کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
راجہ انور صاحب کی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھی، یہ کتاب راجہ انور اور کنول کی حقیقی محبت کے کمال و زوال پہ مرتب ہے۔ کتاب 2 سالہ خطوط پہ مشتمل ہے جو کہ 1972 سے 1974 تک محب اور محبوب کی روزمرہ زندگی کے احوال پر مشتمل ہے۔
کتاب کے مصنف راجہ انور صاحب پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اور وہاں کے اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں فعال کردار ہیں۔ راجہ انور مالی حوالے سے غریب مگر انتہائی ذہین، قابل، متحرک اور طلبا کے پسندیدہ شخصیت ہیں، وہ طلبا حقوق کے لیے سرگرم آواز اور باشعور رہنما ہیں، اسی پاداش میں وہ قید و بند بھی رہے۔ اس تصنیف سے پہلے وہ ‘بڑی جیل سے جھوٹی جیل تک’ کتاب لکھ چکے۔
طلبا یونین ہی کے اک پروگرام میں راجہ انور کا تعارف کنول نامی لڑکی سے ہو جاتا ہے، کنول خوبصورت اور امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، کنول اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں ہلکا پھلکا کام کرتی ہیں۔
دونوں کے آپسی تعارف دوستی میں بدل جاتی ہے اور روزمرہ کی قربت باہمی محبت میں۔ یہاں سے راجہ انور اور کنول ایک دوسرے کو خطوط لکھنا شروع کر دیتے ہیں، جس کا مجموعہ یہی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ ہیں۔
راجہ صاحب کا مطالعہ وسیع ہے، مذہب، سیاست، ریاست، معاشرت، محبت وغیرہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
راجہ انور آزاد خیال اور فکری طور پہ زرا ایڈوانس منش ہیں۔ معاشرتی اقدار و روایات وغیرہ کو فضول سمجھتے ہیں، اپنے ایک خط میں کنول کو اس حوالے سے لکھتے ہیں،
‘ہم بھی کیا لوگ ہیں، بے جان روایتوں کے قبرستان میں دفن۔تہذیب، شرم اور حجاب ایسے بانجھ الفاظ کے سحر میں گرفتار… زندہ لاشیں’
راجہ صاحب اسی سوچ کے ساتھ اپنے خطوط میں آراء کا بے ساختہ اظہار کرتے ہیں، وہ پرائیویٹ اور انتہائی ذاتی نوعیت کی باتیں آسانی سے اور نارملی کہہ دیتے ہیں، جیسے وہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ نہیں میاں بیوی ہوں یا اس سے بھی آگے اور کچھ۔
راجہ صاحب جس لڑکی سے محبت کرتے ہیں، وہ پہلے ہی اپنے کزن خرم نامی لڑکے کی منہ بولی منگیتر ہے، خرم اچھے خاصے مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور بڑی کار کوٹھی رکھتا ہے۔ خرم بھی کنول کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے اور وقتاً فوقتاً کنول سے میل ملاقات کرتا ہے۔ خرم اور کنول کے تعلق سے راجہ صاحب بخوبی واقف ہیں، البتہ خرم راجہ صاحب کو نہیں جانتے۔ ایک خط میں راجہ صاحب کنول کو اپنے رقیب یعنی خرم کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
‘لوگ خوش فہمیوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ اندازہ کرو، تم مجھ سے چھپ چھپ کر ملتی ہو مگر وہ شخص تمہیں حور سمجھتا ہے، تم اسے فرشتہ کہتی ہو حالانکہ وہ بھی حور ہی کی مانند فرشتہ ہوگا۔ میں حقیر سا انسان تم فرشتوں اور حوروں کے درمیان پس کر رہ گیا ہوں۔ تم میرے سامنے ایک اور مرد سے ملتی ہو، میں تمہیں پھر بھی دیوی کہتا ہوں، وہ نہیں جانتا تم کسی اور سے ملتی ہو، اس لیے تمہیں حور جانتا ہے۔ تم سے کون زیادہ پیار کرتا ہے؟ تم ہی فیصلہ کر لو’۔
آپ اندازہ لگائیں راجہ صاحب کتنی کمال مہارت سے کنول کو اپنی جانب متوجہ کرا رہے ہیں، کیسی جسٹیفیکیشن اور زبردست دلیل دے رہے ہیں۔
راجہ صاحب کی معاشرے پہ گہری نظر ہے، وہ انسانی نفسیات و مسائل جانتے ہیں، وہ عام لوگوں سے بہت الگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ ایک خط میں راقم ہیں کہ ‘محبت اور جنس (Sex and Love) درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں؛ جنس کے بغیر محبت کی حیثیت دیوانے کے خواب کی سی ہے اور محبت کے بغیر جنس محض خود لذتی ہے۔ ہمارے یہاں شادی کو جنس سے وابستہ کردیا گیا ہے، حالانکہ شادی تو 2 انسانوں کے درمیان محض ایک سماجی معاہدے کا نام ہے، ایک طرح کا معاشی تحفظ ہے’۔
راجہ صاحب خط میں روزمرہ حالات بتاتے ہوئے اپنی دل کی بات بھی رکھ دیتے، وہ ہر حال میں کنول کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتے؛ لکھتے ہیں، ‘جان لو، بچوں سے لے کر بڑوں تک….
