ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی
سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔
تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔
چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔
پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی خارجہ پالیسی مذاکرات کے مذاکرات کی مذاکرات کو میں ایران ایران کے بہت مثبت یہ ہے کہ کہ ٹرمپ کے ساتھ کرنا ہے ٹرمپ کی کا مقصد ہے اور کی ٹیم کیا جا اور اس
پڑھیں:
ٹرمپ اور شی میں فون کال کے بعد تجارتی مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر پوسٹ کیے گئے تبصروں میں، امریکی صدر نے کہا کہ "حال ہی میں ہمارے درمیان کیے گئے بعض تجارتی معاہدوں کی کچھ پیچیدگیوں پر بات چیت ہوئی۔"
ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ یہ فون کال تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی اور اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے لیے بہت مثبت نکلا۔
ٹرمپ کی ’گولڈن ڈوم‘ میزائل شیلڈ کیا، اس پر تنقید کیوں؟
ٹرمپ نے چین جانے کی دعوت قبول کر لیٹرمپ نے کہا کہچینی صدر شی جن پنگ نے انہیں اور امریکی خاتون اول کو چین کے دورے کے لیے "بڑی خوش دلی کے ساتھ مدعو کیا"، جس کا انہوں نے "مثبت" جواب دیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ "دو عظیم اقوام کے صدور کے طور پر، یہ وہ چیز ہے، جس کے ہونے کا ہم دونوں ہی انتظار کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
"ٹرمپ نے اوول آفس میں جرمن چانسلر فریڈرش میرس سے ملاقات کے دوران بھی چینی صدر سے فون کال کا حوالہ دیا اور تصدیق کی کہ وہ چین کا دورہ کریں گے۔
شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟
ٹرمپ نے کہا کہ "انہوں نے مجھے چین آنے کی دعوت دی اور میں نے انہیں یہاں مدعو کیا، ہم دونوں نے ہی اسے قبول کر لیا ہے، لہذا، میں ایک خاص موڑ پر خاتون اول کے ساتھ وہاں جاؤں گا اور وہ یہاں آئیں گے، امید ہے کہ چین کی خاتون اول کے ساتھ ۔
" امریکہ چین تجارتی مذاکراتامریکی رہنما نے کہا کہ امریکہ اور چین کی ٹیمیں "جلد ہی" کسی متعین مقام پر ملاقات کریں گی اور امریکی وفد میں سکریٹری آف ٹریژری اسکاٹ بیسنٹ، سکریٹری آف کامرس ہاورڈ لوٹنک اور امریکی تجارتی نمائندے، سفیر جیمیسن گریر شامل ہوں گے۔
ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ فون پر بات چیت تقریباً مکمل طور پر تجارت پر مرکوز رہی اور میں روس، یوکرین یا ایران سے متعلق کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق شی جن پنگ نے ٹرمپ کو بتایا کہ امریکہ کو "چین کے خلاف اٹھائے گئے منفی اقدامات کو واپس لینا چاہیے۔"
ہارورڈ میں غیر ملکی طلبہ کے داخلوں پر پابندی، چین کا رد عمل
کہا جا رہا ہے کہ چینی رہنما نے ٹرمپ کو بتایا کہ چین نے ہمیشہ اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے اور انہوں نے جنیوا میں دونوں ممالک کے درمیان حالیہ معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ اتفاق رائے ہو چکا ہے، اس لیے دونوں فریقوں کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔
یہ فون کال 90 دن تک ٹیرفس نہ نافذ کرنے کی مہلت کے درمیان ہوئی ہے، جو گزشتہ ماہ لاگو ہوئی تھی اور اس طرح دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ رک گئی۔
اس کے تحت ٹرمپ نے مذاکرات کی اجازت دینے کے لیے 90 دنوں کے لیے چینی اشیاء پر اپنے 145 فیصد ٹیرفس کو کم کر کے 30 فیصد کر دیا، جب کہ چین نے بھی امریکی اشیا پر ٹیکس 125 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا ہے۔
امریکی صدر نے اس کال کے بعد کہا کہ "نایاب معدنیات کی مصنوعات کی پیچیدگی کے حوالے سے اب کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے"۔
امریکہ اور چین دو طرفہ محصولات کی نوے روزہ معطلی پر متفق
انہوں نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا: "چینی طلبہ آ سکتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں، کوئی مسئلہ نہیں- ان کی آمد ایک اعزاز کی بات ہے۔ لیکن ہم ان کی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر