کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
راجہ انور صاحب کی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھی، یہ کتاب راجہ انور اور کنول کی حقیقی محبت کے کمال و زوال پہ مرتب ہے۔ کتاب 2 سالہ خطوط پہ مشتمل ہے جو کہ 1972 سے 1974 تک محب اور محبوب کی روزمرہ زندگی کے احوال پر مشتمل ہے۔
کتاب کے مصنف راجہ انور صاحب پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اور وہاں کے اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں فعال کردار ہیں۔ راجہ انور مالی حوالے سے غریب مگر انتہائی ذہین، قابل، متحرک اور طلبا کے پسندیدہ شخصیت ہیں، وہ طلبا حقوق کے لیے سرگرم آواز اور باشعور رہنما ہیں، اسی پاداش میں وہ قید و بند بھی رہے۔ اس تصنیف سے پہلے وہ ‘بڑی جیل سے جھوٹی جیل تک’ کتاب لکھ چکے۔
طلبا یونین ہی کے اک پروگرام میں راجہ انور کا تعارف کنول نامی لڑکی سے ہو جاتا ہے، کنول خوبصورت اور امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، کنول اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں ہلکا پھلکا کام کرتی ہیں۔
دونوں کے آپسی تعارف دوستی میں بدل جاتی ہے اور روزمرہ کی قربت باہمی محبت میں۔ یہاں سے راجہ انور اور کنول ایک دوسرے کو خطوط لکھنا شروع کر دیتے ہیں، جس کا مجموعہ یہی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ ہیں۔
راجہ صاحب کا مطالعہ وسیع ہے، مذہب، سیاست، ریاست، معاشرت، محبت وغیرہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
راجہ انور آزاد خیال اور فکری طور پہ زرا ایڈوانس منش ہیں۔ معاشرتی اقدار و روایات وغیرہ کو فضول سمجھتے ہیں، اپنے ایک خط میں کنول کو اس حوالے سے لکھتے ہیں،
‘ہم بھی کیا لوگ ہیں، بے جان روایتوں کے قبرستان میں دفن۔تہذیب، شرم اور حجاب ایسے بانجھ الفاظ کے سحر میں گرفتار… زندہ لاشیں’
راجہ صاحب اسی سوچ کے ساتھ اپنے خطوط میں آراء کا بے ساختہ اظہار کرتے ہیں، وہ پرائیویٹ اور انتہائی ذاتی نوعیت کی باتیں آسانی سے اور نارملی کہہ دیتے ہیں، جیسے وہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ نہیں میاں بیوی ہوں یا اس سے بھی آگے اور کچھ۔
راجہ صاحب جس لڑکی سے محبت کرتے ہیں، وہ پہلے ہی اپنے کزن خرم نامی لڑکے کی منہ بولی منگیتر ہے، خرم اچھے خاصے مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور بڑی کار کوٹھی رکھتا ہے۔ خرم بھی کنول کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے اور وقتاً فوقتاً کنول سے میل ملاقات کرتا ہے۔ خرم اور کنول کے تعلق سے راجہ صاحب بخوبی واقف ہیں، البتہ خرم راجہ صاحب کو نہیں جانتے۔ ایک خط میں راجہ صاحب کنول کو اپنے رقیب یعنی خرم کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
‘لوگ خوش فہمیوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ اندازہ کرو، تم مجھ سے چھپ چھپ کر ملتی ہو مگر وہ شخص تمہیں حور سمجھتا ہے، تم اسے فرشتہ کہتی ہو حالانکہ وہ بھی حور ہی کی مانند فرشتہ ہوگا۔ میں حقیر سا انسان تم فرشتوں اور حوروں کے درمیان پس کر رہ گیا ہوں۔ تم میرے سامنے ایک اور مرد سے ملتی ہو، میں تمہیں پھر بھی دیوی کہتا ہوں، وہ نہیں جانتا تم کسی اور سے ملتی ہو، اس لیے تمہیں حور جانتا ہے۔ تم سے کون زیادہ پیار کرتا ہے؟ تم ہی فیصلہ کر لو’۔
آپ اندازہ لگائیں راجہ صاحب کتنی کمال مہارت سے کنول کو اپنی جانب متوجہ کرا رہے ہیں، کیسی جسٹیفیکیشن اور زبردست دلیل دے رہے ہیں۔
راجہ صاحب کی معاشرے پہ گہری نظر ہے، وہ انسانی نفسیات و مسائل جانتے ہیں، وہ عام لوگوں سے بہت الگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ ایک خط میں راقم ہیں کہ ‘محبت اور جنس (Sex and Love) درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں؛ جنس کے بغیر محبت کی حیثیت دیوانے کے خواب کی سی ہے اور محبت کے بغیر جنس محض خود لذتی ہے۔ ہمارے یہاں شادی کو جنس سے وابستہ کردیا گیا ہے، حالانکہ شادی تو 2 انسانوں کے درمیان محض ایک سماجی معاہدے کا نام ہے، ایک طرح کا معاشی تحفظ ہے’۔
راجہ صاحب خط میں روزمرہ حالات بتاتے ہوئے اپنی دل کی بات بھی رکھ دیتے، وہ ہر حال میں کنول کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتے؛ لکھتے ہیں، ‘جان لو، بچوں سے لے کر بڑوں تک….
