بندونگ کانفرنس اعلامیہ کا جذبہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
پاکستان اور بنگلہ دیش میں 15سال بعد تعلقات کی بحالی ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ عوامی لیگ کی سربراہ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کی بناء پر 1947 سے 1971 تک ایک ساتھ رہنے والے برصغیر کے دو حصوں کے درمیان تعلقات معطل ہوئے تھے مگر سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ اور قاسم الدین کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی سطح پر تعلقات بحالی کے ممکنہ اقدامات پر غور کیا گیا اور دونوں وفود نے مختلف تجاویزکا تبادلہ بھی کیا۔
ان مذاکرات سے پہلے کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان بحری و تجارتی جہازوں کی آمدورفت بھی شروع ہوگئی۔ بنگلہ دیش کے وفد نے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے دور کے یہ مطالبات پھر پیش کیے کہ پاکستان باقاعدہ مارچ 1971سے دسمبر 1971کے درمیان سابقہ مشرقی پاکستان میں آپریشن کے دوران وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر باقاعدہ معذرت کرے۔ بنگلہ دیش کے وفد نے اس پرانے مطالبہ کو دوبارہ دہرایا کہ پاکستان 1971میں بنگلہ دیش کی آزادی سے پہلے کے 4.
بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ قاسم الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ 1970 میں طوفان سے متاثرین کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کی رقم کو بھی بنگلہ دیش کو منتقل کیا جائے۔ پاکستان کے وفد نے بنگلہ دیش کے طالب علموں کو ملک کی زرعی یونیورسٹیوں میں داخلے دینے کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیش نے ماہی گیروں اور دیگر شعبوں میں پاکستانی طلبہ کو تربیت دینے کی پیشکش کی۔ اگرچہ سابق صدر پرویز مشرف جب بنگلہ دیش کے دورہ پر گئے تھے تو انھوں نے نامعلوم سپاہی کی یادگار پر حاضری دی اور پھول چڑھائے تھے مگر اب ڈاکٹر یونس کے دور میں دوبارہ اس مطالبے کو دہرایا گیا ہے۔
بنگلہ دیش نے ان پرانے مطالبات کو دوبارہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایجنڈے میں شامل کرکے پاکستان میں موجود ان عناصر کے دماغوں میں لگنے والے اس مفروضے کا قلع قمع کردیا کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے گرانے اور ان کا نام بنگلہ دیش کی آزادی کے بانی کی حیثیت سے حذف کرنے کے بعد بنگلہ دیش اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے جا رہا ہے۔ ابلاغیات کے موضوع پر تحقیق کرنے والے وفاقی اردو یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیزکہتے ہیں کہ حسینہ واجد کے زوال کے بعد نئی حکومت نے جنرل ضیاء الرحمن کو اب بنگلہ دیش کا ہیرو قرار دیا گیا۔
جنرل ضیاء الرحمن مارچ نے 1971ء میں سب سے پہلے بنگلہ دیش کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیات کے خاتمے کے بعد جو ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک نے نوآبادی بنانے والے ممالک سے نئے تعلقات قائم کیے جس کی ایک مثال ویتنام بھی ہے۔ ویتنام نے 50ء کی دہائی سے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کامریڈ ہوچی منھ کی قیادت میں امریکا کی ویتنام پر جارحیت کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا نے ویتنام کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے تمام انسانیت سوز حربے استعمال کیے۔ ویت نام میں پاکستان کے پہلے سفیر اشفاق احمد خان (مرحوم) نے اپنی کتاب ہوچی منھ میں لکھا ہے کہ امریکا نے مہینوں مسلسل ویتنام کے شہروں پر بمباری کی تھی۔ اس بمباری میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اشفاق احمد خان نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ امریکی فوجی جن ویتنامی سپاہیوں کو گرفتار کرتے تھے انھیں ہیلی کاپٹر میں سوا رکرا کے فضاء میں لے جایا جاتا تھا اور فضاء سے زمین پر پھینک دیا جاتا تھا۔
اشفاق احمد خان نے مزید لکھا ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ویتنام کا سفیر مقررکیا تو اس وقت ویتنام کے دارالحکومت ہینوئی سے براہِ راست فلائٹ نہیں تھی جو بعد میں ہوچی منھ سٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ مختلف ممالک سے ہو کر ہینوئی پہنچیں تو وہاں کوئی عمارت ایسی موجود نہیں تھی جس کو امریکا کی بمباری نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔ مگر ویتنام نے ترقی کی اور اب ویتنام کے امریکا سے قریبی تجارتی و ثقافتی تعلقات ہیں۔ ایسے ہی تعلقات اب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان قائم ہونے چاہئیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ مذاکرات کر رہے تھے تو انڈونیشیا میں بندونگ اعلامیہ Bandung Declarationکی 70ویں سالگرہ منائی گئی۔ انڈونیشیا کے شہر بیڈونگ میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے 29 ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کو منظم کرنے میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو، مصر کے صدر جمال ناصر، انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو، یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹی ٹو ، چین کے وزیر اعظم چو این لائی اور پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں نوآزاد ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ اس بنڈونگ کانفرنس کے بعد غیر جانبدار ممالک کی تحریک کا قیام عمل میں آیا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا استعماریت کے نئے نظام کے ساتھ ابھرکر سامنے آیا تھا۔ 50ء کی دہائی میں کئی ایشیائی ممالک اور بیشتر افریقی ممالک یورپی ممالک کی نوآبادیات تھے اور جو ملک آزاد ہوئے تھے امریکی سامراج کی پالیسیوں کی بناء پر اقتصادی بدحالی کا شکار رہے۔ بنڈونگ کانفرنس کا اعلامیہ ایک عرصے تک ایشیائی اور افریقی ممالک کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کا راستہ تھا۔ اس کانفرنس کے بعد رکن ممالک کے کئی اجلاس ہوئے۔ روس اور چین کے اختلافات، پاکستان سمیت کئی ممالک کے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں شامل ہونے کی بناء پر یہ تنظیم کمزور ہوگئی مگر آج پھر صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی بناء پر ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک نئے اقتصادی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ایشیا اور افریقی ممالک ہیں۔ امریکا نے کلائمیٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکارکیا ہے۔ امریکا نے عالمی ادارہ صحت W.H.O کی گرانٹ بند کرکے کروڑوں افراد جن میں اکثریت بچوں کی ہے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال ایسے ممالک ہیں جن کے علاقوں سے جو دریا گزرتے ہیں وہ دوسرے ممالک کو بھی سیراب کرتے ہیں، اگر اس خطے کے جغرافیے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دریائے سندھ، دریائے گنگا اور دریائے برہم پترا سے اس خطے کے کئی ممالک کی زمین سیراب ہوتی ہیں۔ کلائمیٹ چینج کے نقصانات یہ بھی ہیں کہ ان دریاؤں میں پانی کم ہو رہا ہے، اگر ان ممالک کے علاوہ چین اور افغانستان کو بھی شامل کرلیا جائے تو پانی کا ایک ایسا منصفانہ نظام بن سکتا ہے جو تمام ممالک کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتے۔ پھر اس خطے میں کئی ممالک میں بجلی کی قلت ہے۔
پاکستان کی بجلی کی قیمتیں پڑوسی ممالک سے خاصی زیادہ ہیں۔ بھوٹان اور نیپال پہاڑوں سے گرنے والے پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ممالک یہ بجلی بھارت کو فراہم کرتے ہیں۔
بھارت سے یہ بجلی بنگلہ دیش کو فراہم کی جاتی ہے۔ یوں بھارت، نیپال اور بھوٹان کو اس بجلی کی رائلٹی ملتی ہے، اگر افغانستان کو واہگہ کے راستے بھارت کو ٹرکوں کے ذریعے سامان بھجوانے کی رعایت دی جائے تو پاکستان کو چند برسوں میں اتنی آمدنی ہوسکتی ہے کہ دوسرا موٹر وے تعمیر ہوسکتا ہے، اگر بندونگ کانفرنس کے اعلامیے کے جذبے کو برقرار رکھا جائے تو بلگھام جیسے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بات چیت او ر دیگر طریقے وضع ہوسکتے ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں تقریباً 1.48 بلین افراد غربت کے خط کی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی صرف 42 فیصد ہے، اگر تمام ممالک بندونگ اعلامیہ کی روح کے مطابق آپس میں تعلقات قائم کرلیں تو یہ خطہ خوشحال ہوسکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افریقی ممالک بنگلہ دیش کے پاکستان کے اس کانفرنس کی بناء پر کے درمیان امریکا نے کی آزادی ممالک کے ممالک کی جائے تو کے بعد
پڑھیں:
فیسوں میں رعایت دینے سے متعلق والدین کیلئےبڑی خوشخبری،باقاعدہ اعلامیہ جاری
پشاورمیں پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی نے نجی سکولوں کو بہن بھائیوں کی فیس میں رعایت دینے کی واضح ہدایت جاری کر دی۔ اس حوالے سے اتھارٹی کی جانب سے باقاعدہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے بہن بھائی کی فیس میں کم از کم 20 فیصد رعایت دینا لازمی بنائیں، اور اس فیصلے پر پشاور ہائیکورٹ کے احکامات کی روشنی میں سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ سکولز انتظامیہ فیس رعایت کے معاملے میں والدین سے تعاون کرے تاکہ تعلیم کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ اس اقدام کو والدین نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بچوں کی تعلیم جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