی جوہری مذاکرات کے ذریعے خلوص نیت کے ساتھ سفارتکاری کو ایک حقیقی موقع دے رہا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ایکس پر کہا کہ امریکا کو ایران کے مذاکرات میں شامل ہونے کے فیصلے کی قدر کرنی چاہیے مگر واشنگٹن کا انداز اب بھی جارحانہ اور دھمکی آمیز ہے۔
ایرانی نائب وزیر خارجہ مجید تختِ روانچی نے کہا کہ اگر امریکا کی جانب سے دھمکیاں اور دباؤ نہ ہو تو معاہدے تک پہنچنے کے امکانات روشن ہیں تاہم ہم ہر قسم کی دھونس اور دھمکی کو مسترد کرتے ہیں۔ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے ایکس پر لکھا کہ ایران نے اہم اور عملی تجاویز تیار کی ہیں تاکہ منصفانہ معاہدہ ممکن ہو سکے۔
ایران نے واضح کیا ہے کہ یہ "بالواسطہ مذاکرات" ہوں گے جن میں عمان ثالثی کرے گا۔ ایران کے مطابق عراقچی "مکمل اختیارات" کے ساتھ مذاکرات کے لیے روانہ ہو رہے ہیں تاہم ٹرمپ کا کہنا کہ یہ "براہِ راست مذاکرات" ہوں گے۔
یاد رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان سابق صدر باراک اوباما کے دور میں جوہری معاہدہ ہوا تھا، جس سے 2018 میں صدر ٹرمپ نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
اس کے بعد ایران نے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا، جس سے مغرب کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ سکتا ہے، حالانکہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا پروگرام مکمل طور پر پرامن توانائی کے حصول کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملے شروع ہو چکے ہیں جبکہ لبنان اور شام پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی جانب سے یمن میں حوثی اہداف پر حملے بھی جاری ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان مذاکرات سے کسی ممکنہ معاہدے کے آثار نظر آئے تو خطے میں جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے کہ ایران کی جانب سے ایران نے کے ساتھ کہ اگر ہوں گے کے لیے
پڑھیں:
ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد ( میاں منیر احمد) کیا امریکا اور ایران کے درمیان ڈیل ممکن ہے؟ جسارت کے سوال کے جواب میں سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ایران امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہوسکتا ہے‘ پاکستان مسلم لیگ(ض) کے صدر رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز الحق نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک امریکا سے برابری کی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایران نے سفارتکاری سے کبھی انکار نہیں کیا،مذاکرات کے ذریعے امریکا کو مناسب حل دے سکتا ہے‘ایران نے یورپی ممالک کو منصفانہ اور متوازن جوہری تجویز پیش کی ہے‘ ایران کی لیڈر شپ کہہ چکی ہے امریکا کے ساتھ ہونے والے آئندہ مذاکرات باہمی احترام کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں جس میں کوئی ملک کم یا زیادہ اہمیت پر نہیں شامل ہوگا۔ ایرانی قوم کے بنیادی حقوق پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور نہ کسی کے دباؤ میں آئے گا‘ قومی اسمبلی کے سابق دائریکٹر جنرل طارق بھٹی نے کہا کہ آج کل دونوں کے درمیان کوئی ڈیل ہونا مشکل ہے۔ میرے خیال میں 1980 سے ان کے کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔اگر ایران لبنان میں حزب اللہ کی حمایت بند کر دے تو اسرائیل کے لیے یہ واحد خطرہ ہو سکتا ہے۔ٹرمپ اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے سعودی سمیت عرب ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔مستقبل میں کچھ بھی ہوا۔ تو دیکھتے ہیں ٹرمپ انتظامیہ اس میں کہاں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔اسرائیل کی مستقبل کی حکمت عملی پر بھی انحصار کرتا ہے کہ آیا وہ فلسطین میں خاص طور پر غزہ میں امن قائم کرنے اور بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی اجازت دیتا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو موقع مل سکتا ہے۔تو آئیے انتظار کریں اور دیکھیں۔ تجزیہ کار رضا عباس نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں باالکل بھی ایسا نظر نہیں آرہا مگر یہ کہ ایران کا ولایت فقیہ کا نظام تبدیل کردیا جائے‘ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ ایران نے یورپی ممالک کو ایک منصفانہ اور متوازن جوہری تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز ناصرف حقیقی خدشات کو دور کرے گی بلکہ فریقین کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند بھی ثابت ہوگی۔ بزنس کمیونیٹی کے ممبر اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سینئر ممبر اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ ایران نے ایرانی جوہری تنصیبات پر کی گئی غیر قانونی بمباری کے باوجود انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IAEA کے ساتھ نیا معاہدہ کیا ہے جو تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