زرخیز کھیتوں میں شہری توسیع سے خوراک اور ذریعہ معاش کو خطرہ ہے. ویلتھ پا ک
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 اپریل ۔2025 )ماہرین نے پاکستان میں ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کی بے لگام توسیع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ زرخیز کھیتی باڑی پر بے لگام تجاوزات خوراک کی حفاظت اور پائیدار شہری منصوبہ بندی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں ویلتھ پاک کے ساتھ بات کرتے ہوئے جرمنی کی ایک معروف تنظیم جی آئی زیڈپاکستان میں شہری ترقی کے ماہر ایمن کمال نے غیر منظم زمین کی تبدیلی کے نتائج پر روشنی ڈالی.
(جاری ہے)
انہوں نے کہاکہ پاکستان پہلے ہی اپنی بڑھتی ہوئی خوراک کی طلب کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کو زرعی اراضی کا نقصان خوراک کی پیداوار کو برقرار رکھنے کی ہماری صلاحیت کو کمزور کرتا ہے، مہنگی درآمدات پر انحصار بڑھتا ہے اس سے نہ صرف خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ لاکھوں کسانوں کی روزی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے. انہوں نے وضاحت کی کہ جب کہ شہری توسیع ضروری ہے لیکن اہم کھیتی باڑی کی کمی کو روکنے کے لیے اس کا حکمت عملی سے انتظام کیا جانا چاہیے انہوں نے کہا کہ قیاس آرائی پر مبنی رئیل اسٹیٹ کی سرمایہ کاری معاشی ترجیحات کو مسخ کر رہی ہے سرمایہ کار کھیتی باڑی کے وسیع رقبے کو حاصل کر رہے ہیں اور انہیں رہائشی منصوبوں میں تبدیل کر رہے ہیں اکثر مناسب انفراسٹرکچر یا منصوبہ بندی کے بغیر یہ بے لگام ترقی زمین کی قیمتوں کو بڑھاتی ہے، زرعی شعبے سے سرمائے کو ہٹاتی ہے، اور زرعی پیداواری صلاحیت کو کم کرتی ہے. انہوں نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ قیاس آرائیوں پر مبنی زمین کی خریداری کو روکنے کے لیے سخت ضابطے نافذ کریں اور ان شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دیں جو معاشی استحکام اور روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر کے سائنسی افسرمزمل حسین نے اس بات پر زور دیا کہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو غذائی تحفظ کو یقینی بناتی ہے اور دیہی معاش کو برقرار رکھتی ہے تاہم تیزی سے شہری پھیلاﺅقابل کاشت اراضی کو کھا رہا ہے، خوراک کی درآمدات پر انحصار بڑھا رہا ہے، افراط زر کو بڑھا رہا ہے اور غذائی عدم تحفظ کو بڑھا رہا ہے. انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ زمین کے استعمال میں اصلاحات نافذ کرے جو زرعی تحفظ کے ساتھ شہری توسیع کو متوازن رکھیں انہوں نے زوننگ کے قوانین کی وکالت کی جو واضح طور پر رہائشی، تجارتی اور زرعی استعمال کے لیے علاقوں کو متعین کرتے ہیں. انہوں نے پائیدار شہری منصوبہ بندی کی حکمت عملیوں کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ عمودی شہری ترقی کو ترجیح دے کر اور پسماندہ شہری جگہوں کا استعمال کرتے ہوئے، پاکستان اپنے زرعی وسائل پر سمجھوتہ کیے بغیر رہائش کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے انہوں نے پائیدار شہری ماڈل تیار کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی جو ماحولیاتی سالمیت اور غذائی تحفظ کو برقرار رکھتے ہیں فوری اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت واضح ہے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ سخت ضوابط کا نفاذ، زمین کے استعمال کی پالیسیوں کا نفاذ اور پائیدار شہری ترقی کو فروغ دینا پاکستان کے زرعی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے ملک کی ابھرتی ہوئی شہری کاری کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت ضروری ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پائیدار شہری کرتے ہوئے خوراک کی انہوں نے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
ریاض احمدچودھری
بھارت میں کسانوں کی خودکشیوں سے متعلق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ رپورٹ نے مودی حکومت کی ناکام زرعی پالیسیوں کا پردہ چاک کر دیا۔اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے 2023 کے درمیان بھارت میں ایک لاکھ گیارہ ہزار سے زائد کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ صرف سال 2023 میں ریاست مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئیں، جہاں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔بین الاقوامی تحقیقاتی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف ٹرینڈ ان سائنٹیفک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق بھارتی کسانوں کی خودکشیوں کی بنیادی وجوہات میں 38.7 فیصد قرض اور 19.5 فیصد زرعی مسائل شامل ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے نام نہاد ‘شائننگ انڈیا’ کے پیچھے دیہی علاقوں میں بڑھتی مایوسی، غربت اور ناانصافی نے کسانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ زرعی بحران پر حکومت کی خاموشی اور ناکام پالیسیوں نے مودی کابینہ کو شدید تنقید کی زد میں لا دیا ہے۔