راجہ صاحب اعلیٰ ظرف رکھتے ہیں، باوجود کنول کا عاشق ہونے کے، وہ اپنے محبوب کے محب، اپنے رقیب یعنی خرم کو برا بھلا نہیں کہتے، راجہ صاحب خرم سے خوف زدہ ضرور ہیں مگر ان کے خلاف سازشی کردار ادا نہیں کیا، خرم کے بارے کنول سے شکوہ کناہ ہیں، خط میں لکھتے ہیں۔
‘مجھے اس سے صرف یہ گلہ ہے کہ وہ مجھے تمہاری قربت سے محروم کر دیتا ہے۔ جب تک وہ یہاں رہتا ہے تنہائیاں سر پر بازو رکھے میرے اردگرد بین کرتی رہتی ہیں۔ ان دِنوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تم ایک ایسی ماں ہو جس نے ایک بیٹا تو دنیا کے رواج کے مطابق جنم دیا، اسے تم اٹھائے پھرتی ہو، اس کے ماتھے پر سیاہ نشان لگاتی ہو کہ وہ نظربد سے بچا رہے، لوگوں سے اسے ملواتی ہو، گھنٹوں اسے ساتھ لیے رہتی ہو۔ مگر مجھے ایک ایسا بچہ بنا دیتی ہو، جسے تم نے بن باپ کے پیدا کیا تھا۔ مجھے دنیا کے سامنے اپنا کہنے سے شرماتی ہو، اس کی موجودگی میں تم مجھے روتا دھوتا چھوڑ کر چل دیتی ہو، پھر دنیا کی نظروں سے بچ بچا کر اندھیرے میں منہ لپٹے پل دو پل کے لیے مجھے بہلانے کے لیے آجاتی ہو۔ خرم میرے وجود کو ناجائز بنا دیتا ہے’۔
دلیل دیکھیں، مثال و مزاج دیکھیں۔ لیکن یہاں راجہ صاحب کا کا عشق اور ظریف بھی دیکھیں، وہ کنول سے کہتے ہیں کہ ‘اگر تم خرم سے پوچھ کے مجھے یقین دلا دو کہ تم خرم سے شادی کے بعد بھی مجھے ملو گی تو مجھے منظور ہے، اگر وہ یہ اجازت نہیں دیتا تو مجھ سے شادی کر لو، میں تمہیں شادی کے بعد خرم سے ملنے کی اجازت دونگا’۔ راجہ صاحب کی ہمت، عظمت اور اعتبار دیکھیں۔
راجہ صاحب کنول کے حقیقی عاشق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور یہ بات فلسفیانہ انداز میں کنول کو بھی سمجھاتے ہیں، خط میں کنول سے مخاطب ہیں،تم بہت خوبصورت ہو۔ یقین کرو اگر خوبصورت نہ ہوتیں، تب بھی میں تمہیں اتنا ہی چاہتا۔ حُسن تو ایک اضافی اور بے معنی شے ہے، میری آنکھ میں ہے نہ تمہارے جسم میں، بلکہ ان دونوں کے درمیان پیدا ہونے والے رشتے کے احساس کا نام ہے۔
تم نے کہا تھا کہ مستقبل کے متعلق ابھی بات نہیں کریں گے؛ ٹھیک ہے، بات نہ کرنا اور ہے مگر سوچنا، اس سے قطعی علیحدہ شے ہے۔ اظہارِ بیان پر تو پابندی لگ سکتی ہے مگر میرے ذہین پر بھی قُفل لگا جاؤ، وہ ہر لمحہ تمہارے سوا کچھ سوچتا ہی نہیں۔ میں کیا کروں؟ تم ہی کچھ سوچو اور کوئی طریقہ بتاؤ۔
راجہ صاحب میل ملاقاتوں میں کنول سے مستقبل کے بارے اصرار کرتے ہیں، شادی کی گنجائش نکالنے پہ گفتگو کرتے ہیں، کنول بھی کسی حد تک یہی چاہتی ہے کہ راجہ صاحب سے اس کی شادی ہو لیکن کنول کے گھر بار اور فیملی اسٹیٹس راجہ صاحب کی قسمت کے آگے دیوار بنی رہتی ہے۔
دن اور مہینے تیزی سے گزرتے ہیں، دونوں مستقلاً یکجاں ہونے کا سوچتے ہیں کہ یونیوسٹی کے امتحانات سر پر آجاتے ہیں اور ان دونوں کو جدائی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ امتحان ہوتے ہی کنول کالج سے گھر چلی جاتی ہے۔ اب خط و کتابت محدود مگر محبت شدت اختیار کر جاتی ہے۔ ادھر خاندان میں کنول کی شادی کی سرگوشیاں شروع ہوتی ہیں، جبکہ گھریلو پریشانیوں اور سخت روایات کے سبب کنول راجہ صاحب کا نام لینے سے کتراتی ہے۔ اسی لیے کنول فلحال کچھ عرصہ آرام کا بہانہ کرکے شادی روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہاں تک حالات تقریباً ٹھیک رہتے ہیں، مگر ایک دن راجہ صاحب کے خط کنول کے گھر والوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ کنول کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے معاملہ رفع دفعہ کر لیتے ہیں مگر کچھ دن بعد مزید خطوط گھر والوں کے سامنے آتے ہیں، جس سے تشویش بڑھ جاتی ہے اور صورتحال نازک ہو جاتی ہے جبکہ کنول کی شادی خرم سے کرنے کی تیاری زور پکڑ لیتی ہے۔
کنول راجہ صاحب کو سارے واقعات بتاتی ہے اور ایک دن خط میں خرم سے اپنی منگنی کی خبر دے دیتی ہے۔
بس پھر کیا تھا، کنول کی منگنی کی خبر دیکھتے ہی راجہ صاحب کا تمام غیض و غضب ایک طویل خط میں جمع ہو جاتا ہے۔ راجہ صاحب شکوے شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ بلکہ کنول کو نیچا دیکھنے کی خاطر اسے اک طوائف سے بھی کمتر ثابت کرتے ہیں، الزامات اور طنعوں کی بھرمار کرتے ہیں۔ اس ایک خط میں راجہ صاحب کا تمام فلسفہ، محبت، زمانہ شناسی، ضبط اور بھرم سب آشکار ہوجاتے ہیں۔
راجہ صاحب جو تمام صورتحال سے واقف ہیں، زمانے کے روایت اور لوگوں کے مسائل جانتے ہیں، باوجود اس کے وہ کنول کو مال و دولت اور کار کوٹھی کا لالچی کہہ دیتے ہیں، حالانکہ پوری کہانی میں کہیں بھی کنول نے راجہ صاحب کو شادی کے لیے مکمل طور پہ گرین سگنل نہیں دیا، بلکہ ہر جا یہ خدشہ پیش کیا کہ گھر والوں نے اس کا رشتہ خرم سے طے کر رکھا ہے۔
راجہ صاحب نے آخری خط کے آخری جملے میں لکھا ہے کہ ‘باقی حساب ہماری نسلیں آپس میں طے کر لیں گے’۔
محبت کرنے والے لوگ اور خاص کر ناکام عاشق راجہ صاحب اور کنول کی فکری نسل سے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میں راجہ صاحب کے سیکنڈ لاسٹ خط اور ان کے طرزِ عمل سے شدید اختلاف کرونگا، یہ کیا بات ہوئی جب تک محبوب میرا تھا، میرے پاس تھا، میرے مطابق تھا تو سب کچھ ٹھیک اور جائز، اور جب محبوب مجبوری کے مارے نہ رہا تو ساری محبت نفرت میں بدل جائے، اخلاص کے دعوے غلیظ انتقامی جملے بن جائیں، وعدوں اور دعووں کو خاک الود ہو جائے، کم از کم یہ اک سچے عاشق کا ظریف تو نہ ہو سکتا۔
میں سمجھتا ہوں حقیقی محبت تو یہ ہے کہ محبوب نہ بھی ملے تب بھی اس سے محبت باقی رہے، عزت، احترام و احساس کا رشتہ باقی رہے، نیک تمنائیں اور پرخلوص ادائیں قائم رہیں۔ عاشق کا کام ہے عشق کرنا، معشوق کو اختیار حاصل ہے وہ وفا کرے کہ جفا۔ محبت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ظرف اتنا وسیع ضرور ہو کہ وصال و فراق اور ہر حال میں میں محبوب و معشوق کی مال، جان اور عزت محفوظ رہے۔
مجھے راجہ انور صاحب کے ردعمل سے اختلاف ہے۔ یہ محبت کے امتحان میں ناکامی کا ثبوت ہے۔
یہ کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھنے لائق ہے۔ بذات خود میں 2 دن کے وقفہ سے پڑھتا رہا ہوں، کیونکہ یہ کتاب ذہن پہ سحر طاری کرتی ہے، راجہ صاحب کا اسلوبِ بیان منفرد اور دلچسپ ہے، راجہ صاحب کے خطوط میں قاری کو اپنا آپ نظر آتا ہے۔ وہ روزمرہ گفتگو میں شاندار جملے کہتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی عشق کیا ہے تو یہ کتاب ضرور پڑھیے اور اپنی ماضی، حال اور مستقبل کی محبتوں کو سنہری جِلا بخشیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: راجہ صاحب کا ایک خط میں دیتے ہیں میں کنول اور کنول کرتے ہیں صاحب کے کنول سے کنول کے صاحب کی جاتی ہے کنول کی کنول کو یہ کتاب ہیں کہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ایک باکمال نثر نگار، حیات عبد اللہ
