UrduPoint:
2025-06-09@15:22:07 GMT

پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) فلورینٹینا لوآئزا ایک شیر خوار بچے کی ماں اور صرف انیس برس کی تھیں، جب پیرو کی حکومت کے کارندوں نے دھوکے سے ان کی نس بندی کر دی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق برسوں پہلے پیروکی ﹰ تقریبا پونے تین لاکھ خواتین کے ساتھ ایسا کیا گیا تھا۔

آج عشروں بعد فلورینٹینا کی عمر چھیالیس برس ہے اور وہ اور دیگر متاثرہ خواتین ابھی تک حکومت کی طرف سے معافی مانگے جانے اور اپنے لیے مالی ازالے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

جبری نسبندی ، نسل کشی کا ایک انداز

بیشتر متاثرہ خواتین کا تعلق پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تھا اور اقوام متحدہ نے مرضی کے خلاف افزائش نسل کی اہلیت سے محروم کر دینے والی اس حکومتی مہم کی مذمت بھی کی تھی۔

(جاری ہے)

ان لاکھوں خواتین کے ساتھ انیس سو نوے کی دہائی میں یہ ظلم کیا گیا تھا اور یہ بات بعد میں منظر عام پر آئی تھی۔

فلورینٹٰنا لوآئزا اب ایک سماجی کارکن ہیں۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''میری زندگی مختصر کر دی گئی۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ تولیدی نس بندی کے بعد ان کے شریک حیات نے بھی انہیں چھوڑ دیا تھا اور اس بات نے بھی ان کی زندگی پر کبھی نہ ختم ہونے والے اثرات چھوڑے، جو انتہائی تکلیف دہ تھے۔

نسلی طور پر پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والی فلورینٹینا بتاتی ہیں کہ انیس سو ستانوے میں وہ چند ماہ کی عمر کے ایک شیر خوار بچے کی ماں تھیں اور جنوب مشرقی پیرو کے حوآن کاویلیکا نامی دیہی علاقے میں رہتی تھیں۔

سنکیانگ: شرح پیدائش تاریخ کی کم ترین سطح پر

ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب ایک روز کئی دیگر مقامی خواتین کے ساتھ وہ ایک ٹرک میں سوار ہو کر اس لیے ایک قریبی کلینک گئیں کہ وہاں انہیں وہ امدادی خوراک ملنا تھی، جس کا ان سب سے وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن کلینک میں ان خواتین کو کوئی امدادی سامان دینے کے بجائے ان سب کی زبردستی سرجری کر دی گئی۔

وہاں اپنے ساتھ کی گئی زبردستی کو یاد کرتے ہوئے فلورینٹینا کہتی ہیں، ''ہمیں پکڑ کر نرسوں نے زبردستی سٹریچروں پر لٹایا اور ہمیں بےہوشی کے ٹیکے لگا دیے گئے۔‘‘ فلورینٹینا کے بقول جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی نس بندی کر دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا، ''جب میں گھر لوٹی اور سب کچھ اپنے شریک حیات کو بتایا تو اس نے میری بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔

اس نے الٹا مجھ پر الزام لگایا کہ میں دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش مند تھی اور اسی لیے دانستہ اپنی نس بندی کروا آئی تھی کہ یوں حاملہ نہ ہو جاؤں۔ اس کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘

ان واقعات کے بعد فلورینٹینا لوآئزا نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیا اور پیرو کے دارالحکومت لیما منتقل ہو گئیں تاکہ عام لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزارہ کر سکیں۔

وہ کہتی ہیں، ''سرجری کے بعد میرے پیٹ میں شدید درد رہتا تھا۔ مجھے سرکاری طبی امداد کی اشد ضرورت تھی کیونکہ میں خود اپنا علاج نہیں کرا سکتی تھی۔ سرجری کے بعد میری زندگی کی مشکلات بہت بڑھ گئی تھیں۔‘‘

پیرو میں ریاست کے ایما پر دھوکہ دہی سے یا زبردستی کی جانے والی اس نس بندی سے متاثرہ خواتین کی مجموعی تعداد تقریباﹰ دو لاکھ ستر ہزار بنتی ہے۔

ان میں اب پچپن برس کی ماریا ایلینا کارباخال بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ لیما کے مضافات میں رہتی ہیں۔ کارباخال نے اے ایف پی کو بتایا، ''تب میری عمر چھبیس سال تھی۔ میں اپنے سب سے چھوٹے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں ہسپتال گئی، تو ڈاکٹروں نے میرے علاج کے لیے شرط یہ رکھی کہ میں اپنی نس بندی پر رضا مندی ظاہر کروں۔ دوسری صورت میں میں اپنے نومولود بچے کو کبھی نہیں مل سکوں گی۔

