Daily Ausaf:
2025-06-10@06:23:05 GMT

خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT

زمانہ قدیم سے ہی سلطنتوں کی عظمت کا دارومدار ان کے زیرِزمین خزانوں اورتجارتی شاہراہوں پررہا ہے۔ آج بھی جب چین اورامریکا جیسے عظیم اقتصادی طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ کی آگ بھڑکتی ہے،تواس کامرکزصرف محصولات تک محدودنہیں رہتابلکہ یہ جنگ اب ان نایاب معدنیات تک پھیل چکی ہے جوجدید ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں ۔ چین نے حال ہی میں ان معدنیات کی برآمد پرپابندیوں کااعلان کرکے امریکاکوایک ایسے میدان میں للکاراہے جہاں اس کی کمزوریاں عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔امریکااور چین کے درمیان ایک دوسرے کی اشیاء پرٹیرف اورجوابی ٹیرف لگانے کی اس تجارتی جنگ کاپس منظرنہ تونیاہے اورنہ ہی اچانک سامنے آیاہے۔
عالمی سیاسی منظرنامہ گزشتہ چنددہائیوں سے جس کروٹ پرہے،اس میں معیشت اورٹیکنالوجی کا امتزاج طاقت کے نئے پیمانے متعین کررہاہے۔یہ دور میدانِ جنگ میں گولیوں کی گونج سے زیادہ،معدنی وسائل کی تقسیم پرمبنی پالیسیوں کی گونج سن رہاہے۔چینی دانشورڈینگ شیوپنگ کایہ جملہ آج تاریخ کی سچائی بن چکاہے کہ ’’مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے پاس تیل ہے،ہمارے پاس نایاب معدنیات ہیں۔
چین اورامریکاکے مابین جاری تجارتی جنگ اس وقت نہایت ہی نازک موڑپرآپہنچی ہے۔ایک طرف دونوں ممالک ایک دوسرے پربھاری محصولات (ٹیرف)عائدکرکے معاشی ضربیں لگارہے ہیں، تو دوسری طرف چین نے اپنی سب سے بڑی طاقت نایاب معدنیات کوبطورہتھیارا ستعمال کرناشروع کردیا ہے۔ ان معدنیات کی برآمدپرپابندی کے احکامات جاری کرنا امریکاکے لئے ایساہی ہے جیسے کسی زندہ جسم سے سانس کی ڈورکھینچ لی جائے۔
امریکاکاان نایاب معدنیات پرانحصار بے حد زیادہ ہے۔ سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم اور دیگر ریئرارتھ عناصرجدید ٹیکنالوجی کے بنیادی ستون ہیں۔میزائل سازی،جیٹ طیارے ،موبائل فونز،ریڈار،الیکٹرک گاڑیاں،اورحتیٰ کہ سبزتوانائی کی مصنوعات میں ان کا استعمال لازم ہے۔ان معدنیات کو’’نایاب ‘‘اس لئے کہاجاتاہے کہ یہ زمین میں قلیل مقدارمیں پائے جاتے ہیں،اور انہیں علیحدہ کرنا،صاف کرنااورپروسیس کرنا انتہائی مہنگااورماحول دشمن عمل ہے۔
دنیامیں سب سے زیادہ ذخائرآسٹریلیا، چین،امریکا،برازیل اورروس میں پائے جاتے ہیں،مگر پروسیسنگ کا92فیصدحصہ صرف چین کے پاس ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق،چین اس وقت عالمی سطح پر61 فیصدتک نایاب معدنیات پیداکرتاہے اور92 فیصدتک ان کی ریفائننگ چین کے ہاتھ میں ہے۔اس یکطرفہ اجارہ داری نے چین کواس شعبے کابلاشبہ شہنشاہ بنادیاہے۔
یہ معدنیات نہ صرف قیمتی ہیں بلکہ ماحولیاتی طورپرمہلک بھی ہیں۔ان کی کان کنی میں تابکاری عناصرشامل ہوتے ہیں، جوماحول اورانسانی صحت کے لئے خطرناک ہیں۔یہی سبب ہے کہ یورپ اوردیگر مغربی اقوام نے اس میدان سے راہِ فرار اختیارکی اور چین نے اس خلاکوکئی دہائیوں کی جامع منصوبہ بندی سے پرکر دیا ۔ چین نے سات اہم نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی لگادی ہے،جن میں ایسے عناصربھی شامل ہیں جوامریکی دفاعی صنعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف امریکاکی دفاعی تیاریوں میں خلل پڑا،بلکہ عالمی منڈی میں بے چینی بھی بڑھ گئی ہے۔
چین نے اپریل سے برآمدات کے لئے سپیشل لائسنس لازمی قراردے دیاہے،جوکہ’’دوہری استعمال‘‘ کے معاہدات کے تحت ایک جائزقدم ہے۔یہ معدنیات جنگی اورغیر جنگی، دونوں ٹیکنالوجیزمیں استعمال ہوتی ہیں، جس سے ان کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سینٹرآف سٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل سٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق، ایف 35 جیٹس، ٹوموہاک میزائل اوردیگرہائی ٹیک دفاعی آلات کا انحصارانہی معدنیات پرہے۔چین کی موجودگی نہ ہوتوامریکاکے لئے یہ دفاعی سلسلہ تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
امریکاکے پاس بھی محدودمقدارمیں ذخائر ہیں، مگرپروسیسنگ کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین سے معاہدے کی کوشش کی تاکہ چین پرانحصارکم کیاجاسکے۔ بدقسمتی سے،یوکرین کے وہ علاقے جہاں یہ معدنیات ہیں،روسی قبضے میں آچکے ہیں۔دراصل یوکرین کی جنگ میں امریکا اوریورپ کی دلچسپی انہی معدنیات کی وجہ سے ہے لیکن ناکامی کی وجہ سے اب ٹرمپ کی پالیسی کایوٹرن انہی مفادکے لئے ہے۔اسی لئے ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کوکھلی دھمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی اوراس سے براہِ راست ان معدنیات کے حصول کامطالبہ کیاتھا جوابھی تک پور انہیں ہوسکا۔
گرین لینڈکوامریکاخریدنے کی پیشکش کرچکا ہے۔ معدنیات سے مالامال یہ خطہ،ڈنمارک کی مالی امدادپرانحصارکرتاہے،مگرٹرمپ کی جارحانہ حکمت عملی نے اس تجویزکوعالمی سطح پرمزاح کانشانہ بنادیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمتوازن فیصلوں نے امریکاکودوہری مشکل میں ڈال دیاہے۔نہ صرف اس نے چین جیسے اجارہ دار کو ناراض کردیاہے بلکہ یورپ جیسے اتحادی بھی اس کے اقدامات سے نالاں ہیں۔یہ جنگ محض تجارتی یااقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے نئے مراکزکاتعین کررہی ہے۔اگرامریکا نے وقت پرکوئی نیا راستہ نہ چنائوتوممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ میدانِ جنگ میں موجودتو ہو،مگراس کے پاس جنگ جیتنے کے لئے ہتھیار نہ ہوں۔یوں بھی تاریخ سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ امریکااب تک36سے زائدممالک میں جارحیت کا مرتکب ہوچکاہے اورہرجنگ کا مقدررسواکن شکست اور فرار پر مبنی ہے۔آئیے!چین اورامریکا میں موجودہ تناؤکو سمجھنے کے لئے اس تنازعہ کا شواہدکے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں طاقت کے مراکز کس کے ہاتھ میں ہوگا؟
دراصل اس کشیدگی کی بنیادٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں2018ء میں چین پرٹیکنالوجی چوری، غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں،اورذہین ملکیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکرتے ہوئے250 ارب ڈالرمالیت کی چینی مصنوعات پر ٹیرف لگاکررکھی تھی جس کے جواب میں چین نے اپنے ردعمل میں 110ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات(سویا بین،الیکٹرانکس، پٹرولیم) پر ٹیرف کاجواب دیاتھا۔2023ء تک دونوں ممالک کے درمیان 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائدہوچکے تھے۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، امریکا کو 2023ء تک0.

