WE News:
2025-11-03@03:04:44 GMT

علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ

اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT

محمکہ ڈاک پاکستان نے پہلا ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948 کو جاری کیا تھا، اس سے پہلے ڈاک کا نظام کیسے چلتا رہا وہ کہانی پھر سہی، چونکہ آج شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی 87ویں برسی ہے، اس لیے آج ’اقبال‘ پر جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹوں تک محدود رہتے ہیں۔

علامہ اقبال کی 20ویں برسی پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

محمکہ ڈاک پاکستان نے علامہ اقبال کی 20ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ جو ڈیڑھ آنہ، 2 آنہ اور 14 آنہ مالیت کے تھے۔ تینوں کا ڈیزائن ایک سا تھا لیکن رنگ الگ الگ تھے۔ ان پر علامہ اقبال کا مشہور شعر ’معمارِ حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز‘ بھی درج تھا۔

ان پر علامہ اقبال کے دستخط کا عکس اور پس منظر میں ’پاکستان‘ اردو، بنگالی اور انگریزی میں لکھا گیا تھا۔ علامہ اقبال کی پیدائش کا سال 1873 لکھا گیا تھا۔( بعد میں حکومتی کمیٹی کی سفارشات کے بعد آئندہ ڈاک ٹکٹوں پر پیدائش کا سال 1877 ہی چھاپا گیا)۔ عبدالرحمان چغتائی کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ انگلینڈ کی کمپنی ’ہیریسن لمیٹڈ لندن‘ نے چھاپے تھے۔

مزید پڑھیں: ’ایسا لگا کہ میں اقبال ہوں اور خود کو پینٹ کر رہا ہوں‘

علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 21 اپریل 1967 کو 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

محکمہ ڈاک نے 21 اپریل 1967 کو علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ عبدالرؤف کے ڈیزائن کردہ 15 پیسے اور 1 روپیہ مالیت کے ٹکٹوں پر علامہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار بھی درج تھے۔ 15 پیسے والے ٹکٹ پر اردو میں یہ شعر درج تھا:

’ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر‘

ٹکٹوں پر علامہ اقبال کا سن پیدائش 1877 اور سن وفات 1938 بھی درج تھا جبکہ اردو اور بنگالی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ ایک روپیہ والے ٹکٹ پر یہ فارسی شعر درج تھا:

’نغمہ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم، ناقۂ بے زمام را‘

علامہ اقبال کی سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 1974 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

9 نومبر 1974 کو علامہ اقبال کی سالگرہ کے موقع پر محکمہ ڈاک نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ منور احمد کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور تاریخ وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھی۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘بھی لکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: علامہ اقبال اور شاہ عبد العزیز: ایک فکری رشتہ جو تاریخ نے سنوارا

صد سالہ جشن پیدائش کے سلسلے میں 9 نومبر 1975 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

علامہ اقبال کی صد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1975 کو ان کی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔

مفکر پاکستان گہری سوچ میں دکھائی دے رہے ہیں جبکہ پس منظر میں ان کی تصانیف (جاوید نامہ، ضرب کلیم، پیام مشرق، بانگ درا، بال جبریل، رموز بیخودی) کے نام بھی درج تھے۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔

علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 1976 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

صد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1976 کو علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عارف جاوید کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔

ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔ اقبال کا مشہور شعر بھی درج تھا:
’فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘

مزید پڑھیں: ’قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے‘ صدر اور وزیرِاعظم کا شاعر مشرق کی برسی پر پیغام

صد سالہ جشن پیدائش پر 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا گیا

پاکستان میں 1977 کو علامہ محمد اقبال کے صد سالہ جشن پیدائش کے طور پر منایا گیا۔ محکمہ ڈاک 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا۔ اخلاق احمد کے ڈیزائن کردہ 20 پیسہ اور 65 پیسہ مالیت کے ٹکٹوں پر اقبال کے فارسی اشعار اور ممتاز ایرانی مصور ’بہزاد‘ کی پینٹنگز شائع کی گئیں۔ ان پر یہ فارسی اشعار درج تھے:

’رفتم و دیدم دو مرد اندر قیام
مقتدی تاتار و افغانی امام‘

’روح رُومی پردہ ہا را بر درید
از پس کہ پارۂ آمد پدید‘

اسی ڈاک ٹکٹ سیٹ کی 1 روپیہ 25 پیسہ اور 2 روپے 25 پیسہ مالیت کی ٹکٹوں پر اقبال کے یہ اشعار درج تھے:

