بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ایک سینئر پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ آج 22 اپریل بروز منگل کیے گئے اس حملے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
اس سے قبل جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا، ''میں پہلگام میں سیاحوں پر اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتی ہوں، جس میں بدقسمتی سے پانچ افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
‘‘ حالیہ برسوں میں ہونے والا ہلاکت خیز حملہموجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا، ''یہ حملہ حالیہ برسوں میں شہریوں پر ہونے والے کسی بھی حملے سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد کا ابھی تعین کیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارے مہمانوں پر یہ حملہ ایک گھناؤنا فعل ہے۔ اس حملے کے مرتکب افراد حیوان ہیں اور وہ حقارت کے مستحق ہیں۔
‘‘خطے کے گورنر منوج سنہا، جو نئی دہلی کے نمائندے ہیں، نے بھی ''سیاحوں پر اس بزدلانہ اور دہشت گردانہ حملے‘‘ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ اس مکروہ حملے کے ذمہ داروں کو سزا سے نہیں بچایا جا سکے گا۔‘‘
ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس مسلم اکثریتی خطے میں سن 1989 سے کشمیری عسکریت پسند ایک مسلح تحریک چلا رہے ہیں۔
یہ عسکریت پسند یا تو آزادی مانگتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔یہ حملہ پہلگام کے مشہور سیاحتی مقام پر ہوا، جو مرکزی شہر سرینگر سے تقریباً 90 کلومیٹر (55 میل) کے فاصلے پر ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے رویندر رینا نے بھارتی نشریاتی اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ان بزدل دہشت گردوں نے نہتے معصوم سیاحوں کو نشانہ بنایا، جو کشمیر کی سیر کے لیے گئے تھے۔
کچھ زخمی سیاحوں کو مقامی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔‘‘ کشمیر میں سیاحت اور سکیورٹیسرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2024 میں تقریباً 35 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا، جن میں اکثریت ملکی سیاحوں کی تھی۔ سن 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور نئی دہلی کا براہ راست کنٹرول نافذ کرنے کے بعد سے لڑائی میں کمی آئی ہے۔
اس کے بعد سے حکام نے اس پہاڑی خطے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ کشمیر سردیوں میں اسکیئنگ اور گرمیوں میں بھارت کے دیگر حصوں کی شدید گرمی سے نجات کے لیے ایک پرکشش سیاحتی مقام ہے۔
سن 2023 میں بھارت نے سرینگر میں سخت سکیورٹی کے حصار میں جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد ''امن اور معمولات‘‘ کی بحالی کو ظاہر کرنا تھا۔
اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول کے قریب کئی نئے ریزورٹس بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔بھارت نے اس خطے میں مستقل طور پر اپنے تقریباً پانچ لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ بھارت اکثر پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، جبکہ اسلام آباد حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
دیامر : بابوسر ریلے میں جاں بحق ڈاکٹر مشال اور دیور کی میتیں لودھراں روانہ کردی گئیں
دیامر میں بابوسر ریلے میں جاں بحق ڈاکٹر مشال اور ان کے دیور کی میتیں لودھراں روانہ کردی گئیں۔
تھور نالے میں سیلاب میں دو افراد بہہ گئے، جن کی تلاش جاری ہے۔ تھک لوشی کے مقام پر سیلاب سے پل کو نقصان پہنچا، سیلاب سے مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا، سیاحوں کو رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
والد نے چچی اور 3 سالہ کزن کو بچانے کیلئے سیلابی ریلے میں چھلانگ لگائی، بیٹا فہد اسلاملینڈ سلائیڈنگ سے چار سیاحوں سمیت پانچ اموات کی تصدیق ہوگئی، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث شاہراہ قراقرم بند ہونے سے ہزاروں مسافر پھنس گئے
بابوسر ٹاپ پر پیر کے روزکلاؤڈ برسٹ کے باعث سیلاب میں بہہ جانے والے 15 سیاحوں کی تلاش آج بھی جاری رہی۔
ترجمان صوبائی حکومت کے مطابق شاہراہ قراقرم دوبارہ دو مقامات پر بند ہے۔ شاہراہ قراقرم کی بندش سے ہزاروں مسافر جگہ جگہ پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ملک میں بارشوں کے باعث مزید 10 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہوگئے۔
چلاس سیلاب نے سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے،
این ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں کے باعث 26 جون سے اب تک ملک بھر میں جاں بحق افراد کی تعداد 252 ہوگئی، جبکہ زخمیوں کی تعداد 611 ہو چکی ہے۔
جاں بحق ہونے والوں میں 85 مرد 46 خواتین اور 121 بچے شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں پنجاب میں 139 ہوئیں۔ خیبر پختون خواہ میں 60 افراد جاں بحق ہوئے۔ سندھ میں 24 ،، جب کہ بلوچستان میں 16 افراد جاں بحق ہوئے۔ 24 گھنٹوں میں 151 مکانات گرے۔ 120 مویشی ہلاک ہوئے۔