یہ بھکاری ’’ ترقی ‘‘ کی جانب گامزن
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
ایک سروے کے مطابق 24کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3کروڑ80لاکھ بھکاری ہیں۔جس میں 12فیصد مرد، 55فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50فیصد کراچی، 16فیصد لاہور،7فیصد اسلام آباد اوربقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے ۔ کراچی میں روزانہ ایک بھکاری کو ملنے والی اوسط بھیک 2000روپے ، لاہور میں 1400روپے اور اسلام آباد میں 950روپے تک ہے۔ ذرا غور فرمائیں پھر ان لوگوں کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
ایک طرف بیچارے رزق حلال 25سے 35ہزارروپے کمانے والے سفید پوش ہیں جب کہ یہ بھکاری کم از کم ماہانہ 60ہزارروپے کماتے ہیں ۔ داد دیں ان بھکاریوں کی ترقی پسندانہ سوچ کو کہ انھوں نے راتوں رات ترقی کرنے کے لیے اب سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کا رخ کرلیا ہے ۔ جہاں وہ تین سے چار لاکھ روپے ماہانہ آسانی سے کما لیتے ہیں ۔ پاکستان اگر ان بھکاریوں کی وجہ سے بدنام ہوتا ہے تو ان کی بلا سے ۔شرم دلاؤ تو ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ پاکستان خود ایک بھکاری ملک کے طور پر دنیا میں مشہور ہے ۔ اندازہ لگائیں تقریباً چار کروڑ افراد کا صرف بھیک مانگنا ہی ان کا ذریعہ معاش ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم مدتوں پہلے عزت نفس سے محروم ہو چکے ہیں ۔ اس میں قصور ہمارے حکمرانوں کا ہے ۔ کسی اور کا نہیں کیونکہ ان کے پیش نظر صرف اپنا مفاد رہا جس ملک میں کرپشن ، سفارش ، اقربا پروری کا دور دورہ ہو ، میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہو ۔ لاکھوں نوجوان اعلیٰ ڈگریاں لے کر سڑکوں پر جوتے چٹخا رہے ہوں وہاں کوئی کیا کرسکتا ہے۔ کرپشن کی حیرت انگیز ناقابل یقین خبر ابھی حال ہی میں سامنے آئی ہے کہ جعلی بھرتیوں کے ذریعے پچھلے 32 سالوں میں پنجاب میںلوکل گورنمنٹ کے ادارے کے ذریعے 6ارب سے زیادہ قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے ۔
اب تو کرپشن کا سائز بھی لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر اربوں میں پہنچ چکا ہے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ میں حال ہی میں اربوں کے گھپلے سامنے آئے ہیں اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں بیشتر اعلیٰ درجے کے اہلکار شامل ہیں یہی حال زکوۃ فنڈ کا ہے ۔ بلوچستان حکومت نے اس محکمے کو ہی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کرپشن اور خرچے حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ وہ افراد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں جو رزق حلال پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ورنہ بڑی تعداد وہ ہے جو لوٹ مار کے نئے سے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔ کرپشن کی مذمت اب وہ لوگ کرنے والے رہ گئے ہیں جو خود کرپشن نہیں کر پاتے اور انھیں کرپشن کا موقع نہیں ملتا۔
’’روزانہ ‘‘ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ ذرا روزانہ پر غور فرمائیے ! سالانہ یہ رقم 117کھرب روپے بنتی ہے ۔ ڈالر کے حساب سے یہ رقم 42ارب ڈالر بنتی ہے ۔ بغیر کسی کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 117کھرب روپے نکل جاتے ہیں ۔ اور جب کہ سونے پر سہاگہ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21''فیصد " مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ 117ارب روپے انتہائی کثیر رقم ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اس رقم کو عوام کے تعاون سے اس طریقے سے استعمال کرے کہ ایک طرف ان بھکاریوں کو با عزت روزگار ملے دوسری طرف یہ رقم ملکی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنے ۔
ادارہ شماریات پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے 8ماہ میں 5.