5 فیصد جی ڈی پی کانقصان،جبکہ چین کو1.2 فیصد جی ڈی پی کااقتصادی دھچکالگا۔گویاامریکااورچین کے درمیان یہی نایاب معدنیات کامحاذایک مرتبہ پھر ایک خوفناک جن کی صورت میں عالمی تجارتی منڈی میں آن پہنچاہے۔
نایاب زمینی معدنیات وہ17کیمیائی عناصر ہیں جن کے بغیرآج کی ٹیکنالوجی چاہے وہ اسمارٹ فونزہوں،الیکٹرک گاڑیاں یاجنگی میزائل سسٹم ،ناممکن ہیں۔ سکینڈیئم سے لے کر لٹیٹیئم تک،یہ تمام عناصرایسے ہیں جوزمین کی گودمیں تووافرمقدارمیں موجودہیں، مگران کانکالنااورصاف کرناانتہائی مشکل اورمہنگاعمل ہے۔تاریخی طورپر،ان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ بیسویں صدی میں یورینیم کے بعدیہی وہ دوسرے خاموش ہتھیارہیں جونہ صرف عالمی طاقتوں کی جنگی اوراقتصادی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں بلکہ یہ نایاب معدنیات جدید تہذیب کامضبوط ستون بن کر مستقبل فاتح قوم کااستعارہ بن گئی ہیں۔
گزشتہ دوعشروں میں چین نے نہ ان معدنیات کی کان کنی اوران کی پروسیسنگ میں بھی دنیاپرغلبہ حاصل کرلیاہے۔کان کنی سے پروسیسنگ تک چین کی بالادستی نے امریکاکی صنعتی اورمعاشی دنیا پرلرزہ طاری کردیا ہے۔ بین الاقوامی اعدادوشمارکے مطابق، چین اس وقت دنیا بھر میں61 فیصد نایاب معدنیات پیداکرتاہے، جبکہ ان کی پروسیسنگ کا 92 فیصد حصہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ بالادستی محض اتفاق نہیں،بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہے۔1980ء کی دہائی میں جب مغربی ممالک نے ماحولیاتی تحفظ کے نام پرکان کنی کے سخت قوانین بنائے،توچین نے اس موقع کوغنیمت جانا۔اس نے کم لاگت،کم مزدوری ، اورماحولیاتی پابندیوں میں نرمی کے ذریعے دنیابھرکی صنعت کواپنی جانب متوجہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج چین کے صوبے انرمونگولیا اورجیانگشی میں واقع کانیں دنیا کی ٹیکنالوجی کوسہارا دے رہی ہیں۔
(جاری ہے)

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نایاب معدنیات معدنیات کی ان معدنیات کے مطابق ہیں بلکہ کے پاس چین کے کے لئے چین نے

پڑھیں:

قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے

اسلام ٹائمز: قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کیلئے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کیلئے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ تحریر: محمد حسن جمالی

علم بادشاہ ہے، جس قوم کے پاس علم ہو، وہی دوسروں پر حکمرانی کرسکتی ہے۔رہبر معظم کے مطابق علم تمدن کی بنیاد ہے۔ تحقیق، سیاسی، عسکری، تہذیب و ثقافت اور اقتصادی میدان میں قوموں کو استقلال اور اقتدار فراہم کرتی ہے۔ علم کے حصول کا اہم ذریعہ قلم ہے۔ قلم انسان کی وہ طاقت ہے، جس سے افکار تشکیل پاتے ہیں، تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ انقلابات جنم لیتے ہیں اور تاریخ کے دھارے بدل جاتے ہیں۔ یہ صرف روشنائی سے بھرا چند گرام وزنی آلہ نہیں بلکہ انسان کے ضمیر، احساس، تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ صفحۂ قرطاس پر نمودار کرنے کا اہم وسیلہ ہے۔ جو قومیں اپنے قلم کو سچائی، عدل اور شعور کی خدمت میں لگاتی ہیں، وہ کبھی فکری غلامی کا شکار نہیں ہوتیں، جبکہ وہ قومیں جو قلم کو نظرانداز کر دیتی ہیں یا اسے صرف مفاد، جھوٹ اور سنسنی پھیلانے کا ذریعہ بنا دیتی ہیں، وہ اپنی نسلوں کو تاریکی کے سپرد کر دیتی ہیں۔

آج کے اس پیچیدہ اور متلاطم دور میں ایک طرف سچ دبایا جا رہا ہے اور جھوٹ کو خوبصورت بیانیہ دے کر پھیلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں خاموش رہ جانا سب سے بڑی خیانت ہے۔ خاموشی، ظلم کی تائید ہے، لاعلمی کے تسلسل کو جاری رکھنے کی اجازت ہے اور جھوٹے نظریات کو رواج دینے کا راستہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر ہم نے سوچنے، سمجھنے اور لکھنے کا عمل ترک کر دیا تو ہم صرف ایک بے حس ہجوم بن کر رہ جائیں گے، جسے کسی بھی سمت ہانکا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہر وہ فرد جس کے اندر احساس کی رمق باقی ہے اور جو معاشرے کی بدحالی پر تڑپتا ہے، وہ خاموش تماشائی بنا رہنے کے بجائے قلم اٹھائے اور شعور کی شمع روشن کرے۔ قلم کا اصل مقصد صرف آنکھیں بند کرکے کاغذ کے صفحات بھرنا نہیں، بلکہ انسانوں کے اندر وہ سوال پیدا کرنا ہے، جو انہیں سچ تک لے جائے۔

جب ہم کسی مظلوم کی داستان لکھتے ہیں، کسی ناانصافی کی نشاندہی کرتے ہیں اور کسی گمراہی کو بے نقاب کرتے ہیں تو ہم درحقیقت سچائی کی جانب ایک راستہ کھولتے ہیں اور یہی وہ پہلی اینٹ ہے، جو معاشرے کی اصلاح کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یاد رکھیں! اگر آپ کا ایک جملہ کسی نوجوان کے دل میں بیداری پیدا کر دے، اگر آپ کا ایک مضمون کسی فرد کو سوچنے پر مجبور کر دے تو یہ فقط تحریر نہیں بلکہ تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ آج ہمیں سوشل میڈیا کی سطحی تحریروں، جھوٹے تجزیوں اور فکری بدنظمی کے طوفان کا سامنا ہے۔ یہاں ہر کوئی لکھ رہا ہے، مگر کم ہی لوگ ایسے ہیں، جو ذمہ داری سے لکھتے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو مسائل پر سوچیں، انہیں پرکھیں، ان پر تحقیق کریں اور پھر لکھیں۔ ایسا لکھیں، جو وقتی واہ واہ کے لیے نہیں، بلکہ قوم کی دیرپا بیداری کے لیے ہو۔

ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو قوم کے ذہنوں سے تعصب، جہالت اور غفلت کی گرد جھاڑ سکیں، جو سچ کے راستے پر سوالات کے چراغ روشن کریں، جو ظالم کو ظالم لکھنے کی جرأت رکھیں اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرسکیں۔ قلم کا مطلب ہے ذمہ داری اور شعور۔ ایک باشعور قلم کار وہ ہوتا ہے، جو اپنے ہر لفظ کو تولتا ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہیں لکھتا، بلکہ انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے لکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک جملہ کسی کے دل کا رُخ بدل سکتا ہے، کسی کی سوچ کی بنیاد ہلا سکتا ہے اور کسی کو عمل پر آمادہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی اس کارواں کا حصہ بنیں، ہم بھی لکھیں، ہم بھی سوچیں اور ہم بھی شعور بانٹیں۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ سوچنے اور لکھنے کے عمل کو زندہ رکھنا خود انسانیت کی بقا ہے۔ اگر آج ہم نے شعور کی شمع اپنے قلم سے نہ جلائی تو کل اندھیروں کا گلہ کرنا بے معنی ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بنانا ہوگا۔ ایک ایسا ہتھیار جو خون نہیں سوچ نکالے؛ جو چیخ نہیں دلیل دے؛ جو نفرت نہیں فہم بانٹے۔

قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کے لیے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ وہ سیاست دان جنہیں قوم نے امانت دار سمجھ کر ووٹ دیا، جنہیں رہنماء جان کر سروں پر بٹھایا، جن کے وعدوں پر بھروسہ کیا، جن کی باتوں میں امید کے دیئے تلاش کیے گئے، مگر بدلے میں انہوں نے عوام کے اعتماد کو بیچ کر اپنے محل تعمیر کیے، غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے بچوں کے بینک بیلنس بڑھائے اور پاکستان کی قسمت کو اپنی سیاست کی شطرنج پر قربان کر دیا۔

یہ وہی سیاست دان ہیں، جو ہر الیکشن میں نئے نعرے، نئی جھوٹی قسمیں اور نئے خواب لے کر عوام کے سامنے آتے ہیں اور جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان کا ہر عمل اس ملک کی روح پر زخم بن کر لگتا ہے۔ ان کی زبان پر اسلام، جمہوریت، خدمت، اصول اور انصاف جیسے الفاظ ہوتے ہیں، مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ صرف لوٹ مار، اقربا پروری، کرپشن، جھوٹ، بددیانتی، نااہلی اور بیرونی آقاؤں کی تابعداری کے سوا کچھ نہیں دکھاتے۔ وہ قومی اداروں کو کمزور کرتے ہیں، عدلیہ کو دباؤ میں رکھتے ہیں، میڈیا کو خریدتے ہیں اور ہر اس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کی اصلیت بے نقاب کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان چہروں کو بار بار موقع دیا گیا، کیونکہ انہوں نے جھوٹ کو اس مہارت سے سچ کا لبادہ پہنایا کہ سادہ دل عوام پھر ان کے دام فریب میں آگئے۔

اگر آج ان کے جھوٹ کو قلم کی روشنی سے چیر کر بے نقاب نہ کیا گیا، اگر ان کی سازشوں، منافقتوں اور بدنیتیوں کو الفاظ کی تلوار سے کاٹا نہ گیا تو آنے والی نسلیں بھی انہی خالی نعروں اور جعلی تاریخوں کو رہنمائی سمجھتی رہیں گی۔ ان کے بچوں کی قسمت بھی انہی جعلی رہنماؤں کے ہاتھوں لکھی جائے گی اور قوم ایک بار پھر اسی اندھیرے میں بھٹکتی رہے گی، جس سے نکلنے کے لیے آج کا شعور پکار رہا ہے۔ یہ سیاست دان صرف مالی کرپشن تک محدود نہیں۔ ان کی سب سے بڑی خیانت فکری کرپشن ہے۔ انہوں نے قوم کو تقسیم کیا، فرقہ واریت کو ہوا دی، علاقائیت کو بڑھایا، قومیت کے نام پر نفرتیں بوئیں اور تعلیمی نظام کو ایسا بگاڑا کہ سوچنے والے ذہن پیدا ہی نہ ہوں۔ انہوں نے نوجوانوں کے ذہنوں میں الجھن، مایوسی اور غصہ بھرا، تاکہ کوئی شعور کی بات نہ کرسکے، کوئی سوال نہ اٹھا سکے اور کوئی ان کے مفادات کو چیلنج نہ کرسکے۔

وہ چاہتے ہیں کہ عوام صرف جذباتی رہے، تاکہ وہ جھوٹ بول کر ووٹ لے سکیں اور پھر اقتدار میں آکر ملک کو اپنے خاندانی کاروبار کی طرح چلا سکیں۔ لہٰذا یہ اب صرف ایک اخلاقی فرض نہیں رہا بلکہ ایک قومی فریضہ بن چکا ہے کہ اہلِ قلم ان فتنہ گر سیاست دانوں کی چمکتی ہوئی مگر اندر سے سڑتی ہوئی حقیقت کو بے نقاب کریں۔ ان کے وہ چہرے دکھائیں، جو میڈیا پر خوشنما پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ان کے وہ بیانیے توڑیں، جو قوم کے شعور کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، کیونکہ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قلم صرف حسن کی تعریف کے لیے نہیں، بدصورتی کو بے نقاب کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس وقت سب سے بدصورت شے، سب سے مکروہ سازش اور سب سے خطرناک دھوکہ یہی مکار سیاست دان ہیں، جو جمہوریت کے پردے میں آمریت کے زہر سے قوم کو برباد کر رہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم میں برپا ہونے والا حقیقی انقلاب صرف احتجاج یا اقتدار کی تبدیلی سے نہیں آتا، بلکہ اس کے پیچھے قلم کی طاقت کارفرما ہوتی ہے۔ انقلابِ اسلامی ایران اسی ابدی حقیقت کا ایک درخشاں اور زندہ ثبوت ہے۔ یہ فقط ایک سیاسی تحریک یا اقتدار کی منتقلی نہیں تھی، بلکہ ایک فکری بیداری، تہذیبی احیاء اور نظریاتی تجدید کا نام تھا۔ اس انقلاب کے پس پردہ جو اصل طاقت کارفرما تھی، وہ عوامی جذبات یا وقتی جوش و خروش نہیں، بلکہ وہ تحریریں اور افکار تھے، جو ذہنوں کو جھنجھوڑتے، دلوں کو جگاتے اور ضمیر کو بیدار کرتے تھے۔ ان تحریروں میں سب سے روشن اور مؤثر نام ہے شہید مرتضیٰ مطہری کا۔ شہید مطہری صرف ایک مذہبی عالم نہیں تھے بلکہ وہ فکر کے معمار، عقل و شعور کے مبلغ اور جدید اسلامی فکر کے عظیم معلم تھے۔ ان کے قلم نے نہ صرف مغرب کے فکری حملوں کا مدلل جواب دیا ہے، بلکہ مشرق کی خوابیدہ امت کے لیے بیداری بھی فراہم کی ہے۔

