اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اسکی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُسکا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

غزہ میں جاری ظلم و ستم اور نسل کشی نے دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان جیسے بیدار دل معاشرے میں، خاص طور پر مذہبی طبقات میں، ایک غیر معمولی خاموشی طاری رہی۔ یہ خاموشی صرف وقتی نہیں، بلکہ ایک فکری جمود اور بیانیاتی تقسیم کا اظہار ہے، جو امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے اسے مسلکی اور جغرافیائی تعصبات میں بانٹ دیتی ہے۔ فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم کسی ایک لمحے یا واقعے تک محدود نہیں۔ شہداء کے لاشے، تباہ حال ہسپتال، یتیم بچے، زخمی ماں باپ، جلتی بستیاں، یہ حالات گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اُٹھے؟ (فتوے کیوں آنا شروع ہوگئے) اور پہلے کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے، جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے۔؟

یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب ایران نے شام یا لبنان کے محاذ سے اسرائیل کو جواب دیا، یا جب حماس اور حزب اللہ نے عسکری مزاحمت کی تو بیشتر مذہبی حلقے خاموش رہے۔ اس وقت دلیل یہ دی گئی کہ یہ "ایران کا ایجنڈا" ہے، یا یہ "شیعہ سیاست" کا حصہ ہے۔ اس طرزِ فکر نے فلسطینی مزاحمت کو مسلکی خانوں میں قید کر دیا۔ یوں امتِ مسلمہ کا ایک اہم اور مقدس مسئلہ فرقہ وارانہ بیانیے کی نذر ہوگیا۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہے، جس کا مقصد امت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم رکھنا ہے۔ جب ایک مزاحمتی تحریک کو صرف اس بنیاد پر مشکوک بنا دیا جائے کہ اسے کسی مخصوص مسلک یا ملک کی حمایت حاصل ہے تو یہ درحقیقت ظالم کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی سنی ملک فلسطین کی کھل کر عسکری حمایت کرے تو پھر وہ حمایت "حلال" اور قابلِ قبول ہو جائے، لیکن اگر یہی کام ایران کرے تو وہ فوراً "مسلکی ایجنڈا" بن جائے؟ کیا ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کا جواز صرف اس وقت بنتا ہے، جب وہ آواز ہماری مسلکی شناخت کے مطابق ہو۔؟

یہ طرزِ فکر انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت کو محدود کرتا ہے، بلکہ اُمت کو اصولوں سے ہٹا کر شناختوں کی قید میں جکڑ دیتا ہے۔ اگر فلسطین کا مسئلہ واقعی اُمت کا مسئلہ ہے تو پھر اس کی حمایت ہر اس شخص، ریاست یا گروہ سے کی جانی چاہیئے، جو اخلاص سے مظلوم کیساتھ کھڑا ہو، چاہے اس کی فقہی یا سیاسی شناخت کچھ بھی ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اپنے سیاسی و مسلکی پس منظر کے باوجود، فلسطین کی مسلح مزاحمت کا سب سے مستقل اور مخلص حامی رہا ہے۔ اگر اس کی حمایت کو صرف اس بنیاد پر مسترد کیا جائے کہ وہ ایک شیعہ ملک ہے، تو یہ انصاف اور عقل دونوں کے منافی ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف فلسطینیوں کیلئے نقصان دہ ہے، بلکہ پوری مسلم دنیا میں وحدت کے امکانات کو بھی مجروح کرتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے حق میں آواز بلند کرنا ایک اصولی فرض ہے اور یہ فرض اس سے مشروط نہیں ہونا چاہیئے کہ کون ساتھ دے رہا ہے۔ جب ایران یا اس کے حمایت یافتہ گروہ جیسے حزب اللہ یا حماس میدان میں ہوں تو ان کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ صرف مسلک نہیں، بلکہ یہ ہونا چاہیئے کہ کیا وہ مظلوم کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں۔