راجہ صاحب اعلیٰ ظرف رکھتے ہیں، باوجود کنول کا عاشق ہونے کے، وہ اپنے محبوب کے محب، اپنے رقیب یعنی خرم کو برا بھلا نہیں کہتے، راجہ صاحب خرم سے خوف زدہ ضرور ہیں مگر ان کے خلاف سازشی کردار ادا نہیں کیا، خرم کے بارے کنول سے شکوہ کناہ ہیں، خط میں لکھتے ہیں۔
‘مجھے اس سے صرف یہ گلہ ہے کہ وہ مجھے تمہاری قربت سے محروم کر دیتا ہے۔ جب تک وہ یہاں رہتا ہے تنہائیاں سر پر بازو رکھے میرے اردگرد بین کرتی رہتی ہیں۔ ان دِنوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تم ایک ایسی ماں ہو جس نے ایک بیٹا تو دنیا کے رواج کے مطابق جنم دیا، اسے تم اٹھائے پھرتی ہو، اس کے ماتھے پر سیاہ نشان لگاتی ہو کہ وہ نظربد سے بچا رہے، لوگوں سے اسے ملواتی ہو، گھنٹوں اسے ساتھ لیے رہتی ہو۔ مگر مجھے ایک ایسا بچہ بنا دیتی ہو، جسے تم نے بن باپ کے پیدا کیا تھا۔ مجھے دنیا کے سامنے اپنا کہنے سے شرماتی ہو، اس کی موجودگی میں تم مجھے روتا دھوتا چھوڑ کر چل دیتی ہو، پھر دنیا کی نظروں سے بچ بچا کر اندھیرے میں منہ لپٹے پل دو پل کے لیے مجھے بہلانے کے لیے آجاتی ہو۔ خرم میرے وجود کو ناجائز بنا دیتا ہے’۔
دلیل دیکھیں، مثال و مزاج دیکھیں۔ لیکن یہاں راجہ صاحب کا کا عشق اور ظریف بھی دیکھیں، وہ کنول سے کہتے ہیں کہ ‘اگر تم خرم سے پوچھ کے مجھے یقین دلا دو کہ تم خرم سے شادی کے بعد بھی مجھے ملو گی تو مجھے منظور ہے، اگر وہ یہ اجازت نہیں دیتا تو مجھ سے شادی کر لو، میں تمہیں شادی کے بعد خرم سے ملنے کی اجازت دونگا’۔ راجہ صاحب کی ہمت، عظمت اور اعتبار دیکھیں۔
راجہ صاحب کنول کے حقیقی عاشق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور یہ بات فلسفیانہ انداز میں کنول کو بھی سمجھاتے ہیں، خط میں کنول سے مخاطب ہیں،تم بہت خوبصورت ہو۔ یقین کرو اگر خوبصورت نہ ہوتیں، تب بھی میں تمہیں اتنا ہی چاہتا۔ حُسن تو ایک اضافی اور بے معنی شے ہے، میری آنکھ میں ہے نہ تمہارے جسم میں، بلکہ ان دونوں کے درمیان پیدا ہونے والے رشتے کے احساس کا نام ہے۔
تم نے کہا تھا کہ مستقبل کے متعلق ابھی بات نہیں کریں گے؛ ٹھیک ہے، بات نہ کرنا اور ہے مگر سوچنا، اس سے قطعی علیحدہ شے ہے۔ اظہارِ بیان پر تو پابندی لگ سکتی ہے مگر میرے ذہین پر بھی قُفل لگا جاؤ، وہ ہر لمحہ تمہارے سوا کچھ سوچتا ہی نہیں۔ میں کیا کروں؟ تم ہی کچھ سوچو اور کوئی طریقہ بتاؤ۔
راجہ صاحب میل ملاقاتوں میں کنول سے مستقبل کے بارے اصرار کرتے ہیں، شادی کی گنجائش نکالنے پہ گفتگو کرتے ہیں، کنول بھی کسی حد تک یہی چاہتی ہے کہ راجہ صاحب سے اس کی شادی ہو لیکن کنول کے گھر بار اور فیملی اسٹیٹس راجہ صاحب کی قسمت کے آگے دیوار بنی رہتی ہے۔