’کوئی اندازہ کرسکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘

’نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم‘

پانچواں ٹکٹ جس کی مالیت 3 روپے تھی، اس پر علامہ اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں یادگارِ اقبال

23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے

23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ ان میں سے ایک پر علامہ اقبال کی پورٹریٹ اور ایک ٹکٹ پر ان کا شعر شائع کیا گیا تھا۔ ایک ٹکٹ پر منٹو پارک لاہور کی منظر کشی ہے جہاں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تھی۔ اس تصویر میں اسٹیج پر لگے بینر پر اقبال کا شعر درج تھا:

’جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘

ایک ٹکٹ پر علامہ اقبال کو 1930 میں الٰہ آباد جلسہ میں ان کی مشہور تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک، ایک روپے مالیت کے ان ٹکٹوں کو آفتاب ظفر نے ڈیزائن کیا تھا۔

14 اگست 1990 کو تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا

14 اگست 1990 کو محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر رہنماؤں پر مشتمل تھا۔ پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ پینسل اسکیچز سے بنے ہر ٹکٹ کی قیمت ایک روپے تھی۔

علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں ان کا نام اور پیدائش اور وفات کے سال درج تھے جبکہ سب سے اوپر (Pioneers of freedom) لکھا تھا۔

علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 2 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے۔

21 اپریل 1997 کو پاکستان اور ایران کے باہمی ثقافتی تعلقات کے اظہار کے طور پر پاکستان اور ایران کے محکمہ ڈاک نے علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 3، تین روپے مالیت کے 2 یادگاری ٹکٹ بیک وقت جاری کیے تھے۔

ٹکٹوں پر دونوں عظیم شعرا کے فارسی اشعار درج تھے۔ عظیم صوفی شاعر اور روحانی پیشوا مولانا جلال الدین رومی (1252-1148) کے ٹکٹ پر یہ شعر درج تھا: ’بشنو ازنی چون حکایت می کند ۔۔۔ وز جدا ییہا شکایت می کند‘۔

جاوید الدین کے ڈیزائین کردہ ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی، علامہ اقبال کے ٹکٹ پر فارسی کا یہ شعر درج تھا: ’ ای امین حکمتِ اُم الکتاب ۔۔۔ وحدت گم گشتہ خود بازیاب‘۔

مزید پڑھیں: اقبال کی شاعری خود شناسی کی لازوال دعوت ہے، یوم اقبال پر وزیراعظم کا پیغام

14 اگست 1997 کو آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر 4 ٹکٹوں کا یادگاری سیٹ جاری کیا گیا۔

14 اگست 1997 کو پاکستان کی آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر جشن (گولڈن جوبلی) منایا گیا۔ اس موقع پر محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 4 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح پر مشتمل تھا۔

پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ ہر ٹکٹ کی قیمت 3 روپے تھی۔ علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں Golden Jubilee Celebrations (1947–1997)) لکھا تھا۔

9 نومبر 2002 کو 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا

محمکہ ڈاک پاکستان نے 2002 کو علامہ اقبال کا سال قرار دیا اور اسی سال 9 نومبر کو ان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا۔ فیضی امیر کے ڈیزائین کردہ ٹکٹوں کی مالیت فی عدد 4 روپے تھی۔

ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی تھی۔

14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

پاکستان پوسٹ نے 14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔ ٹکٹوں کی فی عدد قیمت 5 روپے ہے جن پر دونوں شاعروں کی تصاویر کے ساتھ پاکستان اور رومانیہ کے جھنڈے بھی ہیں۔

ایک ٹکٹ پر تہذیبوں کے مابین مکالمے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یہ ڈاک ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے۔ ان کی طباعت پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن پریس نے کی تھی۔

علامہ اقبال کی 75ویں برسی 21 اپریل 2013 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

علامہ اقبال کی 75ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 2013 کو بھی ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 15 روپے تھی۔

یہ علامہ اقبال پر جاری کیا گیا پہلا ڈاک ٹکٹ تھا جس پر شاعر، فلاسفر اور سوشل ریفارمر بھی درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور کی جاوید منزل جہاں سے آج بھی شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی خوشبو آتی ہے

پاک ترک سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے پر مشترکہ یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا

9 نومر 2017 کو پاکستان اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے کے موقع پر ترکی کی ڈاک اور ٹیلی گراف تنظیم (PTT) اور پاکستان پوسٹ نے 2 مشترکہ یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ 10 روپے فی عدد مالیت کی ٹکٹوں پر پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال (1938-1877) اور ترکی کے قومی شاعر مہمت عاکف ارسوی (1963-1873) کی تصاویر موجود تھیں، جنہیں دونوں ممالک کے عوام دل سے چاہتے ہیں۔