دنیا میں دستور یہ ہے کہ حکومتیں وہ غذائی اشیاء برآمد کرتی ہیں جو عوام کے استعمال کے بعد بچ جائیں سب سے پہلے وہ عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھتی ہے پھر بچی ہوئی اشیاء کو ایکسپورٹ کرتی ہیں یہ طریقہ اختیار کرنے سے ترقی یافتہ ممالک میں مدتوں قیمتیں ایک ہی جگہ ٹھہری رہتی ہیں ۔ وہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں یا تو اضافہ ہوتا ہی نہیں یا بہت کم نہ ہونے کے برابر ۔
گزشتہ مارچ کے آخر سے اگلے ڈھائی سالوں کے لیے دنیا ایک بدترین دور میں داخل ہو چکی ہے ۔ جس کا آغاز اپریل سے جون جولائی کے درمیان ہو جائے گا۔ جو کچھ ہو گا وہ ناقابل یقین اچانک ہوگا ۔ عروج کو زوال اور زوال کو عروج ، زلزلے آفات ، زمینی وسماوی وغیرہ سب اس کا حصہ ہونگے ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان بھکاریوں یہ ہے کہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ
اسلام آباد:وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر موجودہ اسٹرکچرل اصلاحات مکمل نہ کی گئیں تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
وفاقی وزراء اویس لغاری، شزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں، اصلاحات کی تکمیل سے ہی معاشی خودمختاری اور پائیدار ترقی ممکن ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ریاستی ملکیتی اداروں میں بڑی اصلاحات کی گئی ہیں اور وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پر تیزی سے کام جاری ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ سعودی عرب، چین اور خلیجی ممالک نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔
قرضوں کی واپسی، بانڈز کا اجرا اور پنشن اصلاحات
سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ رواں مالی سال میں 8.3 ٹریلین روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 9.8 ٹریلین روپے کے قرضے واپس کیے جائیں گے۔ اب تک 2.6 ٹریلین روپے کے قرضے واپس ہو چکے ہیں۔
امداد اللہ بوسال نے کہا کہ جلد پانڈا بانڈ اور بعد ازاں یورو بانڈ جاری کیے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ نئے ملازمین کو ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن اسکیم کے تحت بھرتی کیا جا رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک کمپنی قائم کی جا رہی ہے۔
سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ افواج میں ریٹائرمنٹ جلدی ہو جاتی ہے، اس لیے مسلح افواج کے لیے بھی ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم پر کام جاری ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں یہی اسکیم لائی گئی تھی مگر بعد میں واپس لینا پڑی۔
چیئرمین ایف بی آر کی بریفنگ
ایف بی آر کی کارکردگی اور اصلاحات سے متعلق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انکم ٹیکس کا مجموعی گیپ 1.7 ٹریلین روپے ہے، جس میں سے ٹاپ پانچ فیصد کا حصہ 1.2 ٹریلین روپے بنتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہر منگل کو ایف بی آر کا احتساب کرتے ہیں جس سے ادارے کو سپورٹ ملتی ہے۔ ٹوبیکو سیکٹر میں کارروائیوں کے دوران ایف بی آر کے دو اہلکار شہید ہوئے، جبکہ رینجرز مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ادارے میں گورننس کے حوالے سے بڑی اصلاحات کی گئی ہیں، افسران کو اے، بی اور سی کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ایف بی آر کو سیاسی و انتظامی اثر و رسوخ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹائزیشن کے باعث شوگر سیکٹر سے 75 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا، جس میں 42 ارب روپے سیلز ٹیکس اور 43 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں حاصل کیے گئے۔ ریٹیلرز سے حاصل ہونے والا ٹیکس 82 سے بڑھ کر 166 ارب روپے ہوگیا ہے۔
توانائی شعبے میں اصلاحات
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ہمیں مہنگی بجلی وراثت میں ملی، جس کی لاگت 9.97 روپے فی یونٹ ہے۔ روپے کی بے قدری اور کیپیسٹی چارجز کے باعث بجلی مہنگی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر انڈسٹری کے لیے بجلی 16 روپے فی یونٹ سستی کی گئی۔ سرپلس بجلی عوام کو 7.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیشکش کی جا رہی ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے باہر آرہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کیا جا رہا ہے۔ پاور پلانٹس کے مالکان سے مذاکرات کے ذریعے 2058 تک 3600 ارب روپے کی اضافی ادائیگی روکی گئی۔
نجکاری
وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ نجکاری کمیشن کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور نجکاری پروگرام 2024 میں 24 ادارے شامل کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری سرفہرست ہے اور اس کی خریداری کے لیے چار کنسورشیم دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہدف ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری رواں سال کے آخر تک مکمل ہو۔
محمد علی نے کہا کہ 39 میں سے 20 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ مکمل ہوچکی ہے، 54 ہزار آسامیاں ختم کر دی گئی ہیں جس سے 56 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پاسکو اور یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جا رہے ہیں جبکہ نیشنل آرکائیو آف پاکستان سمیت اہم اداروں کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔
وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی
وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم کیش لیس اکانومی کے فروغ کے لیے باقاعدہ اجلاس کر رہے ہیں۔ تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں سے ایک ان کی سربراہی میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا ایکسچینج لیئر کا پائلٹ پراجیکٹ دسمبر میں متعارف کرایا جائے گا جس سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا اور لیکج میں کمی ہوگی۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ پاکستان کی 400 ارب ڈالر کی معیشت دراصل 800 ارب ڈالر کی ہوسکتی ہے کیونکہ نصف حصہ انفارمل اکانومی پر مشتمل ہے۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ جون 2026 تک ڈیجیٹل پیمنٹس کو 20 لاکھ صارفین تک بڑھایا جائے گا۔