دن اور مہینے تیزی سے گزرتے ہیں، دونوں مستقلاً یکجاں ہونے کا سوچتے ہیں کہ یونیوسٹی کے امتحانات سر پر آجاتے ہیں اور ان دونوں کو جدائی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ امتحان ہوتے ہی کنول کالج سے گھر چلی جاتی ہے۔ اب خط و کتابت محدود مگر محبت شدت اختیار کر جاتی ہے۔ ادھر خاندان میں کنول کی شادی کی سرگوشیاں شروع ہوتی ہیں، جبکہ گھریلو پریشانیوں اور سخت روایات کے سبب کنول راجہ صاحب کا نام لینے سے کتراتی ہے۔ اسی لیے کنول فلحال کچھ عرصہ آرام کا بہانہ کرکے شادی روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہاں تک حالات تقریباً ٹھیک رہتے ہیں، مگر ایک دن راجہ صاحب کے خط کنول کے گھر والوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ کنول کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے معاملہ رفع دفعہ کر لیتے ہیں مگر کچھ دن بعد مزید خطوط گھر والوں کے سامنے آتے ہیں، جس سے تشویش بڑھ جاتی ہے اور صورتحال نازک ہو جاتی ہے جبکہ کنول کی شادی خرم سے کرنے کی تیاری زور پکڑ لیتی ہے۔
کنول راجہ صاحب کو سارے واقعات بتاتی ہے اور ایک دن خط میں خرم سے اپنی منگنی کی خبر دے دیتی ہے۔
بس پھر کیا تھا، کنول کی منگنی کی خبر دیکھتے ہی راجہ صاحب کا تمام غیض و غضب ایک طویل خط میں جمع ہو جاتا ہے۔ راجہ صاحب شکوے شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ بلکہ کنول کو نیچا دیکھنے کی خاطر اسے اک طوائف سے بھی کمتر ثابت کرتے ہیں، الزامات اور طنعوں کی بھرمار کرتے ہیں۔ اس ایک خط میں راجہ صاحب کا تمام فلسفہ، محبت، زمانہ شناسی، ضبط اور بھرم سب آشکار ہوجاتے ہیں۔
راجہ صاحب جو تمام صورتحال سے واقف ہیں، زمانے کے روایت اور لوگوں کے مسائل جانتے ہیں، باوجود اس کے وہ کنول کو مال و دولت اور کار کوٹھی کا لالچی کہہ دیتے ہیں، حالانکہ پوری کہانی میں کہیں بھی کنول نے راجہ صاحب کو شادی کے لیے مکمل طور پہ گرین سگنل نہیں دیا، بلکہ ہر جا یہ خدشہ پیش کیا کہ گھر والوں نے اس کا رشتہ خرم سے طے کر رکھا ہے۔
راجہ صاحب نے آخری خط کے آخری جملے میں لکھا ہے کہ ‘باقی حساب ہماری نسلیں آپس میں طے کر لیں گے’۔
محبت کرنے والے لوگ اور خاص کر ناکام عاشق راجہ صاحب اور کنول کی فکری نسل سے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میں راجہ صاحب کے سیکنڈ لاسٹ خط اور ان کے طرزِ عمل سے شدید اختلاف کرونگا، یہ کیا بات ہوئی جب تک محبوب میرا تھا، میرے پاس تھا، میرے مطابق تھا تو سب کچھ ٹھیک اور جائز، اور جب محبوب مجبوری کے مارے نہ رہا تو ساری محبت نفرت میں بدل جائے، اخلاص کے دعوے غلیظ انتقامی جملے بن جائیں، وعدوں اور دعووں کو خاک الود ہو جائے، کم از کم یہ اک سچے عاشق کا ظریف تو نہ ہو سکتا۔
میں سمجھتا ہوں حقیقی محبت تو یہ ہے کہ محبوب نہ بھی ملے تب بھی اس سے محبت باقی رہے، عزت، احترام و احساس کا رشتہ باقی رہے، نیک تمنائیں اور پرخلوص ادائیں قائم رہیں۔ عاشق کا کام ہے عشق کرنا، معشوق کو اختیار حاصل ہے وہ وفا کرے کہ جفا۔ محبت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ظرف اتنا وسیع ضرور ہو کہ وصال و فراق اور ہر حال میں میں محبوب و معشوق کی مال، جان اور عزت محفوظ رہے۔
مجھے راجہ انور صاحب کے ردعمل سے اختلاف ہے۔ یہ محبت کے امتحان میں ناکامی کا ثبوت ہے۔
