لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
یہودی ایک انتہا پسند، شرپسند، تخریب کار اور دہشت گرد قوم ہے، جن کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے روز آخر تک رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہودیت کی سرشت میں نہیں۔ قرآن کریم کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہودیوں نے اپنی قوم اور نسل سے آنے والے انبیائے کرامؑ کو بھی سکون سے جینے نہیں دیا، ان کی نافرمانیاں کیں، مذاق اڑایا حتیٰ کہ بہت سے انبیاء کو شہید کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودیت بربریت کا دوسرا نام ہے اور یہودی بربریت کے قصے تاریخ کے ابواب میں محفوظ ہیں، مگر آج یہودیوں کی بربریت کے ساتھ ان کے سہولت کار امت کے غداروں کے پوسٹ مارٹم کا ارادہ ہے۔
یہود، نصریٰ کی آشیرباد سے ارض مقدس پر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ہر حد پار کرچکے ہیں، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کے باوجود پاگل یہودی بربریت سے باز نہیں آئے۔ عید کے دن بھی مظلوم فلسطینیوں کو خون میں نہلایا گیا۔ مساجد محفوظ ہیں نہ گھر۔ گھر ملبے کے ڈھیر اور مساجد شہید ہوچکی ہیں۔
اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ حتیٰ کہ قبرستان بھی یہودی بربریت سے محفوظ نہیں رہے۔ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا گریٹر اسرائیل کے قیام کے خاکے میں رنگ بھرنے کی ابتداء ہے۔ یہودیت کے اس ناپاک و غلیظ منصوبے کی راہ میں صرف حماس کے مجاہدین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر پوری ایمانی غیرت کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ گریٹر اسرائیل منصوبہ تو پورے مڈل ایسٹ کے نقشے کے ساتھ دنیا کے نظام کو بھی تہس نہس کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عرب ریاستیں گریٹر اسرائیل کی اس ناپاک دلدل میں غرق ہو جائیں گی، لیکن صرف اہل فلسطین ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اب تک 55 ہزارسے زائد فلسطینی یہودی بربریت کی بھینٹ چڑھ کر اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر مسلم امہ کی بے حسی کا نوحہ سنا رہے ہیں۔
آج کے لبرلز برملا اور مسلمان حکمران اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگوں سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں اور بظاہر ان کی سوچ صحیح بھی لگتی ہے لیکن اگر زمینی حقائق پر غور کریں تو گزشتہ دو صدیوں سے امریکا مسلسل جنگوں میں مصروف ہے اور ان کے ناجائز بغل بچہ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل حالت جنگ میں ہے مگر وہ تو تباہ نہیں مضبوط ہو رہے ہیں جب کہ جنگ سے بھاگنے والے عرب ممالک دن بدن کمزور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ صدی میں سب سے طویل اور خوفناک جنگیں جاپان جرمنی اور کوریا نے لڑیں لیکن پھر بھی یہی ممالک ترقی میں سب سے آگے نکل گئے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو مسلمان کئی صدیوں تک مسلسل جہاد (جنگوں) میں مصروف رہے اور اس دوران تمام عالمی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں اور مسلمان سب سے ترقی یافتہ اور طاقتور رہے۔
اے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کیا ہوگیا آپ لوگوں کو؟ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم تو قرآن پاک میں سیکڑوں دفعہ آیا ہے، جہاد ہمارے ایمان کا حصہ اور حکم ربانی ہے، مگر جب سے مسلمانوں کو جنگوں سے ڈرنا اور بزدلی کا سبق پڑھایا گیا ہے مسلمان غربت کا شکار اور ترقی میں پیچھے رہ کر ذلیل وخوار ہوگئے ہیں۔
ماضی میں جب بربریت کے علمبرداروں نے الاقصیٰ پر قبضہ کیا تو شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ جیسے عالم دین مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کرکے خلیفہ وقت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے نکلے اور خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے دوران کھڑے ہو کر خلیفہ وقت کے سامنے بہتی آنکھوں اور درد سے کی گئی تقریر نے خلیفہ وقت کے دل کی دنیا بدل ڈالی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح ہوئی۔
آج عرب و عجم کے ہزاروں علماء شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ بن کر مسلمان حکمرانوں کو پکار رہے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مفتی اعظم پاکستان شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتویٰ دیا۔ مگر افسوس کہ اس فتوے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی کردار کُشی اور بہتان تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں یہودی ہیں نہ ہم فلسطین کے پڑوسی ہیں اس کے باوجود ہمارے ملک میں اسرائیل کے جتنے ہمدرد اور سہولت کار سامنے آئے، الامان الحفیظ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاد کے لفظ سے کفار سے زیادہ منافقین کو تکلیف ہوئی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کے مسلمان تو بحیثیت قوم دستوری اور آئینی طور پر اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ پاکستانیت کی نشانی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں غزہ میں اسرائیلی بربریت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف احتجاج تو دور کی بات کوئی اپنے کارکنوں کو جاندار مذمتی بیانیہ بھی نہیں دے سکے نتیجتاً اسرائیل کے لیے ان جماعتوں میں موجود لبرلز کے دلوں میں پہلے سے موجود نرم گوشہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے دلائل میں بدل رہا ہے۔
اسپیکر ایاز صادق نے غزہ پر بمباری روکنے کے لیے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کو قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی تو اصولًا، عقلاً اور شرعاً یہ متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے تھی لیکن سابق اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے اس قرارداد کو بلڈوز کرنے کی حرکت نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، انھوں کہا کہ "اگر اس ایوان میں عمران خان کے حق میں قرار داد پیش نہیں ہوگی تو فلسطینیوں کے حق میں بھی قرار داد پیش نہیں ہوگی۔" پاکستانیوں یہ ہے پی ٹی آئی کا وہ چہرہ جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کو خبردار اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ و حکیم سعیدؒ نے پیش گوئیاں کی تھیں۔
اسرائیل کے غزہ میں مظالم نے امت مسلمہ میں واضح لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف فلسطین کے حامی اور دوسری طرف یہود پرست ہوں گے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ "پاکستان تو فلسطین سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے ہم کیسے اسرائیلی بربریت کے لیے ان کا ساتھ دے سکتے ہیں؟" انھیں کون سمجھائے کہ فلسطین ہزاروں کلومیٹر دور مگر مسجد الاقصیٰ تو ہمارے دل کی دھڑکنوں اور خون کے رگوں میں ہے تو پھر مسجد الاقصیٰ کے سربکف محافظوں کو کون ہمارے دلوں سے دور کرسکتا ہے؟ قصہ مختصر علماء کرام نے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب امت حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، ہم بھی ان حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے پی ایس ایل میں فلسطین کا پرچم لہرانے کی اجازت نہیں، ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے اسرائیل مخالف ریلیوں پر لاٹھی چارج اور شرکاء کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان حکمرانوں کی طرف جن کا امریکن جیوش کانگریس نے اسرائیل سے متعلق ایک قرار داد میں اہم تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا اور اسرائیل کے خلاف او آئی سی کے موقف کو نرم بنانے پر شکریہ ادا کیا، ان رویوں کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہوگا کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کے پنجوں سے معصوم فلسطینیوں کو بچائیں گے مگر ہم مایوس نہیں، انشاء اللہ احادیث مبارکہ میں دی گئی بشارت نبوی کے مطابق وہ وقت ضرور آئے گا جب بیت المقدس آزاد ہو جائے گا۔ اس وقت امت کے غدار یہود پرست گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان حکمرانوں کی طرف یہودی بربریت اسرائیل کے بربریت کے کے ساتھ رہے ہیں ہیں کہ
پڑھیں:
لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔
اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔
اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