مودی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں روزانہ تقریباً 31 بھارتی کسان خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو دگنی آمدنی کا وعدہ اور فصل بیمہ اسکیموں کی ناکامی نے لاکھوں کسانوں کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔بھارت کے مختلف علاقوں میں زرعی بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس بحران کا مرکزہ اجناس کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتیں اور پھر بدحالی سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے والے ہزارہا کسان بتائے جاتے ہیں۔بھارت کے زرعی بحران کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت مختلف علاقوں کے کسانوں کا ملکی دارالحکومت نئی دہلی کی جانب نومبر 2018 کے آخری ایام میں احتجاجی مارچ بھی تھا۔ اس احتجاج کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے ایک لاکھ سے زائد غریب کسان نئی دہلی پہنچے اور حکومتی ایوانوں تک اپنی صدائے احتجاج پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ مظاہرین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت سے اپنی مشکلات کے ازالے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وجیشری بھگت انتیس برس کی ایک خاتون کسان ہے اور اْس کا تعلق مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر سے ہے۔ وہ ایک بیوہ ہے کیونکہ اْس کے شوہر پرشانت نے بھی زرعی مفلوک الحالی کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ اس ریاست کے کسانوں کو بھی اپنی زیر کاشت زمین سے کافی فصل نصیب نہیں ہو رہی اور ان پر بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ غربت کے بوجھ تلے انہیں مرنا آسان اور جینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس علاقے کے کسانوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے اور اسی باعث ان کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ایسے حالات کا سامنا صرف وجے شری کو ہی نہیں، بلکہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی لاکھوں بیواؤں کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہے۔ دو ماہ قبل اْس نے 80 دیگر بیواؤں کو لے کر مہاراشٹر کے ریاستی دارالحکومت ممبئی میں اختجاج بھی کیا تھا۔ وہ مثبت سماجی سکیورٹی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اْن کے اس مظاہرے کو ایک سرگرم تنظیم مہیلا کسان ادھیکار منچ (MAKAAM) یا ‘مکام’ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس تنظیم کے مطابق یہ مظاہرہ حقیقت میں اْن کی ذات کی سلامتی کے حق میں بھی ہے۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق ایسے مظاہروں سے یقینی طور پر حالات میں تبدیلی پیدا ہو گی۔
وجے شری بھگت جیسی کئی خواتین ہیں، جن کے شوہر خودکشیاں کر چکے ہیں اور اب انہیں شدید معاشی مشکلات اور معاشرتی بدحالی کا سامنا ہے۔ زرعی بحران کے حوالے سے آواز اٹھانے والے سرگرم کارکنوں کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والی سوراجیہ مترا کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں اسّی فیصد کام خواتین کرتی ہیں اور اس کے باوجود ریاست اْن کی مشقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ان بیوہ خواتین کی حالت زار کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ یہ تنظیم مہاراشٹر کے علاقے امراوتی میں فعال ہے اور اسی علاقے میں کسان سب سے زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔
ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔مذاکرات کے دوران مودی حکومت نے کسانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت 5 سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ‘ہمارے مفاد میں نہیں۔’کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ‘منیمم سپورٹ پروگرام’ کے تحت خریدنے کی ‘قانونی گارنٹی’ دے۔بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقعے پر رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