بھارت میں امریکی صدور کے دوروں سے جڑے دہشتگردی کے واقعات
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
امریکی نائب صدر جے ڈی وانس اس وقت بھارت کے سرکاری دورے پر ہیں اور اسی وقت بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشتگرد حملہ ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا جا رہا ہے لیکن ابھی تک بھارت کی جانب سے سرکاری طور ایسا نہیں کہا گیا۔
ایک ایسے وقت میں جب انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی وقف ترمیمی بل کی وجہ سے بھارت کے اندر شدید تنقید کی زد میں ہے اور مغربی ممالک میں بھارت کی جانب سے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں، بھارت سفارتی میدان میں شدید دباؤ میں نظر آتا ہے اور ایسے ہی دباؤ کو ہٹانے کے لیے شاید اس نے اڑی اور پلوامہ طرز کا ایک فالس فلیگ آپریشن کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں مقبوضہ کشمیر: نامعلوم افراد کا سیاحتی مقام پر حملہ، 27 افراد ہلاک
اس فالس فلیگ آپریشن کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ ماضی میں بھارت امریکی صدور کی آمد کے وقت یا کچھ دن بعد ایسے فالس فلیگ آپریشنز کرتا رہا ہے۔
20 مارچ سنہ 2000 کو جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کے دورے پر تھے تو مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں چٹھی سنگھ پورہ کے مقام پر ایسا ہی دہشتگرد حملہ کروایا گیا جس میں 35 سکھ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کے فوراً بعد پاکستان کا دورہ کیا تو اس واقعہ کی شدت نے ماحول کشیدہ کردیا۔
یکم مارچ 2006 کو امریکی صدر جارج بش بھارت کے دورے پر آئے تو ان کے دورے کے کچھ دن بعد 7 مارچ کو ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی کے مختلف مندروں میں بم حملے ہوئے جس کے لیے بھارت نے پاکستانی تنظیم لشکر طیبہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔
نومبر 2010 میں امریکی صدر باراک اوباما نے بھارت کا دورہ کیا اور اس کے بعد دسمبر 2010 میں ایک بار پھر وارانسی میں بم حملے کیے گئے جن میں 37 لوگوں کی موت ہوئی۔
اس نقطہ نظر سے ہم نے دفاعی تجزیہ نگاروں سے بات چیت کی ہے، اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے۔
بھارت مغربی سرحد سے پاکستان کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے، جنرل (ریٹائرڈ) خالد نعیم لودھیجنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب بھی بھارت میں کوئی بڑا عالمی لیڈر آئے یا کوئی عالمی سطح کا ایونٹ ہو وہ اس طرح کا فالس فلیگ آپریشن کرتے ہیں۔ پلوامہ میں بھی یہی ہوا تھا جب ان کے اپنے گورنر نے تسلیم کیا تھا کہ یہ اندرونی کارروائی ہے، وہ بھی ایک ڈرامہ تھا اور یہ بھی ایک ڈرامہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ بھارت اس سے پہلے امریکا اور کینیڈا میں اس نوعیت کی قتل کی وارداتیں کر چکا ہے اور اس کے کچھ مقاصد ہیں، سب سے پہلا مقصد یہ کہ پاکستان کی توجہ مغربی سرحد سے ہٹ جائے اور وہاں سے ٹی ٹی پی، داعش اور بی ایل اے کو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کا موقع ملے، دوسرا مقصد اس کا یہ ہے کہ امریکا کو پاکستان سے دور کر دیا جائے اور بھارت امریکا کے قریب آ جائے۔
کیا بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جنرل لودھی کا کہنا تھا کہ وہ ایسی غلطی نہیں کرےگا کیونکہ ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں پاکستان میں داخلی انتشار ختم ہو جائے گا جس میں بھارت کا بھی ہاتھ ہے، اور تمام پاکستانی متحد ہو جائیں گے۔
کیا بھارت کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر پاکستان کو بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کہنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں جنرل لودھی نے کہاکہ ابھی بھارت نے سرکاری طور پر پاکستان پر الزام عائد نہیں کیا بلکہ ان کا میڈیا اس طرح کا شور مچا رہا ہے، اگر بھارت سرکاری طور پر یہ الزام عائد کرتا ہے تو پاکستان کو بین الاقوامی تحقیقات کے لیے عالمی فورمز سے رجوع کرنے کی تجویز دینی چاہیے۔
اس طرح کے فالس فلیگ آپریشن بھارت کی پرانی عادت ہے، بریگیڈیئر (ر) آصف ہارونبریگیڈیئر(ریٹائرڈ) آصف ہارون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سنہ 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کے دورے پر آئے ہوئے تھے تو بھارت نے ایسا ہی ایک فالس فلیگ آپریشن چٹھی سنگھ پورہ میں کیا جس میں اپنے ہی لوگوں سے سکھوں کو مروایا اور الزام کشمیری مجاہدین پر ڈال دیا۔ یہ بھارت کی پرانی عادت ہے کہ جب بھی وہاں کوئی اعلیٰ سطحی دورہ ہوتا ہے وہ ایسی حرکت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ 90 کی دہائی میں انہوں نے ایک جعلی الفاران گروپ بنایا جو ایک جعلی جہادی گروپ تھا اور وہ اصل جہادی تنظیموں کے اندر گھس چکا تھا، اس وقت بھارتی خفیہ ایجنسی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر کام کررہی تھی اور ان دونوں کا تعلق بہت پرانا ہے۔
