’وہ عیسائی نہیں ہوسکتا‘ پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسا کیوں کہا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
آنجہانی پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بعض پالیسیوں کے شدید ناقد رہے ہیں۔ وہ ٹرمپ اس پالیسی کے سخت مخالف تھے جس میں وہ امریکا میں مقیم لوگوں سے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے اور میکسیکو اور امریکا کے درمیان دیوار تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
اس تناظر میں فروری 2016 میں پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی عیسائیت پر سوال اٹھایا تھا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ ان دنوں ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے امریکی صدارتی امیدوار تھے اور زور شور سے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔
دراصل ان دنوں پوپ فرانسس میکسیکو کے دورہ پر تھے، وہاں سے روم واپسی کے دوران پرواز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، پوپ نے کہا کہ ایک شخص جو صرف دیواریں بنانے کے بارے میں سوچتا ہو، چاہے وہ دیواریں جہاں بھی کھڑی کرے، وہ پل بنانے کا نہ سوچتا ہو، وہ عیسائی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ یسوع مسیح کی تعلیمات نہیں ہیں۔
’ وہ شخص عیسائی نہیں ہوسکتا، جو ایسے کام کرے۔‘
پوپ فرانسس کے بیان کا پس منظر ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ بیانات تھے جن میں وہ گیارہ ملین لوگوں کو امریکا سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔ ان دنوں ٹرمپ میکسیکو اور امریکا کے درمیان دیوار کھڑی کرنے اعلانات کر رہے تھے۔
تاہم پوپ کے اس بیان کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انھیں اپنے عیسائی ہونے پر فخر ہے۔ ٹرمپ نے پوپ کے بیان کو شرمناک قرار دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پوپ فرانسس ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) سے ایک بار پھر علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ 31 دسمبر 2026 سے مؤثر ہوگا، اور اس کی وجہ فلسطین کی یونیسکو میں رکنیت اور امریکی خارجہ پالیسی کے ساتھ تنازعات کو قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ یونیسکو کی پالیسیز اور سرگرمیاں امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ یونیسکو تقسیم پیدا کرنے والے سماجی اور ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور اس کا جھکاؤ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی جانب ہے، جنہیں انہوں نے ’عالمی ایجنڈا‘ اور ’سب سے پہلے امریکا پالیسی سے متصادم‘ قرار دیا۔
فلسطین کی رکنیت پر اعتراضٹیمی بروس نے 2011 میں یونیسکو کی جانب سے فلسطین کو مکمل رکنیت دیے جانے کو ’انتہائی مسئلہ انگیز‘ اور امریکی پالیسی کے خلاف قرار دیا، اور کہا کہ یہ اقدام تنظیم میں ’اسرائیل مخالف بیانیے‘ کو تقویت دیتا ہے۔
پہلے بھی 2 بار علیحدگی
یہ تیسری مرتبہ ہے جب امریکا نے یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ اس سے پہلے 1984 میں صدر رونالڈ ریگن کے دور میں یونیسکو پر سیاسی رنگ غالب ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر علیحدگی اختیار کی گئی۔
2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنظیم پر ’اسرائیل مخالف تعصب’ اور ناقص انتظام کا الزام لگا کر علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
2023 میں صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں امریکا دوبارہ رکن بنا، مگر اب موجودہ حکومت نے ایک بار پھر علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔
یونیسکو کی سربراہ کا ردعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے امریکی فیصلے پر ’ شدید افسوس‘ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ’ کثیرالجہتی کے اصولوں کے منافی‘ ہے۔ انہوں نے امریکا کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے یونیسکو کی جانب سے ہولوکاسٹ کی تعلیم اور یہود دشمنی کے خلاف اقدامات کا حوالہ دیا۔
ازولے نے واضح کیا کہ تنظیم نے 2018 کے بعد اصلاحات کی ہیں، مالیاتی نظام کو متنوع بنایا ہے اور اب امریکی تعاون یونیسکو کے کل بجٹ کا صرف 8 فیصد ہے، جب کہ تنظیم کی رضاکارانہ مالی امداد دوگنی ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے اقوام متحدہ کی ماہر فرانچیسکا البانیز کو امریکی پابندیوں کا سامنا، اسرائیلی مظالم کی نشاندہی ’جرم‘ ٹھہری
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی ملازمتیں ختم نہیں کی جائیں گی اور یونیسکو امریکی نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا فلسطین یونیسکو