بلدیاتی ادارے اور پارلیمنٹ
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری قرار دیے جاتے ہیں مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ جمہوریت کی یہ نرسری ہمیشہ پاکستان میںغیر سول حکومتوں میں پروان چڑھی اور آمر کہلانے والے حکمرانوں نے ملک کو منتخب بلدیاتی نمایندے دیے اور جمہوری کہلانے والے سیاسی حکمرانوں نے آمروں کے دیے گئے بلدیاتی ادارے پروان چڑھانے کی بجائے انھیں ختم کیا اور اگر برقرار رکھا تو ان کا وجود نہ ہونے کے برابر اور اختیارات برائے نام تھے۔
غیر سول حکومتوں میں منتخب بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کیگئی مگر سیاسی حکومتوں نے سب سے پہلا وار منتخب بلدیاتی اداروں پر کیا اور انھیں توڑ کر ان کے منتخب عہدیداروں کو برطرف کر کے سرکاری افسروں کو بطور ایڈمنسٹریٹر ان پر مسلط کیا۔
قیام پاکستان کے بعد سیاسی حکومت میں 1956 میں ملک کے لیے ایک آئین ملا تھا مگر گورنر جنرلوں کے بعد غلام محمد اور اسکندر مرزا جو بیورو کریٹ اور مکمل اختیارات کے حامل تھے، انھوں نے سیاسی حکومتوں کو ہی چلنے نہیں دیا تو وہ ملک میں بلدیاتی اداروں کو کیوں فروغ دیتے حالانکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ جمہوری ہمیشہ عوام کے منتخب ادارے ہوتے ہیں جن سے عوام کا سب سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اسمبلیوں کی طرح عوام کے ذریعے ہی بلدیاتی اداروں کے پہلے کونسلر منتخب ہوتے ہیں جو بعد میں اپنے اداروں کا اسی طرح انتخاب کرتے ہیں جس طرح ارکان قومی اسمبلی وزیر اعظم کا اور ارکان صوبائی اسمبلی وزرائے اعلیٰ کا کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے ملک میں سب سے پہلے بی ڈی نظام دیا تھا جس کے تحت بی ڈی ممبر منتخب کیے جاتے تھے جو اپنی یوسی کی سربراہی کے لیے یوسی چیئرمین منتخب کرتے تھے جو اپنے شہر کی بلدیہ کے لیے وائس چیئرمین منتخب کرتے تھے جب کہ سرکاری طور پر چیئرمین کا تقررکیا جاتا تھا اور بلدیہ کونسل میں منتخب کونسلروں کے منتخب چیئرمین ممبر ہوتے تھے۔
ان کونسلوں میں چیئرمینوں کے اختیارات زیادہ ہوتے تھے اور ان بلدیاتی کونسلوں کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے جن میں شہر کے مسائل کے حل اور تعمیری و ترقیاتی کاموں کی منظوری دی جاتی تھی۔ صدر جنرل ایوب خان نے ملک کے 80 ہزار یوسی چیئرمینوں کے ذریعے خود کو صدر منتخب کرایا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح نے ان کا مقابلہ کیا تھا مگر برسر اقتدار صدر جنرل ایوب نے سرکاری وسائل کے ذریعے دھاندلی کرا کر محترمہ کو شکست دلائی تھی۔ ایوب خان ملک کے پہلے آمر تھے جنھوں نے ملک میں جمہوریت قائم نہیں ہونے دی تھی جن کے پوتے عمر ایوب موجودہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور قومی اسمبلی میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو 1958 میں سیاسی جمہوری حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لا لگانے والے ان کے دادا کے حوالے سے ان پر کڑی تنقید ہوتی ہے۔
جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھالا تھا جن کے اقتدار میں ملک دولخت ہوا تھا۔ 1970 کے الیکشن کے نتیجے میں باقی پاکستان کے بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے تھے جنھوں نے ملک کو 1973 کا جو متفقہ آئین دیا تھا۔ اس میں عوام کے منتخب بلدیاتی اداروں کا قیام بھی ہونا تھا مگر بھٹو دور میں ملک میں کوئی بلدیاتی الیکشن نہیں ہوا تھا۔ 1977 میں ملک میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگانے کے بعد 1979 میں ملک کو نیا بلدیاتی نظام دیا تھا جس کے تحت ہر چار سال بعد باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات ہوئے جن میں کونسلر ٹاؤن، شہر، ضلع کونسلوں کے لیے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کا انتخاب کرتے تھے جو ہر ماہ اپنے بلدیاتی اداروں کے اجلاس منعقد کرتے جن میں اہم فیصلے ہوتے جن سے بلدیاتی مسائل حل ہوتے تھے اور بلدیاتی اداروں کے سربراہوں تک سے لوگ مل کر اپنے علاقوں کے بنیادی مسائل حل کراتے تھے مگر جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں کمشنروں، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کو ان بلدیاتی اداروں پر کنٹرولنگ اتھارٹی کے اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے اور منظور شدہ بجٹ کی منظوری ان کے ذریعے اور توثیق محکمہ بلدیات کرتا تھا اور جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام بااختیار نہیں تھا۔
جنرل پرویز مشرف مسلم لیگ اور پی پی کے مخالف تھے انھوں نے نواز شریف کو ہٹا کر خود اقتدار سنبھالا تھا اور انھوں نے قومی تعمیر نو بیورو بنایا تھا جس کے تحت انھوں نے 2001 میں ملک کو ایک مکمل بااختیار نظام ضلعی حکومتوں کی شکل میں دیا تھا جس سے ملک بھر میں ضلعی حکومتیں قائم ہوئیں جن کے منتخب ناظمین کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات دیے گئے تھے اور ملک سے کمشنری نظام ختم کر دیا گیا تھا اور ہر صوبے میں محکمہ بلدیات برائے نام رہ گیا تھا جس کی جنرل ضیا کے دور میں بلدیاتی اداروں پر مکمل گرفت ہوتی تھی۔
