WE News:
2025-07-24@22:10:31 GMT

چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے

چین کی مصنوعی ذہانت میں تیز رفتار ترقی نہ صرف اس کے اندرونی منظرنامے کو بدل رہی ہے، بلکہ عالمی اختراعی نمونوں کو بھی نئے سرے سے متعین کر رہی ہے۔

کھلے تعاون اور اخلاقی حکمرانی کو ترجیح دیتے ہوئے، چین مصنوعی ذہانت کو ایک مشترکہ عالمی وسائل کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اس کو صرف ٹیک اشرافیہ کیلئے آلہ کار نہیں بننے دے رہا، یعنی یہ ٹیکنالوجی صرف خواص نہیں بلکہ عوام کیلئے ہے۔

چین کا یہی نقطہ نظر جغرافیائی سیاسی مقابلے کی روایات کو چیلنج کرتا ہے، اور اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے  دنیا کیلئے ایک ایسا خاکہ پیش کر رہا ہے کہ جس میں  ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کانظام عدم مساوات کو دور کر سکتا ہے۔

عوامی رسائی: واقعی  مصنوعی ذہانت تک  پیدا ہونے والی  رکاوٹوں کو توڑتی ہے

چین کا  مصنوعی ذہانت کے فریم ورک پر زور ترقی پذیر ممالک کے لیے رکاوٹوں کو ختم کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت میں Alibaba اور  DeepSeek جیسی کمپنیاں اپنے جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو مفت ڈاؤن لوڈ کے لیے پیش کر رہی ہیں، جو ڈویلپرز کو API فیس ادا کیے بغیر مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

پاکستانی قارئین کیلئے اگر صرف  اُردو کے ترجمے کی بات کی جائے تو Deep Seek  چیٹ جی پی ٹی کی نسبت بہتر مترجم ہے اور ساتھ یہ کہ شاعری کو بھی سمجھتی ہے اور استعمال میں بھی بالکل آسان ہے۔

اس کے علاوہ چین کی مصنوعی ذہانت پر مبنی حل ترقی پذیر آبادیوں کو ٹیکنالوجی کی رکاوٹوں کو توڑنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اس کی ایک مثال Huawei کی TrackAI مہم ہے، جو بچوں میں بینائی کی خرابیوں کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت سے چلنے والی آنکھوں کی ٹریکنگ الگورتھم کا استعمال کرتا ہے۔

اخلاقی حکمرانی: عالمی مصنوعی ذہانت کے ضوابط کے لیے ایک درمیانی راستہ

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر بحث شدت اختیار کر رہی ہے، تو  اس حوالے سے چین نے 2023 کے جنریٹو مصنوعی ذہانت کی حوالے سے عارضی ضوابط  کا ایک “ڈیٹا ڈی سنسٹائزیشن گریڈنگ سسٹم” متعارف کرایا، جو رازداری کے تحفظ اور اختراعی ترغیبات کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہ ضوابط مختلف نقطہ ہائے نظر کے درمیان ایک ممکنہ پل فراہم کرتے ہیں۔

EU کے GDPR – جو سخت ڈیٹا پابندیاں عائد کرتا ہے – یا Silicon Valley کی خود ضابطہ کاری کی ترجیح کے برعکس، چین کا فریم ورک ڈیٹا کی حساسیت کے حوالے سے مختلف سطحوں پر درجہ بندی کرتا ہے۔ جس سے ترقی کو روکے بغیر حسب ضرورت تحفظات کی اجازت ملتی ہے۔

یہ عملی ماڈل جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطی جیسے خطوں میں توجہ حاصل کر چکا ہے، جہاں پالیسی ساز مصنوعی ذہانت کی صنعتوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ غلط استعمال کے بارے میں عوامی خدشات کو دور کرنا چاہتے ہیں۔

قابل توسیع حکمرانی کے فریم ورک کو آزماتے ہوئے، چین عالمی معیارات کو متاثر کر رہا ہے، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ اخلاقی مصنوعی ذہانت تیز رفتار  کے ساتھ بقاء پا سکتی ہے۔

“لانگ ٹیل” کو بااختیار بنانا: چھوٹے کاروباروں اور ترقی پذیر منڈیوں کے لیے مصنوعی ذہانت

چینی مصنوعی ذہانت کے ٹولز چھوٹے پیمانے کی معیشتوں کو نئی زندگی دے رہے ہیں، جنہیں روایتی ٹیکنالوجی اکثر نظر انداز کر دیتی ہے۔

 Alibaba کے AliExpress جیسے کراس بارڈر ای کامرس پلیٹ فارمز اب مصنوعی ذہانت سے چلنے والے مارکیٹنگ ٹولز کو شامل کرتے ہیں، جو لاطینی امریکہ اور جنوبی ایشیا کے چھوٹے کاروباریوں کو قیمتوں کا تعین، ترجمہ اور گاہک کے ساتھ تعامل کو بہتر بنانے کے قابل بناتے ہیں۔

