جماعت اسلامی کا مارچ روکنے کیلئے انتظامیہ متحرک، اسلام آباد ریڈزون بھی سیل کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 اپریل 2025ء ) جماعت اسلامی کا مارچ روکنے کیلئے انتظامیہ متحرک ہوچکی ہے اور اس سلسلے میں اسلام آباد کا ریڈ زون بھی سیل کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق جماعت اسلامی کی کال پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آج یکجہتی غزہ مارچ کیا جائے گا، اس حوالے سے اسلام آباد میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، ریڈ زون اور توسیع شدہ ریڈ زون کو سیل کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ احتجاج کرنے یا اکسانے والوں کو فوری گرفتار کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے جماعت اسلامی کے غزہ مارچ کے شرکاء سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، اسلام آباد میں ریڈ زون اور توسیع شدہ ریڈ زون سیل کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے احتجاج کرنے یا اکسانے والوں کی فوری گرفتاری اور ان کے خلاف پیس فل اسمبلی اور پبلک ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ریڈ زون میں پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے، دیگر صوبوں سے بھی پولیس کی اضافی نفری بھی منگوا لی گئی ہے۔(جاری ہے)
دریں اثنا، نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے ٹیلی فونک رابطہ کیا، دونوں حکومتی ذمہ داران نے اسلام آباد میں یکجتی غزہ مارچ کے حوالے سے گفتگو کی ۔ محسن نقوی اور طلال چوہدری سے گفتگو میں لیاقت بلوچ نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی کا فلسطین سے اظہار یکجتی مارچ پرامن ہوگا، حکومت کو فلسطینیوں سے اظہار یکجتی کے لیے کیے جانے والے مارچ کو روکنے کا کوئی حق نہیں، حکومت رکاوٹیں کھڑی کرکے پوری دنیا میں رسوا نہ ہو۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکومت آج اسلام آباد میں یکجتی فلسطین ریلی روکنے سے اجتناب کرے، فلسطین سے اظہار یکجتی کے لیے کوئی نوگوایریا نہ بنایا جائے، انہوں نے کویت کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کے اعلان کو پوری امت کی ترجمانی قرار دیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد میں جماعت اسلامی ریڈ زون
پڑھیں:
ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟
پاکستان میں ایوی ایشن کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (IIAP) کی مینجمنٹ متحدہ عرب امارات (UAE) کو گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (G2G) معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کراچی (جناح انٹرنیشنل) اور لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل) ایئرپورٹس کو بھی اسی ماڈل پر آؤٹ سورس کیا جا سکتا ہے۔
یہ اقدامات ملکی معاشی بحران، عالمی معیار کی سہولیات کی ضرورت، اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی پالیسی کے تحت کیے جا رہے ہیں، لیکن اس پر شفافیت اور قانونی تقاضوں پر سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔
ایئرپورٹس کی آمدنی: فیصلہ کیوں اہم ہے؟پاکستان کے 3 بڑے ایئرپورٹس — اسلام آباد، کراچی، اور لاہور — ملک کی ایوی ایشن آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ نے پچھلے 3 مالی سالوں میں تقریباً 46 ارب روپے ریونیو کمایا۔ لاہور ایئرپورٹ کی آمدنی 44 ارب روپے اور کراچی ایئرپورٹ کی آمدنی 40 ارب روپے رہی۔
مجموعی طور پر تینوں ایئرپورٹس نے 130 ارب روپے کی کمائی کی ([National Assembly Data, 2024]).
مارچ 2025 میں اسلام آباد ایئرپورٹ نے صرف کارگو آپریشنز سے 72 کروڑ روپے کمائے، جو کہ ایک ماہ میں سب سے بڑی وصولی تھی۔ ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ اربوں روپے کے مالی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔
اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ: کیا ہوا؟حکومت نے پہلے IFC (International Finance Corporation) کی مشاورت سے اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ ایک ترک کنسورشیم (TERG) نے 47.25 فیصد ریونیو شیئر کی پیشکش کی، لیکن حکومت کا مطالبہ 56 فیصد تھا۔ ناکامی کے بعد یہ ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا۔
اب حکومت براہ راست UAE کے ساتھ G2G معاہدے کی طرف جا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی موجودگی میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں، جو ایک اہم سیاسی اور معاشی سگنل ہے۔
کراچی اور لاہور ایئرپورٹس: اگلا مرحلہ؟اسلام آباد کے بعد حکومت نے واضح کیا ہے کہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس بھی آؤٹ سورسنگ کے عمل میں شامل ہوں گے۔