‘‘

کارباخال نے مجبوری میں ڈاکٹروں کی بات مان لی اور ان کی بھی زچگی کے فوری بعد نس بندی کر دی گئی۔ اس واقعے کے بعد کارباخال کے شوہر نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگیں۔ اب وہ جبری نس بندی سے متاثرہ خواتین کے لیے ایک ادارہ چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہمیں جبراﹰ بانجھ بنایا گیا۔

ہمارے جسموں پر نہ صرف زخم لگائے گئے بلکہ ہم ان زخموں کے نتیجے میں اپنے خاندانوں کے ٹوٹ جانے کے دکھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین کی جبری نس بندی کی یہ مہم پیرو کے سابق صدر البیرٹو فیوجی موری کے دور میں چلائی گئی تھی، جو 1990 سے لے کر 2000 تک اقتدار میں رہے تھے۔ اس دوران طبی پیچیدگیوں کے باعث اٹھارہ خواتین ہلاک بھی ہو گئی تھیں۔

تخت نشینی کا جاپانی قانون: اقوام متحدہ کے مطالبے پر ٹوکیو حکومت ناراض

فیوجی موری حکومت کے ریکارڈ کے مطابق یہ نس بندی فیملی پلاننگ کے ایک حکومتی منصوبے کے تحت متعلقہ خواتین کی مبینہ رضا مندی سے کی گئی تھی۔

لیکن اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی نے گزشتہ برس اکتوبر میں اپنی ایک رپورٹ میں اس جبری حکومتی عمل کو ''ریاست کی طرف سے دیہی اور قدیمی مقامی خواتین پر منظم حملہ‘‘ قرار دیا تھا، جس سے متاثرہ اکثر خواتین ناخواندہ تھیں اور پیرو کی سرکاری زبان کے طور پر ہسپانوی زبان بھی نہیں سمجھتی تھیں۔

اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی کی ایک رکن لیٹیسیا بونیفاز نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ دیہی علاقوں میں چلائی گئی ایسی مہم تھی، جس کا مقصد معاشرے کے غریب ترین اور محروم طبقے کی آبادی میں اضافے کو روکنا تھا۔‘‘ بونیفاز کے بقول یہ ناانصافی''لاطینی امریکہ میں جبری نس بندی کا سب سے بڑا منظم واقعہ‘‘ تھی۔

گلوبل جینڈر گیپ انڈکس کیا ہے؟

گزشتہ برس اقوام متحدہ نے پیرو کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے میںِ ''اپنی تحقیقات کو تیز اور وسیع کرے اور متاثرین کے لیے مالی معاوضے اور نفسیاتی علاج کا ایک جامع پروگرام بھی جلد ترتیب دے۔‘‘

پیرو کی ایک عدالت نے بھی 2023 میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت متاثرہ خواتین کے لیے مالی ازالے اور طبی دیکھ بھال کے انتظامات کرے۔ اس عدالتی فیصلے پر بھی اب تک عمل نہیں ہوا۔

عصمت جبیں/ ص ز (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے متاثرہ خواتین اقوام متحدہ سے متاثرہ خواتین کے اے ایف پی کہتی ہیں کے ساتھ پیرو کی گئی تھی کہ میں کے بعد نے بھی کے لیے

پڑھیں:

آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟

جب دشمن یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈے سے سچ کو دبا لیں گے، تب قدرت خود سچ کو آواز بخشتی ہے۔

کچھ ایسا ہی ہوا جب بھارت نے ایک بار پھر بغیر ثبوت کے پاکستان پر حملے کا جواز گھڑا اور میزائلوں کی بارش کرنے کی کوشش کی۔ مگر یہ 1965 یا 1971 کا پاکستان نہیں تھا — یہ وہ پاکستان تھا جس نے نہ صرف دشمن کے طیارے مار گرائے، بلکہ دنیا کو اپنی دفاعی حکمتِ عملی سے حیران کر دیا۔

بھارت کی جنگی مہم جوئی کا آغاز پہلگام واقعہ سے ہوا، جسے بنیاد بنا کر وہ ایک اور فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے عالمی ہمدردی سمیٹنا چاہتا تھا۔ لیکن جب پاکستان نے بروقت اور کرارا جواب دیا تو بھارت کو اپنا چہرہ چھپانا مشکل ہو گیا۔