یہ کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھنے لائق ہے۔ بذات خود میں 2 دن کے وقفہ سے پڑھتا رہا ہوں، کیونکہ یہ کتاب ذہن پہ سحر طاری کرتی ہے، راجہ صاحب کا اسلوبِ بیان منفرد اور دلچسپ ہے، راجہ صاحب کے خطوط میں قاری کو اپنا آپ نظر آتا ہے۔ وہ روزمرہ گفتگو میں شاندار جملے کہتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی عشق کیا ہے تو یہ کتاب ضرور پڑھیے اور اپنی ماضی، حال اور مستقبل کی محبتوں کو سنہری جِلا بخشیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: راجہ صاحب کا ایک خط میں دیتے ہیں میں کنول اور کنول کرتے ہیں صاحب کے کنول سے کنول کے صاحب کی جاتی ہے کنول کی کنول کو یہ کتاب ہیں کہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
(بیتے دنوں کی یادیں)
1997کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ اُس وقت جرائم کی روک تھام ان کی ترجیحِ اوّل تھی۔ اس کے لیے انھوں نے پولیس افسروں کی لسٹیں بنانی شروع کردیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے آتے ہی جب ایس پی لاہور طارق سلیم ڈوگر کو ہٹادیا تو مجھ سے رابطہ کرکے مجھے ایس ایس پی لاہور کا چارج سنبھالنے کا کہا۔ میں نے معذرت کی مگر جب انھوں نے اور آئی جی صاحب دونوں نے زور دیا تو میں نے یہ ذمّے داری قبول کرلی۔
لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پر بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔جرائم کی روک تھام کے علاوہ بھی کئی محاذوں پر لڑنا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس گیارہ مہینے کے بعد مجھے ہٹادیا گیا۔ اس پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ مجھے لاہور پولیس کی سربراہی سے ہٹوانے کے لیے کئی فورسز اکٹھی ہوگئی تھیں۔ دو ٹولے سب سے زیادہ سرگرم تھے، پہلا اُن سیاسی لوگوں کا تھا جن کی پولیس کے انتظامی معاملات میں مداخلت بند ہوئی تھی اور جن کے کہنے پر ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگنے بند ہوگئے تھے۔
دوسرا ٹولہ کچھ بیوروکریٹوں کا تھا جو اپنی میٹنگوں میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ موجودہ ایس ایس پی (راقم) کچھ دیر مزید رہا تو یہ لاہور میں پولیس کے پرانے اور فرسودہ نظام (جس کی وجہ سے ان کی چودھراہٹ قائم تھی) کی جگہ دہلی اور ڈھاکہ والا جدید میٹرو پولیٹن پولیسنگ سسٹم لے آئے گا، جس کی وجہ سے ہمارا ڈی سی آفس irrelevant یا کمزور ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے اُن کا نظرّیۂ حیات یہی ہے کہ صدیوں پرانے فرسودہ سسٹم کو تحفّظ دیا جائے تاکہ ہماری چوہدراہٹ قائم رہے۔ کچھ بدنام قسم کے صحافی (جو اپنی مرضی کے ایس ایچ او لگوانے اور پھر ان سے ماہانہ معاوضہ وصول کرنے کے عادی تھے) بھی اُن کے ساتھ شامل تھے۔