حیات عبد اللہ بنیادی طور پر کالم نگارکی حیثیت سے جانے پہچانے اور مانے جاتے ہیں، وہ اپنی نثرکی طرح شاعر بھی بہت عمدہ ہیں۔ ہر شاعرکی طرح ان کے نزدیک بھی جمال پرستی خدائی صفت ہے اور حیات عبداللہ کے نزدیک حُسن شاعری میں ہو یا رقص و موسیقی میں، بند کھڑکیوں میں ہو یا کھلے دریچوں میں، گلاب میں ہو یا شبِ ماہتاب میں، تصورکے رنگوں میں ہو یا لکیروں میں، ستاروں میں ہو یا سیاروں میں، آواز میں ہو یا رنگین آنچلوں کی سرسراہٹ میں، حیات عبداللہ کے دل کے دریچے پر بہرحال دستک دیتا ہے۔ بقول ناصر زیدی کہ:
یہ روشنی کا سمندر کہاں سے آیا ہے
بکھر رہے ہیں کئی آفتاب آنکھوں میں
آفتاب کی کرنیں اپنی مٹھی میں سمیٹنے والا، رتجگوں میں ستاروں سے ہم کلام ہونے والا، تازہ گلوں کی مہک سے مہکنے والا، رقص کرتی تتلی کے رنگین پروں کو دیکھنے والا، خزاں میں اُمیدِ بہار رکھنے والا، ہتھیلی پر بجھتے چراغوں کو جلانے والا شخص کیسے اندھیروں کا تعاقب کرسکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب ہمیں حیات عبد اللہ کے کالموں کا مجموعہ ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ کی صورت میں ملتا ہے۔
جو اخبار میں شایع ہونے والے منتخب کالموں پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے ٹائٹل سے معلوم ہوتا ہے کہ اندھیری رات کے سناٹوں میں پڑا دیا کیسے اپنی سمت ایک ایسے شخص کو کھینچ رہا ہے جو نہ صرف آندھیوں کا بلکہ اندھیروں کا تعاقب بھی کر سکتا ہے۔اعزاز احمد آذر کا ایک شعر یاد آیا:
تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا
حیات عبداللہ ایک نڈر آدمی ہے انھوں نے ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ بڑی جاں فشانی سے کیا ہے، جس کی گواہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان دیتے ہیںکہ ’’ حیات عبد اللہ کے کالمز تحریری جہاد اور قلمی تبلیغ ہیں، وہ بڑے نپے تلے اور جچے لفظوں میں منادی کرتے ہیں، ان کے کالم مکمل معاشرتی تصویر ہے جو کہیں سے کٹی پھٹی،کہیں سے لہولہان، کہیں سے منہ چڑاتی ہوئی اور کہیں رُلاتی ہوئی۔‘‘
حیات عبد اللہ کی اس کتاب ’’ اندھیروں کا تعاقب‘‘ میں بہت سی یادوں کے جگنو ٹمٹما رہے ہیں اورکہیں پر اندھیرے میں گم ہوئے راہی کو منزل کا درست رستہ دکھا رہے ہیں۔ ان کی اس قلمی کاوش کو عبدالستار عاصم ’’جہاد ِ اکبر‘‘ کا نام دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ حیات عبداللہ کے خیالات، مشاہدات، افکار کا مجموعہ ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ قلم فاؤنڈیشن ایک قومی فریضہ سمجھ کر شایع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
