پاکستان سولر پینلز درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
ایمبر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کسی عالمی سرمایہ کاری، قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ممکن ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی توانائی تھنک ٹینک ایمبر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سولر پینلز درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے، 2024 میں پاکستان نے دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ 70 گیگا واٹ سولر پینلز درآمد کیے۔ ایمبر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کسی عالمی سرمایہ کاری، قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ممکن ہوا۔ پاکستان میں شمسی اور ہوا کی وسیع صلاحیت توانائی کے بحران سے نمٹنے میں مدد دے سکتی ہے۔
زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروبار اور تجارتی اداروں کی طرف سے ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔ ایمبر کی رپورٹ میں ماہانہ صلاحیت کی تنصیبات سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ دنیا اس سال کے آخر تک 593 گیگا واٹ شمسی تنصیبات تک پہنچنے کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ ایک بار پھر صنعت کی زیادہ تر پیشگوئیوں سے آگے نکل جائے گا، 2022 کے مقابلے میں 2023 میں شمسی تنصیبات میں 86 فیصد کی ریکارڈ ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ملکوں کو آج تعمیر کی جانے والی شمسی صلاحیت کی اعلیٰ سطح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور آنے والے سالوں میں صلاحیت کی مسلسل تعمیر کو یقینی بنانے کے لیے آگے کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
شمسی توانائی کے پینل گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بنیادی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)، جو گلوبل وارمنگ میں ایک بڑا معاون ہے، بجلی پیدا کرنے کے لیے سورج کی روشنی کا استعمال کرتے ہوئے، سولر پینل فوسل فیول کی ضرورت کو ختم کرتے ہیں۔ اس طرح CO2 کے اخراج میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے، گرین ہاؤس گیسوں میں یہ کمی موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے جیسے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، انتہائی موسمی واقعات، اور سطح سمندر میں اضافہ وغیرہ۔
شمسی توانائی کی پیداوار روایتی فوسل فیول پر مبنی پاور پلانٹس کے مقابلے میں کم سے کم فضائی آلودگی پیدا کرتی ہے، نقصان دہ اخراج جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO2)، نائٹروجن آکسائیڈز (NOx)، اور ذرات کی عدم موجودگی ہوا کے معیار اور صحت عامہ کو بہتر بنانے میں معاون ہے۔ فضائی آلودگی میں کمی سانس کی کم بیماریوں، قلبی امراض اور قبل از وقت اموات میں کمی کرتی ہے جس سے انسانی آبادی اور ماحولیاتی نظام دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
شمسی توانائی کے نظام کو چلانے کے لیے روایتی پاور پلانٹس کے برعکس کم سے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، جو ٹھنڈک کے مقاصد کے لیے پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، پانی کے وسائل کا یہ تحفظ خشک سالی یا پانی کی کمی کا شکار علاقوں میں خاص طور پر اہم ہے، پانی کے پائیدار انتظام کے طریقوں کو یقینی بناتا ہے۔ شمسی پینل صاف، قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کی سہولت فراہم کرتا ہے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے، ہوا کے معیار کو بہتر بناتا ہے اور پانی کے وسائل کو بچاتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایمبر کی گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اربوں پاؤنڈ مالیت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک میں جدید جوہری توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔
الجزیرہ کے مطابق یہ معاہدہ "اٹلانٹک پارٹنرشپ فار ایڈوانسڈ نیوکلیئر انرجی" کے نام سے جانا جا رہا ہے جس کا مقصد نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کو تیز کرنا اور توانائی کے بڑے صارف شعبوں، خصوصاً مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز، کو کم کاربن اور قابلِ بھروسہ بجلی فراہم کرنا ہے۔
اس معاہدے کے تحت برطانیہ کی سب سے بڑی توانائی کمپنی ’سینٹریکا‘ کے ساتھ امریکی ادارے ایکس انرجی مل کر شمال مشرقی انگلینڈ کے شہر ہارٹلی پول میں 12 جدید ماڈیولر ری ایکٹرز تعمیر کرے گی۔
یہ منصوبہ 15 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے اور 2,500 ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی کمپنی ہولٹیک، فرانسیسی ادارہ ای ڈی ایف انرجی اور برطانوی سرمایہ کاری فرم ٹریٹیکس مشترکہ طور پر نوٹنگھم شائر میں چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز (SMRs) سے چلنے والے ڈیٹا سینٹرز تعمیر کریں گے۔
اس منصوبے کی مالیت تقریباً 11 ارب پاؤنڈ (15 ارب ڈالر) بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، برطانوی رولز رائس اور امریکی بی ڈبلیو ایکس ٹی کے درمیان جاری تعاون کو بھی مزید وسعت دی جائے گی۔
برطانیہ کے پرانے جوہری پلانٹس فی الحال برطانیہ میں 8 جوہری پاور اسٹیشنز موجود ہیں جن میں سے 5 بجلی پیدا کر رہے ہیں جب کہ 3 بند ہوچکے ہیں اور ڈی کمیشننگ کے مرحلے میں ہیں۔
یہ زیادہ تر 1960 اور 1980 کی دہائی میں تعمیر ہوئے تھے اور اب اپنی مدتِ کار کے اختتامی مرحلے پر ہیں۔ موجودہ توانائی صورتحال برطانیہ اپنی بجلی کا تقریباً 15 فیصد جوہری توانائی سے حاصل کرتا ہے جو 1990 کی دہائی کے وسط میں 25 فیصد سے زائد تھی۔
خیال رہے کہ 2024 میں پہلی مرتبہ ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی (ونڈ پاور) نے ملک کا سب سے بڑا بجلی کا ذریعہ بن کر گیس سے بجلی پیدا کرنے کے عمل کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جو کُل بجلی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔
امریکا کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف امریکی جوہری ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھائے گا بلکہ برطانوی اور امریکی کمپنیوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پورے پروگرام سے 40 ارب پاؤنڈ (54 ارب ڈالر) کی معاشی قدر پیدا ہونے کا امکان ہے۔
دنیا بھر میں ایڈوانسڈ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی مانگ 2050 تک تیزی سے بڑھنے کی توقع ہے۔
امریکا میں بھی جوہری توانائی کی طلب 100 گیگا واٹ سے بڑھ کر 400 گیگا واٹ تک پہنچنے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ نے ملک کی جوہری پیداواری صلاحیت کو چار گنا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
عالمی اوسط کے مطابق ایک جوہری ری ایکٹر کی تعمیر میں تقریباً 7 سال لگتے ہیں تاہم چین میں یہ مدت پانچ سے چھ سال ہے جبکہ جاپان نے ماضی میں کچھ ری ایکٹرز صرف تین سے چار سال میں مکمل کیے تھے۔