بہرحال لاہور کی ذمّے داری سے سبکدوش ہونے کے بعد میں گاؤں آگیا اور کتابوں اور کاشتکاری میں دل لگانے لگا۔ اس دوران گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا کی وجہ سے میری صحت بہت اچھی ہوگئی بلکہ وزن کچھ بڑھ گیا۔ دو ڈھائی مہینے کے بعد ایک روز مجھے پیغام ملا کہ ’’آپ کو وزیرِاعلیٰ شہباز شریف صاحب نے کل رائیونڈ میں ملاقات کے لیے بلایا ہے‘‘۔ دوسرے روز میں ملاقات کے لیے گیا تو مجھے دیکھتے ہی شہبازشریف صاحب نے کہا ’’آپ کافی ویٹ گین کرگئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’جی لاہور کی ذمّے داری سے فارغ تھا، کوئی ٹینشن بھی نہیں تھی اور پھر گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا میّسر آئی تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا‘‘۔ ملاقات کے دوران میں نے اُن کے فیصلے پر تنقید کی کہ ’’دنیا بھر میں یہ فارمولا کہیں نہیں ہے کہ کوئی واقعہ ہونے پر قصور نہ بھی ہو تب بھی پولیس افسروں کو ہٹادیا جائے۔ ہر جگہ سنگین ترین واقعے کے بعد بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوتاہی یا قصور کس کا ہے؟ کوتاہی نہ ہونے کے باوجود پولیس چیف کے خلاف کارروائی کرنے سے فورس کے مورال پر بہت منفی اثر پڑتا ہے‘‘۔
ان کی باتوں سے اندازہ ہوگیا کہ انھیں اپنے غلط فیصلے کا احساس ہوچکا ہے کیونکہ ان کا رویّہ مدافعانہ رہا۔ کچھ دیر بعد چیف منسٹر صاحب مجھ سے پوچھنے لگے ’’اب آپ کہاں لگنا چاہیں گے؟ آپ کو فیصل آباد لگادیں‘‘؟ میں نے لاہور کے بعد پنجاب میں کوئی اور پوسٹنگ لینے سے معذرت کرلی۔ میں ان سے ملاقات کے بعد کمرے سے نکلا تو پرائم منسٹر نوازشریف صاحب نظر آگئے جو اُسی جانب آرہے تھے۔ اُن سے سلام دعا ہوئی تو کہنے لگے ’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ پنجاب نہ جائیں وہ آپ کو خراب کریں گے۔ اب آپ اسلام آباد آکر پھر اپنی ذمّے داریاں سنبھال لیں‘‘ اتفاق سے ان کے اسٹاف آفیسر رؤف چوہدری بھی ان کے ساتھ تھے، انھیں ہدایات دے دی گئیں اور ایک دو روز بعد میری ایک بار پھر پرائم منسٹر آفس میں تعیّناتی ہوگئی۔
چند روز بعد پی ایم آفس کی نئی بلڈنگ میں پہنچا تو پورچ میں ہی پرانے اسٹاف نے ریسیو کیا، میرا پرانا پی اے/ اسٹینو مجھے اپنے آفس کی طرف لے جاتے ہوئے بتارہا تھا کہ ’’سر! یہ سیف الرحمٰن صاحب کے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی سیل (جنرل مشرّف کے دور میں اسے سیل کی بجائے بیورو بنادیا گیا) کے دفاتر ہیں، اچانک میری نظر ایک تختی پر رک گئی۔
لکھا تھا ’’ فلاں ڈائریکٹر جنرل‘‘ میں نے اپنے پی اے سے پوچھا کہ اس نام کا ایک افسر تو صوبہ سرحد کا وہ بیوروکریٹ تھا جسے پرائم منسٹر نے چند ماہ پہلے کرپشن کی بناء پر معطّل کیا تھا۔ پی اے کہنے لگا ’’جی سر یہ وہی صاحب ہیں‘‘ اتنے میں سامنے سے سیف الرّحمٰن آتے ہوئے نظر آئے، میں نے ان سے ملتے ہی حیرانی اور تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ’’سیف صاحب! کل کے چور آج آپ کے ساتھی بن گئے ہیں؟ کرپشن میں معطّل ہونے والے شخص کو آپ نے ڈائریکٹر جنرل لگا لیا ہے لہٰذا اب تو خوب اکاؤنٹیبلیٹی ہوگی!!‘‘ اس پر وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکا، مگر اُس نیم پلیٹ سے بڑا واضح پیغام مل گیا کہ اب احتساب کا سلسلہ بند ہی سمجھا جائے اور اب جو ہوگا وہ کچھ اور ہی ہوگا، احتساب نہیں ہوگا۔