ان کے افکار کی روشنی کے مینار ہیں۔ انھوں نے دو عشروں سے کوشش کی ہے کہ اپنے حصے کی شمع قلم کے روشن دان میں سجا کر اس کی روشنی قوم کو پہنچائیں اور ان کا ہر کالم معلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ ان کا ہر کالم ایک کتاب جیسا سبق آموز ہوتا ہے۔‘‘’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ کے بعد ان کی نئی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوا۔ جس میں کشمیر، فلسطین، برما اور شام پر لکھے گئے کالموں کو شامل کیا گیا ہے۔
جس کا انتساب انھوں نے گلشنِ حیات کے نوخیز پھول ارحم عبد اللہ کے نام منسوب کیا ہے۔ حیات عبد اللہ ’’سلام کشمیر‘‘ جہاں مقبوضہ کشمیرکی آزادی کے لیے اپنی جانوں کو قربان کرنے والے تمام شہداء کی عظمتوں اور رفعتوں کو سلام پیش کر رہے ہیں، وہیں فلسطین، برما اور شام کے مسلمان شہداء کو بھی سلام پیش کر رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی کشمیر ،برما، فلسطین اور شام کے موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ میرے خیال میں اتنی ساری کتابوں کو دیگر موضوعات پر الگ الگ پڑھنے سے بہتر ہوگا کہ حیات عبد اللہ کی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کا ایک ہی بار مطالعہ کر لیا جائے تو آپ کو کشمیر سے فلسطین اور برما سے شام کے مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم کی داستان پڑھنے کو مل جائے گی۔
’’سلام کشمیر‘‘ کے حوالے سے اپنی رائے میں حافظ محمد سعید لکھتے ہیں کہ ’’حیات عبد اللہ جیسے دردِ دل رکھنے والے اہلِ قلم جس طرح معاشرتی مسائل، اُمتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے قلم اُٹھا رہے ہیں وہ یقینا لائقِ تحسین ہے۔‘‘ اس کے علاوہ کتاب میں الطاف حسن قریشی اور اوریا مقبول جان کی قیمتی آراء کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
حیات عبداللہ صرف صداقت پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انھیں جھوٹ سے سخت نفرت ہیں ، وہ بہت سنجیدہ مزاج اور کم گو انسان ہے۔ ’’ سلام کشمیر‘‘ کے حرفِ آغاز میں بقول ان کہ ’’ ستر سال سے زائد عرصے پر محیط تلخیوں کے آزار سہنے کے باوجود کشمیریوں نے اپنے جذبات اور خیالات میں کوئی مصلحت پیدا نہ ہونے دی۔ اہلِ کشمیرکے دلوں میں پاکستان کی محبت، آنگن میں اتری مانوس خوشبوؤں کی طرح جا گزیں ہے، وہ بندوقوں کے سامنے بھی بہ بانگِ دہل پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہارکرتے ہیں،
اس کے ساتھ ساتھ فلسطین، برما اور شام کے دُکھوں پر مشتمل چند اوراق بھی کتاب کا حصہ ہیں۔‘‘بابائے قوم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے‘‘ مگر ہم اپنے اپنے مفادات کی خاطر کتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنی شہ رگ کٹ جانے کا بھی ڈر نہیں۔ کئی حکمران آتے اور جاتے رہے مگر مسئلہ کشمیر وہیں کا وہیں رہا۔
میرے خیال میں ہمیں اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیے اور حیات عبداللہ کی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کو پڑھ کر قائد کے فرمان کی طرف توجہ مرکوز کر لینی چاہیے اور اپنے اندر اس بات کا احساس پیدا کرلیں کہ جن مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں انھیں ناحق کیوں مارا جا رہا ہے؟ کیا وہ ہماری طرح انسان نہیں بقول سید انوار احمد کے اس شعرکہ :
کیوں مل رہی ہے ان کو سزا، چیختی رہی
سنسان وادیوں میں ہَوا چیختی رہی