ویڈیو گیم تخلیق کار اب Tencent کے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے متن یا تصاویر سے براہ راست 3D اشیا تیار کر سکتے ہیں، جو آزاد ڈویلپرز کو ان کے خواب کی دنیا کو حقیقت بنانے اور تجارتی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

چین کا موبائل میں مصنوعی ذہانت  کا بڑھتا استعمال اور فروخت میں اضافہ

چینی میڈیا پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں عالمی سطح پر موبائل فون کی فروخت میں شیاؤمی صرف ایپل اور سام سنگ سے پیچھے تھا۔

جہاں ایپل کا مارکیٹ کا تقریبا 19 فیصد حصہ تھا اور سام سنگ 18 فیصد کے قریب تھا، وہیں شیاؤمی 14 فیصد تک بڑھ گیا۔ ہواوے اور ویوو نے بھی پچھلے سال چین میں اپیل کے مقابلے میں زیادہ فون فروخت کیے۔ اس کی ایک وجہ ان فونز میں مصنوعی ذہانت کو شامل کرنا ہے، چینی کمپنیاں اس طرف بہت زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔

چین تعلیم کے شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بھرپور کام کر رہا ہے

چین  مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سوچ کر بڑھ کر کا م کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی تعلیم کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ، چینی یونیورسٹیاں صنعتوں اور کمپنیوں کے ساتھ تعاون پر بھی بہت زور دیتی ہیں۔

مثال کے طور پر، مشرقی چین کے صوبہ جیانگسو کی نانجنگ یونیورسٹی نے بائیڈو اور ہواوے جیسی معروف ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے تاکہ AI پر مبنی تدریس اور تشخیص کو سپورٹ کرنے والے ذیلی ٹولز تیار کیے جا سکیں۔

اسی طرح، چین کے جنوب مغربی صوبہ سیچوان میں واقع چینگڈو کی ساؤتھ ویسٹ جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی نے ایمیزون، جے ڈی ڈاٹ کام اور دیگر کمپنیوں کے ساتھ شراکت کر کے AI کورسز ڈیزائن کیے ہیں تاکہ طلباء کے عملی ہنر کو بڑھایا جا سکے۔

یونیورسٹی نے انڈرگریجویٹ سے ڈاکٹریٹ سطح تک مصنوعی ذہانت کے لیے اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی تربیت کا نظام بھی قائم کیا ہے۔

جنوری میں چین کے تعلیمی شعبے کے طویل المدت وژن کو ایک ماسٹر پلان کے اجرا کے ذریعے مزید تقویت ملی، جس میں 2035 تک چین کو تعلیم کے میدان میں ایک اعلیٰ قوم بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

چین کے وزیر تعلیم ہوائی جن پینگ نے کہا، “ڈیپ سیک اور روبوٹکس چین کی ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت اور صلاحیتوں کی تربیت میں کامیابیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ یہ ہماری تعلیمی ترقی اور صلاحیتوں کی تربیت پر نئی ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں۔”

آن لائن بھرتی کے پلیٹ فارم ژاؤپن کے ایک سروے کے مطابق، فروری میں ڈرون انجینئرز، الگورتھم انجینئرز اور مشین لرننگ کی نوکریوں میں تقریباً 40 فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔

صنعتی رپورٹس کے مطابق، 2030 تک چین میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین کی 4 ملین کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ضرورت واضح ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا  افرادی صلاحیتوں کی تربیت اور صنعتی ضروریات کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کی تحقیق کو کمپنیوں کی ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھانے کا اہم ذریعہ  فراہم کرے گا۔

چینی وزیر تعلیم ہوائی نے کہا کہ “کسی بھی ملک کی اعلیٰ تعلیم قومی حکمت عملی کا ایک قیمتی سرمایہ ہے،”  مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں کو قومی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

چین مصنوعی ذہانت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چین مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت کی مصنوعی ذہانت کے کے درمیان کر رہا ہے فراہم کر حوالے سے کرتے ہیں کرتا ہے کے ساتھ کر رہی چین کا چین کی چین کے کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

گوگل کا مصنوعی ذہانت کا ماڈل انٹرنیشنل میتھمیٹیکل اولمپیاڈ میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب

گوگل کی مصنوعی ذہانت پر مبنی تحقیقی کمپنی ’ڈیپ مائنڈ‘ نے ریاضی کی دنیا کے سب سے بڑے مقابلے، انٹرنیشنل میتھمیٹیکل اولمپیاڈ (آئی ایم او) میں پہلی بار سونے کا تمغہ جیت کر نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مشینی نظام نے اس قدر پیچیدہ ریاضیاتی مسائل کو حل کر کے انسانی ذہانت کے قریب ترین سطح پر کارکردگی دکھائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل اے آئی نے زمین پر خلائی مخلوق کے پوشیدہ ٹھکانوں کی نشاندہی کردی