انہوں نے کہاکہ 1989 سے ’را‘ اور موساد کا تعلق ہے اور اس نے انہیں سکھایا کہ کیسے حراستی مراکز بنانے ہیں، جھوٹی خبریں کیسے پھیلانی ہیں اور کیسے لوگوں کے اندر غلط فہمیاں پیدا کرنی ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد سے بھارت کئی فالس فلیگ آپریشن کر چکا ہے۔ وہ اڑی ہو، پلوامہ یا پھر ادھم کوٹ۔ لیکن اس وقت بھارت بہت زیادہ زیرعتاب آ چکا ہے۔
’مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی پر بھارت پر بے انتہا دباؤ ہے‘انہوں نے کہاکہ امریکا اور کینیڈا سمیت مغربی ممالک نے اسے اپنی ریاستی حدود سے باہر کارروائیاں کرنے پر چارج شیٹ کردیا ہے اور بھارت نے وہیں پر پاکستان میں 15 سے 25 افراد کے قتل کی ذمے داری بھی قبول کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستانی عوام نے بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا مسترد کردیا، ’انڈین فالس فلیگ آپریشن‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ
آصف ہارون نے کہاکہ 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت نے کشمیر میں جو نسل کشی کر رکھی ہے اس کی وجہ سے بھی اس پر بے انتہا دباؤ ہے، جبکہ جعفر ایکسپریس حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے باقاعدہ ثبوت مل چکے ہیں اور پاکستان میں ’را‘ کے نیٹ ورک کو توڑا جا رہا ہے۔ دوسری طرف حکمران انتہا پسند جماعت بی جے پی اپنا ووٹ بینک کھو رہی ہے تو ان ساری وجوہات کی بنا پر یہ ڈراما رچایا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی صدور بھارت بی جے پی پاکستان پر الزامات دہشتگردی واقعات دورے فالس فلیگ آپریشن مودی سرکار وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدور بھارت بی جے پی پاکستان پر الزامات دہشتگردی واقعات فالس فلیگ ا پریشن مودی سرکار وی نیوز انہوں نے کہاکہ پاکستان پر امریکی صدر کی جانب سے وقت بھارت میں بھارت بھارت کے بھارت کی بھارت نے کے دورے ہے اور اور اس کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ طویل: پاکستان کو بدنام کرنے کی سازشیں بے نقاب
بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشنز کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے بارہا جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی۔
ایسے کئی واقعات تب پیش آئے جب بھارت کو اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانی تھی یا اہم سفارتی لمحات درپیش تھے۔
جنوری 1971 میں انڈین ایئرلائنز کا ایک طیارہ اغواء کر کے لاہور لے جایا گیا تو بھارت نے فوراً پاکستان پر الزام لگا کر اس کی مشرقی پاکستان کے لیے فضائی پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔
اسی طرح 20 مارچ 2000 کو امریکی صدر بل کلنٹن کے بھارتی دورے کے دوران مقبوضہ کشمیر میں 36 سکھوں کا قتل عام ہوا، جس پر ابتدا میں الزام پاکستان پر عائد کیا گیا، تاہم بعد میں شواہد سے ثابت ہوا کہ یہ واقعہ بھارتی فورسز کی کارستانی تھی، جس کا مقصد کلنٹن کے دورے کے دوران پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔
بعد ازاں 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، جس کا الزام بغیر کسی واضح ثبوت کے پاکستان پر لگا۔ اس واقعے کو بھی بھارت نے سرحد پر فوجی نقل و حرکت اور جنگی ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
علاوہ ازیں فروری 2007 میں سمجھوتا ایکسپریس میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 68 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا لیکن بعد میں بھارتی ہندو شدت پسند تنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ اس حملے کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل کو سبوتاژ کرنا تھا۔
ممبئی میں 2008 کے حملے فوراً پاکستان کے سر تھوپ دیے گئے، تاہم تحقیقات میں تضادات اور اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی مشکوک ہلاکت نے حملے کے اصل محرکات واضح کردیے۔
دسمبر 2015 میں مودی کے اچانک پاکستان دورے کے بعد جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ کیا گیا اور بھارت نے ایک بار پھر بغیر ٹھوس شواہد کے پاکستان پر الزام عائد کیا جبکہ تحقیقات سےیہ واقعہ سفارتی روابط کو سبوتاژ کرنے کی سازش ثابت ہوا۔
فروری 2019 میں پلواما میں خودکش دھماکے میں 40 بھارتی اہلکار مارے گئے۔ یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے اور بھارت نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بعد ازاں تحقیقات نے بھارت کے اس پروپیگنڈے کو بھی جھوٹا ثابت کیا۔
جنوری 2023 میں پاکستانی انٹیلیجنس نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ میں ایک جعلی کارروائی کا منصوبہ بے نقاب کیا، جسے بھارت یومِ جمہوریہ کے موقع پر انجام دینا چاہتا تھا تاکہ پاکستان پر جھوٹے دہشتگردی کے الزامات لگا سکے۔
یہ تمام واقعات ایک منظم اور مسلسل طرزعمل کی نشان دہی کرتے ہیں، جس میں بھارت نے اہم سفارتی مواقع پر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے جھوٹی کارروائیوں کا سہارا لیا۔
ان اقدامات سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے بلکہ خطے کے امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہوئے۔