سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے، قابض بھارتی اہلکار طاقت کے بل پر لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے خلاف اپنی پرتشدد مہم میں تیزی لائی، میڈیا پر قدغیں عائد کیں اور صحافیوں کو سچائی سامنے لانے سے روکا۔ شہریوں نے کہا کہ علاقے میں اس وقت جو خاموشی کا ماحول نظر آ رہا ہے اور جسے بھارت امن کا نام دے رہا ہے یہ دراصل امن نہیں بلکہ خوف و دہشت ہے جو طاقت کے بل پر یہاں پھیلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف ”یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کا استعمال، این آئی اے اور ایس آئی اے جیسے بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں یہاں پائی جانے والی خاموشی کا اصل سبب ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت جبر و ستم کی کارروائیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں آزادی کی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور خوف و دہشت کو امن کا نام دے رہا ہے۔ ایک سابق پروفیسر نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”یہ وحشیانہ فوجی طاقت کے ذریعے قائم کی گئی خاموشی ہے، لوگ پہلے کی طرح سب کچھ محسوس کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ڈر کے مارے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چھوڑ دیا ہے۔“

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خوف و دہشت امن کا نام علاقے میں نے کہا کہ کے ذریعے انہوں نے رہا ہے

پڑھیں:

اسپیشل ٹیکنالوجی زونز: کاغذی اصلاحات سے ملک ترقی نہیں کر سکتا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مئی 2025ء) پاکستان کے معروف ماہرمعاشیات قیصر بنگالی کے بقول، '’’ملک میں کئی صنعتی علاقے اور خصوصی اقتصادی زونز پہلے سے ہی ہیں لیکن ان میں عملی طور پر کوئی صنعت قائم نہیں کی گئی، جو اس بات کا مظہر ہے کہ صرف ترامیم کرنے یا ادارے بنانے سے ترقی ممکن نہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے ایک خصوصی انٹرویو میں بنگالی نے مزید کہا، ’’پاکستان میں ادارہ جاتی فریم ورک کی موجودگی اور اس میں بہتری خوش آئند تو ہے لیکن صرف ادارے قائم کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

‘‘ ترقی کی راہ میں بڑی پیش رفت یا محض کاغذی وعدے؟

پاکستان کی قومی اسمبلی نے حال ہی میں اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی بل 2025 کثرت رائے سے منظور کیا ہے، جس کے تحت آزاد اراکین کی تقرری وزیراعظم کی منظوری اور متعلقہ سیکرٹری کی سفارش سے ہو گی۔

(جاری ہے)

پاکستانی حکومت کا دعوی ہے کہ یہ ترمیمی بِل پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کے فروغ اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے نہایت اہم ہے۔

لیکن کئی غیر حکومتی ماہرین کا خیال ہے کہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی (ایس ٹی زیڈ اے) کی کامیابی صرف کاغذی اصلاحات سے ممکن نہیں بلکہ یہ شفاف، مؤثر اور مربوط نظام عملداری سے مشروط ہے۔ سینیٹ سے بھی منظور ہو جانے والا یہ بل اب صدرِ مملکت کی منظوری کا منتظر ہے۔

ٹیک ویلی ایبٹ آباد کے سربراہ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ صرف قانون سازی کافی نہیں بلکہ ایک مؤثر اور قابلِ عمل ماحولیاتی ڈھانچے کی تشکیل بھی ناگزیر ہے۔

ان کے مطابق ماضی میں اصلاحات کے باوجود پالیسیوں کے تسلسل اور مؤثر نفاذ کی کمی مسائل کا باعث بنتی رہی ہے۔ اگر موجودہ ترامیم شفافیت، کارکردگی اور پیش بینی کے ساتھ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کو مضبوط بنیاد فراہم کریں، تو یہ دفتری رکاوٹیں کم کر کے سرمایہ کاری اور ترقی کے لیے سازگار ماحول مہیا کر سکتی ہیں۔

کوئی نمایاں بہتری نہیں؟

کینیڈا میں مقیم بیرونِ ملک پاکستانی سرمایہ کار رانا احمد نے کہا کہ حکومت ماضی سے ہی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کی کوشش کرتی رہی ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی نے ان کے قومی جذبے کو مزید تقویت بخشی ہے، جو حکومت کے لیے پالیسی سازی کا ایک سنہری موقع ہے۔