ڈیپ مائنڈ کے جدید ماڈل ’جیمنی ڈیپ تھنک‘ نے الجبرا، کمبی نیٹرکس، جیومیٹری اور نمبر تھیوری سے متعلق 6 میں سے 5 سوالات درست حل کیے اور مجموعی طور پر 42 میں سے 35 پوائنٹس حاصل کیے، جو گولڈ میڈل حاصل کرنے کے لیے درکار اسکور تھا۔ مقابلے کے صدر ڈاکٹر گریگر ڈولنار کے مطابق ماڈل کی جانب سے دیے گئے حل نہایت شفاف، درست اور قابلِ فہم تھے، جس پر آئی ایم او کے ممتحن بھی حیران رہ گئے۔

گزشتہ برس ڈیپ مائنڈ کے دو ماڈلز ’الفا پروف‘ اور ’الفا جیومیٹری 2‘ نے سلور میڈل اسکور حاصل کیا تھا، تاہم اس وقت مکمل نتائج تیار کرنے میں 2 سے 3 دن لگ گئے تھے۔ اس کے برعکس، اس سال جدید ماڈل نے قدرتی زبان میں براہ راست سوالات کا تجزیہ کرتے ہوئے 4.5 گھنٹے کی مقررہ مدت کے اندر مکمل جوابات فراہم کیے، جو ماڈل کی تکنیکی مہارت میں بڑی پیشرفت ہے۔

 

1/N I’m excited to share that our latest @OpenAI experimental reasoning LLM has achieved a longstanding grand challenge in AI: gold medal-level performance on the world’s most prestigious math competition—the International Math Olympiad (IMO). pic.twitter.com/SG3k6EknaC

— Alexander Wei (@alexwei_) July 19, 2025

ڈیپ مائنڈ نے اس کامیابی کے پیچھے ری انفورسمنٹ لرننگ کی نئی تکنیکوں کو قرار دیا ہے، جن کی مدد سے ماڈل کو کئی مراحل پر مشتمل تجزیہ، مسئلہ حل کرنے اور تھیورم پروونگ کی بہتر تربیت دی گئی۔

ڈیپ مائنڈ کے سی ای او ڈیمس ہسابس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ ماڈل جلد ایک محدود تعداد میں ماہرینِ ریاضی کو آزمائشی بنیاد پر فراہم کیا جائے گا، اور پھر ’گوگل اے آئی الٹرا‘ سبسکرائبرز کے لیے عام کیا جائے گا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک محقق نے دعویٰ کیا ہے کہ اوپن اے آئی نے بھی ایسا ہی ماڈل تیار کیا ہے جس نے رواں سال کے آئی ایم او سوالات پر مشابہ اسکور حاصل کیا، تاہم وہ باضابطہ طور پر مقابلے میں شریک نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: اوپن اے آئی  کا نیا ویب براؤزر گوگل کروم کے لیے چیلنج کیوں؟

ماہرین کے مطابق یہ کامیابی اس بات کی نشاندہی ہے کہ مصنوعی ذہانت اب محض حساب کتاب تک محدود نہیں رہی، بلکہ وہ جلد ہی انسانی محققین کے ساتھ مل کر ایسے پیچیدہ ریاضیاتی مسائل بھی حل کرسکے گی، جو اب تک حل نہیں ہو سکے۔

براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر اور ڈیپ مائنڈ سے وابستہ محقق جون ہیوک جونگ نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’جس دن اے آئی قدرتی زبان میں انتہائی مشکل تجزیاتی مسائل کو حل کرنے کے قابل ہوجائے گی، وہ دن انسانی و مشینی اشتراک کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news انٹرنیشنل میتھمیٹیکل اولمپیاڈ جیمینی چیٹ بوٹ ڈیپ مائنڈ گوگل گولڈ میڈل مصنوعی ذہانت

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا ‘اے آئی ایکشن پلان’ کا اعلان، کیا امریکا چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی سے خوفزدہ ہے؟
  • امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھارت میں نوکریاں دینا بند کریں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • چینی وزیر اعظم 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس میں شرکت کریں گے، وزارت خا رجہ
  • وائٹ ہاؤس کا نیا اے آئی پلان: ضوابط میں نرمی، جدید ٹیکنالوجی کی راہ ہموار
  • مصنوعی ذہانت کے استعمال سے گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ کی آمدنی میں نمایاں اضافہ
  • مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹرانسپورٹ، سعودی عرب میں خودکار گاڑیوں کا تجربہ
  • اخلاقیات پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک مکالمہ
  • امریکا مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، ٹرمپ
  • مصنوعی ذہانت سے لیس لال بیگ میدانِ جنگ میں اترنے کے لیے تیار
  • گوگل کا مصنوعی ذہانت کا ماڈل انٹرنیشنل میتھمیٹیکل اولمپیاڈ میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب