سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ تشدد کے ذریعے کسی بھی تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا، کیا بسوں سے بندے اتار کر قتل کرنا درست ہے، سیاسی اورمعاشی حقوق کے لیے قتل وغارت کی ضرورت نہیں۔سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے لاہور میں نیوز کانفرنس میں کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے ذریعے کسی بھی تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا، دنیا کے کئی ممالک کئی مسائل سے گزر رہے ہیں۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ سیاسی اورمعاشی حقوق کے لیے قتل وغارت کی ضرورت نہیں، کیا بسوں سے بندے اتا کر قتل کرنا درست ہے؟ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ صرف پاکستان میں مسائل ہیں.

آج کے بلوچستان میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔سابق نگراں وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان میں ایک طبقہ اس طرح کی گفتگو کر رہا ہے، علیحدگی پسند تحریک صرف پاکستان میں نہیں ہیں، ہمیں دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہوگا، سوشل میڈیا کا مثبت استعمال انتہائی ضروری ہے۔انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے ہم پرامن احتجاج کر سکتے ہیں، انا پرستی مسائل کو جنم دیتی ہے، جب بھی کہیں تشدد ہوتا ہے تو لوگ جواز تلاش کرتے ہیں۔

قبل ازیں سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ملاقات کی۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات میں ملکی صورتحال، قیام امن اور صوبائی ترقیاتی پراجیکٹس پر بھی بات چیت ہوئی۔ سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے ویژن کو سراہا۔ مریم نواز نے کہا پنجاب میں نوجوانوں کو تعلیم، آئی ٹی ٹریننگ، انٹرنشپس اور روزگار کی سہولتوں سے ایمپاور کیا جا رہا ہے۔صحت کا شعبہ اور قیام امن پہلی ترجیحات میں شامل ہے۔سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے صحت اور تعلیم کے شعبہ میں انقلابی پراجیکٹس متعارف کرائے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف پاکستان میں ویمن ایمپاورمنٹ کی زندہ مثال ہیں۔ سابق وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پنجاب میں شعبہ صحت میں جاری اصلاحات کو بھی سراہا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: وزیراعظم انوار الحق کاکڑ انوار الحق کاکڑ نے مریم نواز نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

بھارت کو عالمی عدالت میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا، سندھ طاس معاہدے سے نکل نہیں سکتا، وزیراعظم شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بھارت کو عالمی عدالت میں واضح سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور وہ سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ طور پر نہ علیحدہ ہو سکتا ہے، نہ ہی اسے معطل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے دورے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے بھارت کے رویے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ دشمن ملک پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے پاکستان کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔

وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں کے حوالے سے ثالثی عدالت کی جانب سے دیے گئے حالیہ فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتا ہے اور بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کرتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر ملک میں پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے حکومتی عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیامر بھاشا ڈیم سمیت دیگر اہم آبی منصوبے اپنے وسائل سے مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پانی کے ذخائر کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیح ہے، اور ان منصوبوں کو تیزی سے مکمل کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں آبی بحران سے بچا جا سکے۔

وزیراعظم نے کہاکہ سوات واقعے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا سچائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے، ادارے مشترکہ طور پر کام کریں تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آبی ذخائر این ڈی ایم اے بھارت سندھ طاس معاہدہ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • نااہلی سے نہیں گھبراتے، مریم نواز کی ایوان میں آمد پر احتجاج کرتے رہیں گے، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی
  • پنجاب میں اپوزیشن کے دبانے کا کھیل
  • حکومت نے اساتذہ پر تشدد کرکے ثابت کردیا کہ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی
  • سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق بنے ’وی ٹو‘ کے مہمان، دلچسپ انٹرویو
  • مریم کی دستک پروگرام کے ذریعے سرکاری خدمات کے حصول میں نمایاں اضافہ
  • جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور کا نام نہیں بدلا:مریم اورنگزیب
  • بھارت کو عالمی عدالت میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا، سندھ طاس معاہدے سے نکل نہیں سکتا، وزیراعظم شہباز شریف
  • بھارت آبی معاہدے سے یک طرفہ طور پر نہیں نکل سکتا، وزیراعظم
  • وزیراعظم شہباز شریف سے اعجاز الحق کی ملاقات، بجٹ منظوری پر مبارکباد
  • صوبے کا نام ’مریم آباد‘ رکھ لیں، پنجاب کی وزیراعلیٰ سے یہ مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے؟