ترکی اب تک پاکستان کے حوالے سے 13 ڈاک ٹکٹ جاری کرچکا تھا، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب دونوں ممالک نے مشترکہ ٹکٹ جاری کیا۔ ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے جبکہ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی۔

پاکستان اور ایران نے بنا رائیلٹی کے ڈاک ٹکٹس پر چھاپے؟

پاکستان پوسٹ نے 9 نومبر 2021 کو پاک جرمن تعلقات کے 70 برس مکمل ہونے پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا، جس پر علامہ اقبال اور جرمن شاعر گوئٹے کے پورٹریٹ شائع کیے گئے تھے۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 20 روپے مالیت کے 4 لاکھ ٹکٹس جاری کیے گئے تھے۔

رائیلٹی کے لیے 3 دسمبر 2021 کو ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ کو لکھے گئے خط کا عکس

پاکستان پوسٹ نے مصور اقبال ’عجب خان‘ کی اجازت کے بغیر ان کا بنایا ہوا اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا تو انہوں نے رائیلٹی کے لیے 3 دسمبر 2021 کو ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ سمیت دیگر ارباب اختیار کو خطوط لکھے جو تاحال جواب کے منتظر ہیں۔

فرزند اقبال کی 100ویں سالگرہ پر یادگاری سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا

ڈاکٹر جاوید اقبال (1924–2015) پاکستان کے عظیم مفکر، مصنف، ماہرِ قانون اور جج تھے۔ وہ علامہ محمد اقبال فرزند تھے، ان کی زندگی بھی فکری، علمی اور عدالتی خدمات سے بھرپور تھی۔ ان کی 100ویں سالگرہ کی مناسبت سے پاکستان پوسٹ کی جانب سے 100 روپے مالیت کی سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ 9 نومبر 2024 کو جاری کیا۔

یوم اقبال (9 نومبر) کے موقع پر جاری کیے گئے ٹکٹ کو ابو عبیدہ ایاز اور حسنین محمود نے ڈیزائین کیا تھا۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 10 ہزار سونیئر شیٹز جاری کی گئی تھیں۔ یہ پاکستان کی ڈاک تاریخ میں پہلی بار QR کوڈ والا ٹکٹ بھی ہے۔QR کوڈ اسکین کرنے سے ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندگی، خدمات اور تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علم کے فروغ کی جانب اہم قدم ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

پاکستان پوسٹ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال علامہ اقبال علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ علامہ اقبال پر جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹ مشکورعلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان پوسٹ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال علامہ اقبال علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ مشکورعلی ان کی طباعت پاکستان صد سالہ جشن پیدائش سالگرہ کے موقع پر علامہ محمد اقبال سیٹ جاری کیا گیا علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ نے عادل صلاح الدین اور انگریزی میں علامہ اقبال کی پر علامہ اقبال علامہ اقبال کے علامہ اقبال کا کو علامہ اقبال جبکہ اردو اور محکمہ ڈاک نے مکمل ہونے پر پاکستان اور فارسی اشعار بھی درج تھا شعر درج تھا کیا گیا تھا پاکستان کی روپے مالیت مزید پڑھیں ایک ٹکٹ پر پر 21 اپریل تعلقات کے ٹکٹوں پر مالیت کے ٹکٹوں کی روپے تھی درج تھے شائع کی کیا تھا کیے تھے کے لیے کے ٹکٹ

پڑھیں:

رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر

اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔

ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔

اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔

اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔

ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ

نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔

اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔

’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔

’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔ 

اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔

غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔

ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔

رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:

نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم

ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم

ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن

یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم

’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔

’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔

آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • سی پیک فیز ٹو کا آغاز ہو چکا، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک سے تعلق نہ رکھنے کی شرط نہیں لگائی، احسن اقبال
  • مدارس کو مشکوک بنانے کی سازشیں ناکام ہوں گی، علامہ راشد سومرو
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • چیف آف دی نیول اسٹاف آل پاکستان اسکواش چیمپئن شپ اختتام پذیر
  • مشہد مقدس، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل علامہ ناظر تقوی کا ایم ڈبلیو ایم کے دفتر کا دورہ 
  • علامہ قاضی نادر علوی مجلس علماء مکتب اہلبیت جنوبی پنجاب کے صدر منتخب 
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
  • تعلیم یافتہ نوجوان ملک و قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا خصوصی انٹرویو
  • دنیا کی زندگی عارضی، آخرت دائمی ہے، علامہ رانا محمد ادریس قادری