اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکی ارکان کانگریس سے سیاستدانوں کی ملاقاتوں پر پاکستان تحریک انصاف میں نیا تنازع شروع ہوگیا۔

پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ اسپیکر نے امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات کیلئے انہیں نہیں بلایا، جبکہ اسپیکر چیمبر کی جانب سے بتایا گیا کہ اسپیکر جب بھی کوئی ایسا ایونٹ بلاتے ہیں تو وہ اپوزیشن سے رابطہ کرتے ہیں اور اس مرتبہ بھی ایسا ہوا۔

زرتاج گل نے کہا ہے اسپیکر آفس کی جانب سے چیف وہپ عامر ڈوگر سے رابطہ کیا گیا تھا کہ امریکی وفد کے ایونٹ میں اپوزیشن ارکان آئیں، عامر ڈوگر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پارٹی اراکین کو نہ بتاسکے۔

شبلی فراز نے کہا اپوزیشن کو نہ بلانا بدنیتی ہے، عاطف خان نے کہا امریکی ارکان سے تقریب میں کھڑے کھڑے بات ہوئی، 5 افراد کو مدعو کیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق امریکی کانگریس سے سیاستدانوں کی ملاقاتوں کے معاملے پر پی ٹی آئی میں تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب بیرسٹر گوہر سے پوچھا گیا کہ امریکی وفد سے جو ملاقاتیں ہوئی ہیں اس میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا ہمیں بلایا نہیں گیا۔ جبکہ اسپیکر چیمبر کی جانب سے بتایا گیا کہ اسپیکر جب بھی کوئی ایسا ایونٹ بلاتے ہیں تو وہ اپوزیشن سے رابطہ کرتے ہیں اور اس مرتبہ بھی ایسا ہوا۔

اپوزیشن لیڈر کے آفیشل سے میں نے پوچھا تو انہوں نے یہی کہا کہ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ ہم دوبارہ پارلیمانی پارٹی کے رہنمائوں کی طرف گئے۔

انہوں نے یہ بتایا کہ پارلیمانی پارٹی میں ہم یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں کہ جب اسپیکر چیمبر کی جانب سے بتایا جارہا ہے تو ہمیں کیوں نہیں بتایا گیا یا پارلیمانی لیڈر کو اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا بعد میں پتہ چلا جس کا ذکر زرتاج گل نے خود کیا ہے کہ عامر ڈوگر کے ذریعے ماضی میں بھی اسپیکر رابطے کرتے رہے ہیں تو اس مرتبہ بھی انکے ذریعے رابطہ کیا گیا، شبلی فراز اور بیرسٹر گوہر کو شاید معلومات نہیں تھیں۔

پارٹی کے سنیئر رہنما نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عامر ڈوگر اور بیرسٹر گوہر دونوں سے رابطہ کیا گیا تھا دونوں اسلام آباد میں موجود نہیں تھے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امریکی ارکان بیرسٹر گوہر کانگریس سے کی جانب سے کہ اسپیکر عامر ڈوگر کیا گیا نے کہا

پڑھیں:

کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔

طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔

ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
  • بھارتی وزیراعظم دھمکی آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہیں، پاک بھارت تنازع ایٹمی جنگ میں بدل سکتا ہے، بلاول بھٹو
  • وزیر مملکت بلال بن ثاقب کی ایلون مسک کے والد سے ملاقات
  • 90 فیصد  افراد کا ماننا ہے کہ  چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست  انتخاب ہے، سی جی ٹی این سروے
  • نوے فیصد  افراد کا ماننا ہے کہ  چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست  انتخاب ہے، سی جی ٹی این سروے
  • پی ٹی آئی جو تحریک شروع کرنے جارہی ہے ان کو اس سے کچھ نہیں ملےگا: رانا ثنا
  • وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
  • مودی کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کیوجہ سے امیر اور غریب کے درمیان فرق مسلسل بڑھتا جارہا ہے، کانگریس
  • بھارت کی مذاکرات سے ہچکچاہٹ معنی خیز ہے: بلاول بھٹو زرداری