عمان میں ایران امریکا بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم؛ آئندہ کا لائحہ عمل طے پاگیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا عمان میں آغاز ہوگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عمان کی میزبانی میں ایران اور امریکا کے مذاکرات کاروں کا بالواسطہ کا بات چیت کا پہلا دور ختم ہوگیا۔
ایران کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ امریکا کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے وزیرخارجہ عباس عراقچی کی قیادت میں وفد مسقط میں موجود ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے مذاکرات کاروں نے چند منٹ کی براہ راست بات چیت میں آئندہ ہفتے پھر مذاکرات کے لیے جمع ہونے پر اتفاق کیا۔
دوسری جانب امریکی وفد کی قیادت امریکا کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے کی تھی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بتایا کہ ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے پہلے دور میں بات چیت تعمیری اور مثبت ماحول میں ہوئی۔
قبل ازیں عمان کے حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ ایرانی جوہری پروگرام پر کنٹرول کے بدلے امریکی پابندیوں میں نرمی، قیدیوں کے تبادلے اور علاقائی کشیدگی میں کمی پر بات ہوگی۔
تاہم مذاکرات کے بعد ایران یا امریکا کی جانب سے تاحال مذاکرات کے ایجنڈے کے بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مذاکرات کا امریکا کے بات چیت
پڑھیں:
یورینیم افزودگی روکیں گےنہ میزائل پروگرام پر مذاکرات کریں گے: ایران کا دوٹوک جواب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران : ایران نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کو روکیں گے اور نہ ہی اپنے میزائل پروگرام پر کوئی مذاکرات کریں گے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے کوئی نیا حملہ کیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
ایران انٹرنیشنل کے مطابق عباس عراقچی نے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران نے جون میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ کو مؤثر انداز میں سنبھالا اور اسے خطے میں پھیلنے سے روکا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کسی بھی نئی جارحیت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور اگر لڑائی دوبارہ شروع ہوئی تو اسرائیل کو ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عراقچی نے تصدیق کی کہ جنگ کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، تاہم یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی محفوظ ہے اور جوہری مواد تاحال ان بمباری زدہ مراکز میں موجود ہے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ تہران مغربی دباؤ قبول نہیں کرے گا، البتہ وہ واشنگٹن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ اپنے جوہری پروگرام پر ایک منصفانہ معاہدہ طے کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایران بین الاقوامی خدشات کا ازالہ کرنے کے لیے تیار ہے لیکن حملے کے بعد کسی قسم کی رعایت نہیں دے گا۔