یہ فرقہ وارانہ تقسیم صرف فلسطینی کاز کو نہیں، بلکہ خود امت کے اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ اگر مزاحمت کو صرف اس بنیاد پر قبول یا مسترد کیا جائے کہ اسے کون کر رہا ہے، تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اصول، انصاف اور مظلوم کی حمایت کو شخصیات، ریاستوں اور مسالک کی بنیاد پر تول رہے ہیں۔ یہی انتخابی مزاحمت (Selective Activism) ہے۔ جب تصاویر زیادہ دردناک ہو جائیں، جب سوشل میڈیا پر لہر اُٹھے، جب عرب میڈیا بھی مجبور ہو کر کچھ دکھا دے، تب عوامی غصہ سامنے آتا ہے۔ مگر جب زمینی سطح پر مزاحمت ہو رہی ہو، جب خون بہہ رہا ہو، جب دشمن کو جواب دیا جا رہا ہو، تب ہم خاموش رہتے ہیں۔ یا پھر اسے "ایرانی ایجنڈا" کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک فکری غلامی ہے۔ ایک ایسا ذہنی جال جس میں امت کو اس حد تک اُلجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہی جنگ میں غیر جانبدار، بلکہ کبھی کبھار مخالف بن جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اس کی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُس کا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ اگر ہم کسی ملک یا گروہ کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اس کے موقف کو رد کر دیں تو ہم خود بھی اسی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کیخلاف اسلام نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ فلسطینی پرچم صرف جذبات کی لہر یا وقتی احتجاج کیلئے نہیں، بلکہ اصولی موقف، فکری استقلال اور اتحادِ امت کی علامت ہونا چاہیئے۔ اس پرچم کو کسی ایجنڈے، پراکسی یا مسلک سے جوڑنے کی بجائے، اسے ظلم کیخلاف مزاحمت اور حق کی سربلندی کا نشان بنانا ہوگا۔ جب تک امت اس بنیادی اصول کو نہیں سمجھے گی، تب تک ہم فلسطین کیساتھ بھی انصاف نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کیساتھ۔ (مضمون نگار تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ اور پاکستان کے ممتاز عالم دین ہیں)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مظلوم کی اس بنیاد کی حمایت بنیاد پر ہے کہ ا بلکہ ا یہ بھی کو صرف

پڑھیں:

ٹرمپ کی روس کو یوکرین جنگ ختم کرنے کیلئے مختصر مہلت، ایران کو بھی دھمکی دیدی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو یوکرین جنگ پر امن معاہدے کے لیے محض 10 سے 12 دن کی نئی مہلت دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے اس مدت میں پیش رفت نہ کی تو امریکا سخت ترین اقتصادی اقدامات اٹھائے گا، جن میں ثانوی ٹیرف کے تحت 100 فیصد تک محصولات کا نفاذ بھی شامل ہوگا۔

یہ اعلان ٹرمپ نے اسکاٹ لینڈ کے ٹرن بیری گالف ریزورٹ میں برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کیا۔

انہوں نے کہاکہ میں پہلے 50 دن دینا چاہتا تھا، لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی، اب مزید انتظار کا جواز نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ یوکرین تنازع کو طول دینا ناقابل قبول ہے اور عالمی برادری اس جنگ کے اثرات بھگت رہی ہے، اس لیے روس کو اب فیصلہ کرنا ہوگا۔

غزہ کی صورتحال پر تشویش، امدادی مراکز قائم کرنے کا اعلان

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں غزہ کے بحران پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہاں غذائی قلت کی سنگین صورتحال ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ غزہ میں امدادی مراکز قائم کرے گا اور اس مقصد کے لیے 60 ملین ڈالر کی مالی مدد فراہم کی جا چکی ہے۔

انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ امداد کی ترسیل میں فعال کردار ادا کرے، کیونکہ موجودہ رکاوٹیں عام شہریوں تک خوراک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہیں۔

ایران کو جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنے پر دھمکی

ٹرمپ نے ایران کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہاکہ اگر تہران نے دوبارہ جوہری سرگرمیاں شروع کیں تو امریکہ فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرے گا۔ ان کا کہنا تھا۔ ’ہمیں ایران کی طرف سے مثبت اشارے نہیں مل رہے، اور اگر انہوں نے جوہری حد عبور کی تو ہم اُن کا وجود مٹا دیں گے۔‘

پاک-بھارت کشیدگی پر سفارتی کردار کا دعویٰ

ٹرمپ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ان کی قیادت میں امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکا اور کشیدگی کو سفارتی ذرائع سے قابو کیا۔

غزہ میں حماس کا کوئی مستقبل نہیں، برطانوی وزیراعظم

برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے غزہ کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھوک سے بلکتے بچوں کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ انہوں نے امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے پر زور دیا اور کہا کہ حماس کا آئندہ فلسطینی حکومت میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امریکی صدر برطانوی وزیراعظم ڈونلڈ ٹرمپ روس کو مہلت غزہ صورتحال وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چین
  • فلسطینی عوام کی ایک آزاد ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چین
  • شہر قائد میں ڈکیتی مزاحمت پر ایک اور شہری قتل
  • کراچی، سچل گلزار ہجری میں ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ سے شدید زخمی شہری دم توڑ گیا
  • اگر دوبارہ جارحیت کی تو مزید سخت جواب ملیگا، سید عباس عراقچی کا امریکہ کو انتباہ
  • ٹرمپ کی روس کو یوکرین جنگ ختم کرنے کیلئے مختصر مہلت، ایران کو بھی دھمکی دیدی
  • پاکستان فلسطین کے دو ریاستی حل ‘ غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کی بھرپور حمایت کرتا ہے.اسحاق ڈار
  • یورپ امریکہ تجارتی معاہدہ: کشیدگی کے بعد رہنماؤں کی طرف سے حمایت
  • صہیونی جارحیت کیخلاف مقاومت حقیقی ڈھال ہے، حزب الله کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ
  • بھیک تو سبھی مانگتے ہیں، ہمیں مجرم کیوں ٹھہرے