ضلعی حکومتوں میں صوبائی سیکریٹریوں، کمشنر و ڈپٹی کمشنروں کو بطور ڈی سی اور ہر ضلعی ناظم کا ماتحت کر دیا تھا اور بلدیاتی اداروں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مداخلت ختم ہوئی جن کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ضلعی حکومتوں کو ملے اور ضلعی حکومتوں نے بہترین کارکردگی دکھائی جس کی واضح مثال کراچی کی سٹی حکومت تھی جس کے سٹی ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے کراچی کی کایا پلٹ دی تھی اور دیگر اضلاع میں بھی ضلعی حکومتوں نے بہترین ترقیاتی کام کرائے جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہوئی اور ناظمین کی اتنی اہمیت بڑھی تھی کہ متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیاں چھوڑ کر ناظمین کا الیکشن لڑا تھا اور بیورو کریسی بھی ضلعی نظام کے خلاف تھی اور دونوں نے مل کر ضلعی حکومتی نظام ختم کرایا تھا۔
2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کی حکومتیں تھیں اور 2005 میں وزرائے اعلیٰ نے ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کی خوشنودی کے لیے ضلعی حکومتوں کے اختیارات کم کرانے پر جنرل پرویز کو راضی کیا تھا تاکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی اہمیت بڑھے کیونکہ ضلعی حکومتوں کی وجہ سے پارلیمنٹ اور اسمبلیاں قانون سازی تک محدود ہو گئی تھیں جو ان کا اصل کام تھا مگر اسمبلی ارکان و ارکان پارلیمنٹ بلدیاتی اداروں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے محروم ہو گئے تھے جو ان کی کمائی، اثر و رسوخ اور کرپشن کا ذریعہ تھا۔ 2008 میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے 2009 میں بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے جنرل ضیا کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کر دیا تھا جو مزید بے اختیار ہو کر محکمہ بلدیات کے تحت محکوم ہو کر رہ گیا ہے اور پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان بلدیاتی اداروں پر حاوی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بلدیاتی اداروں پر منتخب بلدیاتی بلدیاتی نظام ضلعی حکومتوں حکومتوں نے جنرل ایوب کرتے تھے کے منتخب انھوں نے جنرل ضیا کے ذریعے میں ملک تھے اور تھا اور دیا تھا ملک میں تھا مگر نے ملک تھا جس کے تحت کے لیے ملک کو کے بعد تھے جو
پڑھیں:
پی ٹی آئی رہنما کا موجودہ حالات پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور موجودہ صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلا س بلانے کا مطالبہ کر دیا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں رہنما پی ٹی آئی علی محمد خان نے کہا ہے کہ حکومت کو بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لانا ہو گا، حکومت بانی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیج کرے میں خود بانی پی ٹی آئی سے بات کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ حکومت والے فوری طور پر سعودی عرب سمیت دوست ممالک جائے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فوری بلانا چاہیے، مطالبہ کرتا ہوں کہ حکومت کو آج رات یا کل ہی مشترکہ اجلاس بلا لینا چاہیے تھا، میں سمجھتا ہوں کہ سب کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے، میں حکومت کو کہوں گا کہ اجلاس بلائیں اور بانی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیج کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب پاکستان پر بات آ جائے تو ہمیں متفقہ طور پر جواب دینا چاہیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قومی یکجہتی چاہیے تو حکومت اپنی ذات سے نکلے۔ حکومت کو بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لانا ہوگا ، ایک تصویر آجائے جس میں بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر ایک ساتھ نظر آ جائیں، اگر یہ ایک تصویر آ جائے اور بھارت دیکھ لے تو بھارت کی جرات نہیں ہوگی، حکومت انگیج کرے تو میں جا کر بانی پی ٹی آئی سے بات کرتا ہوں ۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو قومی یکجہتی چاہیے تو سب کو انگیج کرے، یہ وقت کھل کر مضبوط فیصلے کرنے کا ہے ،بھارتی جارحیت کیخلاف ہم سب ایک ہیں، اکیلے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے ، ملک کو تقسیم کر کے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ہمیں پاکستانی بن کر جواب دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا لیڈر اس وقت جیل میں ہے ۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے لیڈر نے کہا تھا کہ ہم جواب دینے کا سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے،پاکستان کے دفاع کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم انتظار میں ہے کہ نواز شریف کا اس پر کیا جواب آتا ہے انہیں اس وقت خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے اور کھل کر بات کرنی چاہیے۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، ہم بھائی ہیں بھائی آپس میں لڑتے بھی ہیں ،لیکن جب ماں پر بات آ جائے تو بھائی بھائی کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔
علی محمد خان نے کہا کہ حکومت والے دوست ممالک جائیں اُن کو موجودہ صورت حال پر انگیج کریں، سعودی عرب ، چین جائیں اور روس بھی جانا پڑے تو جائیں۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ تنقید کا وقت نہیں ہے ، ہم مشورہ دینے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے تو کیا کرتے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو کیا ہے وہ اچھا قدم ہے لیکن یہ ردعمل ہے ، ہمیں پیشگی اقدامات کرنے چاہیں تھے، ہمیں دشمن کیخلاف تیار رہنا چاہیے تھا۔
علی محمد خان نے مزید کہا کہ بھارت نے ہمارے ملک میں کئی دہشت گردی کے واقعات کیے، افغان طالبان نے کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا،افغان طالبان نہیں بلکہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملے کیے۔