انہوں نے نوجوان نسل کو یہ سمجھایا کہ دین صرف رسوم و رواج یا ماضی کے قصے سنانے کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے، جو انسان کو مقصد، بصیرت اور مزاحمت کی جرأت عطا کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انقلاب سے پہلے فکری زمین تیار کرنا لازم ہے اور یہ زمین قلم کے ذریعے ہی زرخیز ہوتی ہے۔ جب انسان سوچتا ہے، سوال کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے اور سچ کی تلاش میں نکلتا ہے، تبھی تبدیلی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہید مطہری نے اسلامی تعلیمات کو صرف مساجد اور مدرسوں کی چار دیواری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ فلسفہ، معاشرت، تاریخ اور انسانی افکار کے وسیع میدانوں میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ ان کا ہر جملہ ایک فکری مشعل اور ہر کتاب ایک نظریاتی قلعہ تھی۔ اسلامی انقلاب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک نمونہ ہے۔ یہ اس زندہ حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر قلم بیدار ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں، اگر فکر آزاد ہو جائے تو ایوانِ ظلم لرز سکتے ہیں اور اگر فکری انقلاب برپا ہو جائے تو تاریخ کے رخ موڑے جا سکتے ہیں۔

آج جب ہم اپنی ملت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تبدیلی کے نعرے تو موجود ہیں، مگر ان کے پیچھے وہ گہرائی، وہ فکری بنیاد اور وہ اخلاقی جرأت ناپید ہے، جو قلم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہمیں شہید مطہری جیسے اہلِ قلم کی ضرورت ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہ لکھیں، بلکہ زندگیاں بدلنے کے لیے لکھیں؛ جو نوجوان نسل میں وہ سوالات پیدا کریں، جو انہیں اندھی تقلید سے نکال کر تحقیق، تفکر اور تعمیری مزاحمت کی طرف لے جائیں۔ ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو جھوٹ کا نقاب چاک کریں، جو سچ کو دلیل کے ساتھ پیش کریں، جو صرف تنقید نہیں بلکہ تعمیر کی بات کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے قلم کو وہ طاقتور ہتھیار بنائیں، جو بے ضمیری کی دیواروں کو توڑ دے اور شعور کی روشنی کو ہر دل تک پہنچا دے۔ آیئے قلم اٹھایئے اور شعور پھیلایئے۔

متعلقہ مضامین

  • چین نے بھارت کو نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی لگا دی
  • قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
  • غزہ میں شدید غذائی قلت سے بچوں کی حالت تشویشناک، امدادی مراکز بند، عالمی برادری خاموش
  • ٹرمپ انتظامیہ نے طاقت کا غلط استعمال کر کے تشدد کو ہوا دی، امیگریشن ایڈوکیسی گروپ
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے، مریم نواز
  • بھارت کو بڑا جھٹکا، چین نے نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی عائد کردی
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے: مریم نواز
  • بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا، جلیل عباس جیلانی
  • جوانوں کی قربانیاں اور ثابت قدمی وطن کے تحفظ کی ضمانت اور پاکستان کی اصل طاقت ہے، وزیر داخلہ
  • فلسطین کی آزمائش پر عالم اسلام خاموش، اللہ دشمنوں کو نابود کرے: خواجہ آصف