چین، دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
بیجنگ :چائنا میڈیا گروپ کی مشترکہ میزبانی میں دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن بیجنگ کے علاقے ای جوانگ میں منعقد ہوئی، جس نے چینی معاشرے اور عالمی میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی۔ دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن بیجنگ میں، کیوں ؟ درحقیقت بیجنگ نہ صرف چین کا سیاسی و ثقافتی مرکز بلکہ بین الاقوامی ٹیکنالوجی انوویشن کا ہب بھی ہے، خاص طور پر روبوٹکس انڈسٹری میں بیجنگ کی تیاریاں طویل عرصے سے جاری ہیں۔ 2023 تک بیجنگ کی روبوٹکس انڈسٹری کا کل ریوینیو 20 ارب یوآن سے تجاوز کر چکا ہے، جبکہ 400 سے زائد متعلقہ کمپنیاں یہاں موجود ہیں جو ملک میں پہلے نمبر پر ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والے “بیجنگ ایمبوڈیڈ انٹیلی جنس ایکشن پلان (2025-2027)” کے ساتھ، بیجنگ چین اور دنیا بھر میں روبوٹکس ٹیکنالوجی کا اہم مرکز بن چکا ہے، لہٰذا دنیا کی پہلی روبوٹ ہاف میراتھن کا اس شہر میں انعقاد کوئی حیرت کی بات نہیں۔ روبوٹس کو میراتھن میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
مقابلے میں شریک روبوٹس کمپنی کے نمائندوں کے مطابق، یہ صرف کھیل نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور صنعتی صلاحیتوں کی انتہائی آزمائش ہے۔ متحرک سڑکوں کے حالات اور پیچیدہ ماحول کے ذریعے، یہ ایونٹ موشن کنٹرول، ماحولیاتی ادراک اور توانائی کے انتظام میں روبوٹس کی بنیادی تکنیکی صلاحیتوں کو جامع طور پر جانچ سکتا ہے، ان کی کارکردگی کے لئے کثیر جہتی چیلنجز پیش کرسکتا ہے، اور مقابلے کے ذریعے ٹیکنالوجی کی پختگی کی تصدیق کرسکتا ہے، صنعتی معیارات کے قیام کو فروغ دے سکتا ہے، تکنیکی جدت طرازی کو مزید تقویت دے سکتا ہے، روبوٹ سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر ٹیکنالوجی کی اعلی ٰ درستگی کو فروغ دے سکتا ہے، اور مینوفیکچررز اور اے آئی الگورتھم کمپنیوں کے درمیان گہرے تعاون کو فروغ دے سکتا ہے۔
اس طرح ہیومنائیڈ روبوٹ صنعت کی ترقی کے لئے نئی ایپلی کیشنز فراہم ہو سکتی ہیں، اور معاشرتی اور پیداواری منظرنامے جیسے آفات سے بچاؤ ، طویل فاصلے کے معائنے ، خصوصی خطرناک آپریشنز ، ذہین مینوفیکچرنگ وغیرہ میں ان مصنوعات کے استعمال کو فروغ دیا جا سکتا ہے ، اور یہاں تک کہ بزرگوں کی دیکھ بھال اور دیگر گھریلو امور میں حصہ لینے کے لئے فیملی سسٹم میں بھی داخل کیا جا سکتا ہے۔اس ہاف میراتھن مقابلے میں بیجنگ ہیومنائیڈ روبوٹ انوویشن سینٹر کا تیار کردہ “ٹیان گونگ الٹرا” روبوٹ تقریباً 2 گھنٹے 40 منٹ میں یہ دوڑ مکمل کرکے فاتح قرار پایا۔ 1.