کراچی ایئرپورٹ، جو کارگو اور بزنس ٹریفک کے لیے سب سے اہم سمجھا جاتا ہے، کا سالانہ ریونیو 13 ارب روپے کے قریب ہے۔
لاہور ایئرپورٹ، جو سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی پروازوں کا بڑا مرکز ہے، اس کی آمدنی بھی اسلام آباد کے قریب قریب ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک مشترکہ آپریشنل ماڈل بنایا جا رہا ہے، جس کے تحت تینوں بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی غیر ملکی ادارے کو 15 سالہ آؤٹ سورسنگ کنٹریکٹ پر دیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں ریونیو شیئرنگ، کارگو آپریشنز، ڈیوٹی فری زونز، اور پارکنگ سروسز شامل ہوں گی، جبکہ ایئر ٹریفک کنٹرول اور رن وے آپریشنز CAA کے پاس رہیں گے۔
ممکنہ فوائد (Merits) 1. عالمی معیار کی سروسزدبئی اور ابو ظہبی جیسے ایئرپورٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، UAE کا انتظام جدید سہولیات، جدید ٹیکنالوجی اور کسٹمر کیئر کے معیار کو بلند کرے گا۔
2. سرمایہ کاری میں اضافہآؤٹ سورسنگ معاہدوں سے حکومت کو فوری ایڈوانس فیس اور ریونیو شیئرنگ کی صورت میں سالانہ اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔
3. کمرشل ترقیریٹیل، ہوٹل، ڈیوٹی فری زونز اور پارکنگ سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، جس سے ایئرپورٹ کی مجموعی کمائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
4. بوجھ میں کمیCAA کے لیے روزمرہ آپریشنز کی بجائے ریگولیٹری اور سیکیورٹی کردار پر توجہ دینا آسان ہو جائے گا۔
ممکنہ نقصانات (Demerits) 1. قانونی شفافیت کے خدشاتاگر PPRA قوانین کو نظر انداز کیا گیا تو یہ اقدام متنازع ہو سکتا ہے اور شفافیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
2. قومی خودمختاری پر اثرایئرپورٹس اہم اسٹریٹجک تنصیبات ہیں؛ ان کی مینجمنٹ کسی غیر ملکی حکومت کو دینا طویل مدتی خطرات رکھتا ہے۔یاد رھے کہ UAE کے تقریبا تمام ائر پورٹ برطانیہ امریکہ اور دوسرے ممالک کے لوگ چلا رھے ھین
3. ریونیو شیئرنگ کے مسائلاگر معاہدے کی شرائط غیر واضح یا غیر متوازن ہوئیں تو طویل مدت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
4. ملازمین کا مستقبلاگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، لیکن نجی یا غیر ملکی انتظامات سخت پرفارمنس پالیسیز نافذ کرتے ہیں۔
5. سیکیورٹی خطراتحساس اداروں کی نگرانی اور انفارمیشن سیکیورٹی پر غیر ملکی اثرات ایک نازک معاملہ ہیں۔
بین الاقوامی مثالیںقطر نے Hamad International Airport کو اپنی سرکاری کمپنی QACC کے ذریعے جدید بنایا، لیکن تمام فیصلے پارلیمانی منظوری کے بعد کیے۔
سعودی عرب نے ریاض اور جدہ کے ایئرپورٹس کے لیے بین الاقوامی کنسورشیمز کو شامل کیا، لیکن معاہدے شفاف ٹینڈرنگ کے ذریعے طے پائے۔
ترکی میں Istanbul Airport کی آؤٹ سورسنگ ایک بڑے عالمی آپریٹر کو دی گئی، لیکن مکمل مسابقتی بولی کے بعد۔
امریکہ میں DP World کا بندرگاہ معاہدہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا — یہ ایک سبق ہے کہ عوامی اعتماد کے بغیر G2G معاہدے کامیاب نہیں ہوتے۔
کیا یہ قدم درست ہے؟اسلام آباد، لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ بظاہر ایک اسٹریٹجک مالی اقدام ہے۔ دوست ملک UAE کے ساتھ شراکت عالمی معیار، سرمایہ کاری، اور بہتر مینجمنٹ کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
تاہم، حکومت کو چاہیے کہ:
معاہدے کی شفاف تفصیلات پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے رکھے۔
ریونیو شیئرنگ کے واضح اور متوازن اصول بنائے۔
ملازمین کے حقوق اور قومی سیکیورٹی کے تقاضے قانونی دستاویزات میں محفوظ کرے۔
کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ سے پہلے اسلام آباد کے ماڈل کے نتائج کا جائزہ لے۔
نتیجہیہ فیصلہ پاکستان کے ایوی ایشن سیکٹر کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی مکمل طور پر شفافیت، قانونی فریم ورک، اور عوامی اعتماد پر منحصر ہے۔ اگر حکومت نے صحیح حکمت عملی اختیار کی تو یہ ماڈل نہ صرف اسلام آباد بلکہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کو بھی عالمی معیار تک لے جا سکتا ہے۔ تاھم قومی ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم اپنے بندرگاہوں کے ہوائی اڈے اور دیگر ادارے نہیں چلا سکتے اور بیرونی دنیا سے ان قیمتی اشیاء منافع بخش تنظیموں کو چلانے کے لیے کہتے ہیں جو کہ ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔آنے والے وقتوں میں شاید ارباب اختیار کو جواب دینا پڑے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
آؤٹ سورسنگ ایئرپورٹس سول ایوی ایشن