پاکستان کی جرات مندانہ کارروائیوں نے محض چند گھنٹوں میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، یہاں تک کہ دہلی کے ایوانوں میں گھٹن طاری ہو گئی۔

جب قومیں بکھرتی ہیں تو ایک لیڈر ابھرتا ہے۔ پاکستان کے فیلڈ مارشل نے مودی کو واضح پیغام دیا: ’کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اور تمہاری شرارتوں کا ایسا جواب دیا جائے گا کہ تمہاری نسلیں یاد رکھیں گی‘۔ اس ایک جملے نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اعصاب ہلا دیے۔

جہاں بھارت کو صرف اسرائیل کی حمایت حاصل تھی، وہیں پاکستان کے ساتھ چین، ترکیہ، آذربائیجان، ایران، اور دیگر مسلم ممالک کھڑے دکھائی دیے۔

دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نہ صرف دفاعی طور پر طاقتور ہے بلکہ سفارتی میدان میں بھی متحرک اور مؤثر ہے۔ چین کے دفاعی تجزیہ کار نے بھارتی جنرل بخشی کو ’تاریخ پڑھنے‘ کا مشورہ دے کر دنیا کو یاد دلایا کہ حقیقت پراپیگنڈے سے بڑی ہوتی ہے۔

پاکستانی میڈیا نے جس طرح بھارتی گودی میڈیا کو آئینہ دکھایا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ارناب گوسوامی جیسے پروپیگنڈہ ماسٹرز کی زبانیں بند ہو گئیں، اور بھارتی عوام کو اپنی اصل حیثیت کا اندازہ ہونے لگا۔

سچائی ہمیشہ بولتی ہے، جب پاکستانی نوجوان دشمن کی گولی سے ڈرنے کے بجائے شہادت کو گلے لگانے کی بات کرے، تو وہ قوم ناقابلِ شکست بن جاتی ہے۔

آج جب پاکستان بیک وقت بھارت، اسرائیل، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور افغان سرزمین سے ہونے والی کارروائیوں سے نبرد آزما ہے، تب ہمیں 313 کی یاد آتی ہے۔ وہ 313 جو بدر میں تھے، جن کے ساتھ اللہ کی مدد تھی۔

آج بھی امت مسلمہ کو اسی جذبے، ایمان، اور قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم اگر متحد ہو جائے تو یہ وقت کا سپر پاور بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سوال نہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف لڑ کر دکھایا بلکہ دشمن کو مجبور کیا کہ وہ سیزفائر کی بھیک مانگے۔ جب نظریہ اور ایمان غالب آ جائے، تو ہتھیار پیچھے رہ جاتے ہیں۔

پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ ایک نہیں، بلکہ 13 سو دشمنوں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے پیچھے صرف فوج نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک قوم، اور ایک عقیدہ کھڑا ہے۔

آج کا پاکستان، کل کے پاکستان سے مختلف ہے۔ اب دشمن صرف سرحد پر حملہ نہیں کرتا، وہ ذہنوں، بیانیے اور معیشت پر بھی وار کرتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے: ’جب قومیں نظریے سے جُڑتی ہیں، تب ان کی طاقت کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی‘۔

پاکستان کو صرف ہتھیاروں سے نہیں، یقین، اتحاد، قربانی اور ایمان سے جیت حاصل کرنی ہے۔ اور یہی وہ روح ہے جس سے غزوۂ ہند کی خوشبو آتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چوہدری خالد عمر

انڈیا پاکستان طیارے

متعلقہ مضامین

  • سیاحوں کی گاڑی گھائی میں گرگئی
  • خیبرپختونخوا: وین کھائی میں گرنے سے بچی سمیت 2 خواتین جاں بحق
  • راولپنڈی: گوشت دینے کے بہانے گھر داخل ہو کر خاتون سے مبینہ زیادتی
  • میٹرک کی طالبہ سے شادی کا جھانسا دے کر متعدد بار زیادتی، ویڈیو بھی بنالی
  • کراچی، ڈیفنس فیز 8 میں کار لفٹنگ کی واردات، سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر
  • لاکھوں حجاج کرام حج مکمل، طواف الوداع کے لیے مکہ، پھر مدینہ روانہ
  • حافظ آباد: خاتون سے اجتماعی زیادتی کا تیسرا ملزم بھی پولیس مقابلے میں ہلاک
  • کراچی: نجی بینک میں نقب زنی کی بڑی واردات، ملزمان لاکھوں روپے، طلائی زیورات، قیمتی سامان لوٹ کرفرار
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • صوابی، خواتین کے جھگڑے پر 61 سالہ شخص قتل