اس کے بعد ہر روز میرے ان خدشات کو تقویّت ملتی گئی اور میں محسوس کرنے لگا کہ دو سالوں میں نیچے سے اوپر تک سب کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اس دوران صرف ایک بار مجھے مانسہرہ میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں تین افراد کی موت کے سانحے کی تحقیقات کے لیے بھیجا گیا، مگر میرے ساتھ ایک مشکوک شخص کو بھی نتھی کردیا گیا۔ میں اپنی عادت اور تربیّت کے مطابق بازار میں چل پھر کر لوگوں سے حقائق دریافت کرتا رہا مگر وہ صاحب دفتر سے ہی باہر نہ نکلا۔ واپس آکراس صاحب نے حقائق کے برعکس خوشامدانہ سی باتیں کیں، جب کہ میں نے پرائم منسٹر کو صاف صاف بتادیا کہ ’’وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ ہزارہ کے معاملات، منجھے ہوئے، زیرک اور تجربہ کار وزیراعلیٰ سردار مہتاب عباسی کو سلجھانے دیے جائیں ، اور پارٹی کے دیگر اہم افراد کی مداخلت بند کرادی جائے‘‘۔
حالات دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ میری رپورٹ کا کوئی اثر نہیں ہوگا، جلد ہی مجھے دفتر کا ماحول اجنبی سا لگنے لگا اور میں محسوس کرنے لگا کہ میری اب وہاں کوئی ضرورت یا افادیّت نہیں رہی۔ ایک بار پرائم منسٹر صاحب سے آمنا سامنا ہوا توکہنے لگے ’’آپ ہر روز صبح آٹھ بجے مجھے ملا کریں اور میرے ساتھ ہی پرائم منسٹر آفس جایا کریں (ان دنوں وہ پرائم منسٹر آفس کی نئی اور پرشکوہ بلڈنگ میں بیٹھنے لگے تھے) تاکہ راستے میں کرائم اور لاء اینڈ آرڈر کے ایشوز discuss ہوجائیں‘‘ ایک دو بار میں ساتھ گیا مگر حکومت کی ترجیحات بدل چکی تھیں لہٰذا مجھے اب وہاں اپنی افادیّت نظر نہیں آتی تھی۔
ایک روز کوریڈور میں شاہد خاقان عباسی صاحب (جو ان دنوں پی آئی اے کے چیئرمین تھے) سے ملاقات ہوگئی، وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ’’آپ کے لیے پی آئی اے میں آنے کی پیشکش برقرار ہے‘‘ دراصل چند ماہ پہلے وہ کسی کام کے سلسلے میں میرے پاس لاہور آئے تھے اور وہاں انھوں نے کہا تھا کہ ’’پی آئی اے میں بھی ’’صفائی‘‘کے لیے آپ کی ضرورت ہے، آپ کچھ دیر کے لیے آجائیں تو بڑا اچھا ہوگا‘‘۔ میں نے اُس وقت تو یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ’’اِس وقت لاہور پولیس کو کمانڈ کررہا ہوں، امن وامان اور دہشت گردی کے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
ان حالات میں تو حکومت مجھے بالکل spare نہیں کرے گی‘‘ مگر اب میں پی آئی اے میں جانے کے لیے ذہنی طور پر تیّار تھا، میں نے فوراً حامی بھرلی۔ شام کو اُن سے ملاقات ہوئی، اور اگلے روز ان کی طرف سے پرائم منسٹر کو کو خط لکھ دیا گیا کہ آپ کے اسٹاف افسر کی خدمات پی آئی اے کے لیے درکار ہیں، کچھ عرصہ پہلے نوازشریف صاحب مجھے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے کہنے کے باوجود ریلیو کرنے کے لیے تیار نہ تھے مگر اب انھوں نے مجھے روکے بغیر فوراً ریلیو کردیا۔ (جاری ہے)