سپر اسٹار کے کیمرہ لینس میں پرندوں کی تصاویر سے عیاں ہوتا سبز ترقی میں مستحکم عالمی کردار
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
بیجنگ :حال ہی میں مشہور چینی اداکار لی شیان کا باغات میں پرندوں کی فوٹوگرافی کرنا ایک ہاٹ سرچ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین نے پرندوں کی فوٹوگرافی کرتے ہوئے اس سپراسٹار کی تصاویر پوسٹ کی ہیں اور دیگر علاقوں کے ثقافتی اور سیاحتی محکموں نے بھی اپنے ہاں پرندوں کی تصاویرشیئر کرتے ہوئے انہیں فوٹوگرافی کی دعوت دی ہے۔
دوسری جانب سائنسی چینلز نے بھی پرندوں کے بارے میں علم کو متعارف کروانے کے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ہے .
چین بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کے ساتھ گرین کوریڈور کی تعمیر کرے گا ، صحرا زدگی سے نمٹنے کے لئے افریقی ممالک کے ساتھ “سبز دیوار چین ” تعمیر کرے گا اور آب و ہوا پر جنوب-جنوب تعاون کے فریم ورک کے تحت ٹیکنالوجی کے اشتراک اور صلاحیت سازی سے ترقی پذیر ممالک کو مدد ملے گی ۔ اقوام متحدہ کی دستاویز میں “صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں” کا تصور لکھا گیا ہے، ” کاربن نیوٹرلٹی”اور “کاربن پیک” کے اہداف نے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں چین کے جرات مندانہ عزم کو ظاہر کیا ہے اور “ماحولیاتی بحالی + صنعتی ترقی” کا ماڈل عالمی پائیدار ترقی کے لئے ایک مثال فراہم کرتا ہے.بحرالکاہل کی دوسری جانب سپر پاور کے مقابلے میں، چین کے منصوبے میں زیادہ تزویراتی استحکام نظر آتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے اختلافات کی وجہ سے امریکہ کی آب و ہوا سے متعلق پالیسی غیر مستحکم رہی ہے۔ہلری کلنٹن نےکیوٹو پروٹوکول پر دستخط کیے جنہیں کانگریس کی جانب سے مسترد کیا گیا اور یہاں تک کہ جارج ڈبلیو بش نےمکمل طور پر اس سے دستبرداری اختیار کی ۔اوباما نےپیرس معاہدے کے دستخط کو فروغ دیا تھا،تاہم ٹرمپ نے دو بار ‘دستبرداری’ اختیار کی،اور پھر بائیڈن اس میں جلد بازی میں دوبارہ واپس آئے۔وہاں ماحولیاتی قوانین فوسل ایندھن یا صاف توانائی کی حمایت میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور گرین کلائمیٹ فنڈ کے لیے فنڈنگ بھی تعطل کا شکار رہتی ہے ۔ یوں “پینڈولم”کی طرح حکمرانوں کے بدلتے فیصلوں نے نہ صرف مقامی اتفاق رائے کو تقسیم کیاہے بلکہ عالمی آب و ہوا کی حکمرانی کی بنیاد کو بھی ہلا دیا ہے۔تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ ایک مستحکم پالیسی فریم ورک ترقی کی بنیاد ہے۔ جب سپراسٹارز کے لینس میں ماحولیاتی چمک دکھائی دے اور قومی عمل کی کہکشاں اس میں ضم ہو جا ئے تو صاف دکھاتا ہے کہ چین ادارہ جاتی لچک اور تزویراتی عزم کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے درمیان ہم آہنگی میں وقت کے تقاضوں کا جواب دے رہا ہے۔عوامی سطح پر سرسبز ترقیاتی عمل سے بین الاقوامی سطح پر آب و ہوا کے وعدوں تک ، چین انسانی تہذیب اور فطرت کے مابین ہم آہنگی میں ایک نیا باب لکھنے کے لئے مختلف ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے ، اور عالمی خوشحالی اور ترقی کے لئے ایک مستحکم طاقت کے طور پر بھی ابھر رہا ہے ۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ماحولیاتی تحفظ پرندوں کی ممالک کے ا ب و ہوا کے ساتھ ہے اور کے لئے کیا ہے دیا ہے
پڑھیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔
حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔
ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔
یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔
ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔
لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔
وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔
اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔
لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔
کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