تین سالہ مزاکرات کے بعد وباؤں کی روک تھام کے مسودے پر رکن ممالک کا اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 اپریل 2025ء) وبائی بیماریوں سے نمٹنے کی تیاری اور ان پر قابو پانے کے اقدامات کو مزید موثر بنانے کے لیے عالمی معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جسے منظوری کے لیے آئندہ ماہ 'ورلڈ ہیلتھ اسمبلی' میں پیش کیا جائے گا۔
اس مسودے پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے زیراہتمام تین سال تک ہونے والی بات چیت کے بعد اتفاق رائے ہوا ہے۔
اس میں ایسے طریقہ کار کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس کے ذریعے وبائی بیماریوں کے خلاف بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے اور مستقبل میں عالمگیر صحت عامہ کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مساوات پر مبنی اقدامات میں مدد ملے گی۔ معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک اس پر عملدرآمد کے قانوناً پابند ہوں گے۔(جاری ہے)
Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے مسودے کی منظوری کو تاریخی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدے پر اتفاق رائے دنیا کو محفوظ بنانے کی جانب بہت بڑا قدم ہونے کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ دور حاضر کی منقسم دنیا میں کثیرفریقی طریقہ کار قائم ہے اور مشترکہ مسائل و خطرات پر قابو پانے کے لیے مشترکہ اقدامات ممکن ہیں۔
معاہدے کے اہم نکاتاس معاہدے کے لیے بات چیت دسمبر 2021 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب کووڈ۔19 وبا عروج پر تھی۔ اس دوران 'ڈبلیو ایچ او' کے رکن ممالک نے وباؤں کے خلاف ایک بین الاقوامی معاہدہ تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے اس حوالے سے بین الحکومتی مذاکراتی ادارہ (آئی این بی) قائم کیا۔ اس معاہدے کے مسودے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے رسمی بات چیت کے 13 ادوار ہوئے۔
مجوزہ معاہدے میں 'ون ہیلتھ' تصور کے تحت وباؤں کی روک تھام، قومی سطح پر طبی نظام مضبوط بنانے، بیماریوں کے پھیلاؤ کے خلاف مربوط مالیاتی طریقہ کار تشکیل دینے اور ہنگامی طبی حالات کے لیے مربوط عالمگیر سپلائی چین اور انصرامی نظام قائم کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔
مسودے میں تحقیقی مقاصد کے لیے جرثوموں تک رسائی اور طبی فوائد کے تبادلے کا نیا نظام قائم کرنے، ٹیکنالوجی و علم کی منتقلی اور صلاحیتوں میں بہتری لانے کے لیے تعاون میں اضافے کے لیے کہا گیا ہے۔
علاوہ ازیں، عالمگیر ہنگامی طبی حالات سے نمٹںے کے لیے تربیت یافتہ کثیرالمقاصد قومی اور بین الاقومی افرادی قوت کا قیام بھی اس معاہدے کے بنیادی نکات میں شامل ہے۔صحت عامہ اور قومی خودمختاریمجوزہ معاہدے کے مسودے میں صحت عامہ سے متعلق فیصلوں میں قومی خودمختاری قائم رکھنے کی توثیق بھی کی گئی ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو عالمگیر ہنگامی طبی حالات کے دوران لاک ڈاؤن، ویکسین مہمات یا سرحدیں بند کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
یہ مسودہ 19 مئی کو شروع ہونے والی 78ویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جو عالمگیر صحت پر اقوام متحدہ کا سب سے بڑا فورم ہے۔ منظوری کے بعد اسے رکن ممالک کی توثیق درکار ہو گی۔
اطلاعات کے مطابق، امریکہ نے مسودے پر ہونے والی بات چیت کے حتمی دور میں شرکت نہیں کی۔ اس نے جنوری میں 'ڈبلیو ایچ او' کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور اس طرح وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کا پابند نہیں ہو گا۔
ڈائریکٹر جنرل نے مسودے پر بات چیت کرنے والی رکن ممالک کی ٹیموں اور 'آئی این بی' کی قیادت کو ان کی استقامت اور مشترکہ مقصد کے حصول کی کوششوں پر سراہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ محض سفارتی کامیابی نہیں بلکہ معاہدے کے لیے کوششیں کرنے والوں کی مضبوطی، اتحاد اور دنیا بھر کی صحت و بہبود کے لیے غیرمتزلزل عزم کا اظہار بھی ہے۔'آئی این بی' کی معاون سربراہ پریشیئس متسوسو نے اسے طبی مساوات کی جانب اہم قدم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بات چیت کے دوران مشکل وقت بھی آئے اور اس نے طول بھی کھینچا۔
لیکن یہ مشترکہ احساس تمام مشکلات پر غالب رہا کہ وائرس سرحدوں کی پروا نہیں کرتے اور اس وقت تک وباؤں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک کہ سبھی کو ان سے تحفظ نہ مل جائے۔دوسری معاون سربراہ این کلیئر امپورو نے کہا کہ اس معاہدے کی بدولت مضبوط تر اور مزید مساوی عالمی طبی تحفظ کی بنیاد ڈالی گئی ہے اور یہ طبی سلامتی، مساوات اور بین الاقوامی یکجہتی کے حوالے سے ایک تاریخی معاہدہ ہے۔
ڈائریکٹر جنرل نے اس معاہدے کی طویل مدتی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچے گا۔ آج وباؤں سے نمٹنے کی تیاری اور ان پر قابو پانے کے اقدامات کو بہتر بنا کر بچوں کو محفوظ اور صحت مند دنیا منتقل کی جا سکتی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او بات چیت کے رکن ممالک اس معاہدے معاہدے کے کے مسودے گئی ہے کے لیے
پڑھیں:
امریکا میں سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے: شیری رحمٰن
شیری رحمٰن—فائل فوٹوپاکستانی سفارتی وفد کی رکن شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ امریکا میں سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے۔
لندن پہنچنے پر پاکستانی سفارتی وفد کی رکن شیری رحمٰن نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں بتایا کہ 3 دن واشنگٹن اور 2 دن نیویارک میں 50 سے زیادہ میٹنگز کیں۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس اور سینیٹرز کے ساتھ مثبت ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے ہماری بات کو سمجھا، سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ بھارت میں کتنی تباہی ہوئی وہ خود کبھی نہیں بتائیں گے لیکن سب سامنے آہی جاتا ہے۔
شیری رحمٰن نے بتایا کہ بھارت کی شناخت جنگجو ریاست کی بنتی جا رہی ہے، غزہ کے بعد مقبوضہ کشمیر سب سے بڑی کھلی جیل بن چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارتی وفد کا ہم پیچھا نہیں کر رہے تھے، ہماری کہانی ہماری اپنی کہانی ہے، بھارت ہم پر حملہ آور ہو گا تو ہم جواب دیں گے۔
پی پی رہنما نے کہا کہ ہمارا ہدف امن اور مذاکرات کو فروغ دینا ہے، ہمارے پاس بھارت کے خلاف زیادہ شکایات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی وفد کو اب تک نہیں پتہ کہ ان کا مشن کیا ہے، ان کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔
پاکستانی سفارتی وفد کی رکن شیری رحمٰن نے یہ بھی کہا کہ ہم بھارت کو بدنام کرنے نہیں پاکستان کی کہانی سنانے امریکا گئے تھے۔