جاپان ٹائمز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن جدید ٹیکنالوجی میں عالمی مقابلے کی قیادت کرنے کے لیے چین کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ جاپان کی “آساہی شمبن” ویب سائٹ نے اطلاع دی کہ چینی حکومت نے کئی سال پہلے روبوٹ انڈسٹری کی ترقی کی بھرپور حمایت شروع کی تھی اور حال ہی میں ہیومنائیڈ روبوٹس نے قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ رپورٹ میں مورگن اسٹینلے کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہیومنائیڈ روبوٹس کے میدان میں اہم کردار ادا کرنے والی ٹاپ 100 عالمی کمپنیوں میں چین کی 37 کمپنیاں شامل ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں چین میں ہیومنائیڈ روبوٹس کے لیے پیٹنٹ درخواستوں کی تعداد 5,688 تک پہنچ گئی ہے، جو دوسرے نمبر پر کھڑے امریکہ کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے ۔دی ٹائمز آف انڈیا کی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانوں اور روبوٹس کا مقابلہ ایک ایسا منظر ہے جو کبھی صرف سائنس فکشن فلموں میں دیکھا جاتا تھا۔ مصنوعی ذہانت کی حیرت انگیز ترقی کے ساتھ ساتھ ، یہ وژن بیجنگ میں ایک حقیقت بن چکا ہے۔ امریکی ویب سائٹ “انٹرسٹنگ انجینئرنگ ” نے رپورٹ کی ہے کہ اس مقابلے کا انعقاد مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کی ترقی میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ یہ میراتھن بیجنگ کے علاقے ای جوانگ میں منعقد کی گئی جو ایک ایسا علاقہ ہے جو ‘عالمی مصنوعی ذہانت کا شہر بن رہا ہے۔ یہ ایونٹ روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کی جدت طرازی کو لاگو کرنے میں چین کے عزائم کی نشاندہی کرتی ہے۔ توقع ہے کہ 2029 تک چین عالمی ہیومنائیڈ روبوٹ مارکیٹ کا ایک تہائی حصہ کنٹرول کرے گا۔ ایک عام آدمی کے نقطہ نظر سے، یہ مقابلہ ہمیں مستقبل قریب میں اپنی “سائنس فکشن زندگی” کے مناظر دکھاتا ہے۔ بیجنگ کے ایک شہری نے مقابلہ دیکھنے کے بعد نامہ نگار سے کہا، “جب ہم 70 سال کے ہوں گے، شاید ہم اس روبوٹ کو استعمال کر پائیں گے۔” ہاں، یہ واقعی دلکش ہے۔ ٹیکنالوجی ہمیں نئی ادویات، نئے موبائل فونز، نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیاں ہی نہیں دیتی، بلکہ مستقبل کی زندگی کے لیے خوبصورت امیدیں اور رومانوی تخیلات بھی فراہم کرتی ہے۔
Post Views: 5ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت دے سکتا ہے ویب سائٹ کو فروغ
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک: موجودہ ترقیاتی ماڈل 25 کروڑ سے زائد آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے خبردار کیا ہے کہ ملک کا موجودہ معاشی ترقیاتی ماڈل اب 25 کروڑ سے زیادہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ مستقل اور مستحکم معاشی پالیسیوں کا نہ رہنا بھی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔
یہ بات انہوں نے پاکستان بزنس کونسل کے اجلاس ‘معیشت پر مذاکرات’ سے خطاب میں کہی۔ گورنر کے مطابق، گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی معاشی نمو میں کمی دیکھی گئی ہے، جس کا 30 سالہ اوسط 3.9 فیصد تھا، لیکن گزشتہ پانچ سال میں یہ صرف 3.4 فیصد تک رہ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کاروباری چکر مختصر ہو رہے ہیں اور موجودہ ماڈل ملک کو طویل مدتی استحکام فراہم نہیں کر سکتا۔ حالیہ اقدامات نے عوام اور کاروباری طبقے پر بھاری ٹیکس اور مہنگی توانائی کے بوجھ ڈالے ہیں، جبکہ حکومتی اخراجات پر قابو پانا بھی کافی حد تک ممکن نہیں رہا۔
اہم اعداد و شمار: بے روزگاری: 7.1 فیصد (21 سال کی بلند ترین سطح)، غربت کی شرح: 44.7 فیصد
گورنر نے واضح کیا کہ پاکستان ایک ‘انفلیکشن پوائنٹ’ پر کھڑا ہے، جہاں فوری طور پر قلیل مدتی استحکام سے آگے بڑھ کر دیرپا اور جامع معاشی نمو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کاروباری طبقے کو خبردار کیا کہ صرف مختصر مدتی منافع کے لیے مستقبل کی مسابقت قربان نہ کی جائے، اور نجی شعبے کو اندرونی مارکیٹ تک محدود رہنے کے بجائے عالمی منڈیوں میں حصہ لینا چاہیے۔
جمیل احمد نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر ڈالر خرید کر زرِمبادلہ ذخائر مضبوط کیے ہیں، اور مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ توقع ہے کہ آنے والے برسوں میں مہنگائی 5 تا 7 فیصد کے ہدف کے اندر رہے گی۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو فوری طور پر مضبوط، پائیدار اور بین الاقوامی سطح سے مربوط معاشی نمو کے ماڈل کی طرف منتقل ہونا چاہیے، تاکہ ملک دوبارہ معاشی بحران اور غیر مستحکم اقدامات کے چکر میں نہ پھنسے۔
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایا کہ پاکستان کی باضابطہ معیشت کا حجم تقریباً 350 ارب ڈالر ہے، لیکن اسمگلنگ اور غیر رسمی معیشت کو شامل کرنے پر یہ تقریباً 700 ارب ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