تاہم رانا احمد کا کہنا ہے کہ گوادر میں گزشتہ پندرہ برسوں سے 'ون ونڈو آپریشن‘ زمینوں کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن اور پٹواری نظام کے خاتمے جیسے دعوے تو کیے جا رہے ہیں لیکن زمینی حقائق میں کوئی نمایاں بہتری دکھائی نہیں دیتی ہے۔

ملکی معیشت کے لیے کیا ضروری ہے؟

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے مضبوط تعلیمی نظام، تحقیقی بنیاد اور شفاف و مؤثر ادارہ جاتی حکمتِ عملی ضروری ہے، جو فی الحال کمزور ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس کا غیر مناسب ڈھانچہ سروس انڈسٹری کو نقصان پہنچاتا ہے۔ عمر فاروق کے بقول خصوصی ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی سے وابستہ اصلاحات کی کامیابی کا دارومدار زمینی سطح پر فوری مربوط اور مؤثر عملی اقدامات پر ہے۔

سرمایہ کاری کے لیے ماحول کیسے سازگار ہو سکتا ہے؟

عمر فاروق کا اصرار ہے کہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کی کامیابی کے لیے تین عوامل نہایت اہم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں پہلا اہم ایکشن ایک فعال اور مؤثر "ون ونڈو" نظام کا قیام ہے، جو وفاقی و صوبائی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بناتے ہوئے سرمایہ کاروں کو دفتری رکاوٹوں سے پاک سہولیات فراہم کرے۔

عمر فاروق کے مطاق دوسرا اہم نکتہ بنیادی ڈھانچے کی فوری بہتری ہے، جس میں تیز رفتار انٹرنیٹ، بلا تعطل بجلی اور جدید سہولیات کا ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کا کہ اس حوالے تیسرا اہم جزو پالیسیوں میں تسلسل اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی ہو گا تاکہ ٹیکس اور زرمبادلہ سے متعلق مستحکم پالیسیوں کے ذریعے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔

قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے دو بنیادی ضروریات ہیں، سستی اور بلاتعطل بجلی، اور تیز رفتار، بلا رکاوٹ انٹرنیٹ کی فراہمی، جس میں سکیورٹی اداروں کی غیر ضروری مداخلت نہ ہو۔

ان کے بقول جب تک یہ بنیادی سہولیات مہیا نہیں کی جائیں گی، سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ٹیکنالوجی یا سروس سیکٹر مستحکم ہو سکتا ہے۔ چھوٹے کاروبار ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں؟

عمر فاروق کے مطابق پیچیدہ سرکاری طریقہ کار اور بلند اخراجات چھوٹے کاروباروں کو حکومتی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بل پاکستان کے لیے عالمی ڈیجیٹل معیشت میں جگہ بنانے کا تاریخی موقع ہے لیکن محض قانون سازی کافی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو زمینی حقائق کو سمجھ کر فوری اور جامع اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ ڈیجیٹل انقلاب صرف خواب ہی رہے گا۔

رانا احمد نے ابھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ قوانین کو بنانا اور اس میں بہتر ی لانا ضروری ہے مگر اس سے بھی اہم عنصر مؤثر عملدرآمد، شفافیت اور کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ ممکن ہو جائے تو بیرونی سرمایہ کاری پر انحصار ختم ہو گا اور ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں مقابلہ حسن یا بازار حسن، مقابلہ چھوڑ جانے والی مس انگلینڈ نے مزید انکشافات کردیے
  • کیا خوف کی علامت سمجھی جانے والی گڑیا اینابیل لاپتہ ہوگئی؟
  • کوئٹہ سے تونسہ جانے والی بس کو مسافروں سمیت اغواء کیے جانے کی خبرں کی حقیقت سامنے آگئی
  • ججوں کی سینیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے،راتوں رات سینیارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا غاصبانہ عمل ہے،وکیل فیصل صدیقی
  • خیبرپختونخواہ میں سکیورٹی فورسز کے آپریشنز میں 9 خوارج مارے گئے
  • ملک میں اجارہ داری نظام کے ذریعے عوام کو دبا کر رکھا ہوا ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • پاکستان میں بھارتی دہشتگردی کے ناقابلِ تردید شواہد پر عالمی خاموشی سے امن کو خطرہ
  • ممنوعہ تجارتی معاہدے کرنے والی کمپنیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی
  • اسپیشل ٹیکنالوجی زونز: کاغذی اصلاحات سے ملک ترقی نہیں کر سکتا
  • ماہرہ خان نے خلیل الرحمان قمر سے اختلاف پر خاموشی توڑ دی