Express News:
2025-09-19@00:53:16 GMT

بندونگ کانفرنس اعلامیہ کا جذبہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

پاکستان اور بنگلہ دیش میں 15سال بعد تعلقات کی بحالی ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ عوامی لیگ کی سربراہ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کی بناء پر 1947 سے 1971 تک ایک ساتھ رہنے والے برصغیر کے دو حصوں کے درمیان تعلقات معطل ہوئے تھے مگر سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ اور قاسم الدین کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی سطح پر تعلقات بحالی کے ممکنہ اقدامات پر غور کیا گیا اور دونوں وفود نے مختلف تجاویزکا تبادلہ بھی کیا۔

ان مذاکرات سے پہلے کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان بحری و تجارتی جہازوں کی آمدورفت بھی شروع ہوگئی۔ بنگلہ دیش کے وفد نے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے دور کے یہ مطالبات پھر پیش کیے کہ پاکستان باقاعدہ مارچ 1971سے دسمبر 1971کے درمیان سابقہ مشرقی پاکستان میں آپریشن کے دوران وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر باقاعدہ معذرت کرے۔ بنگلہ دیش کے وفد نے اس پرانے مطالبہ کو دوبارہ دہرایا کہ پاکستان 1971میں بنگلہ دیش کی آزادی سے پہلے کے 4.

32 ارب ڈالر کے واجبات کی ادائیگی کرے۔

بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ قاسم الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ 1970 میں طوفان سے متاثرین کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کی رقم کو بھی بنگلہ دیش کو منتقل کیا جائے۔ پاکستان کے وفد نے بنگلہ دیش کے طالب علموں کو ملک کی زرعی یونیورسٹیوں میں داخلے دینے کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیش نے ماہی گیروں اور دیگر شعبوں میں پاکستانی طلبہ کو تربیت دینے کی پیشکش کی۔ اگرچہ سابق صدر پرویز مشرف جب بنگلہ دیش کے دورہ پر گئے تھے تو انھوں نے نامعلوم سپاہی کی یادگار پر حاضری دی اور پھول چڑھائے تھے مگر اب ڈاکٹر یونس کے دور میں دوبارہ اس مطالبے کو دہرایا گیا ہے۔

بنگلہ دیش نے ان پرانے مطالبات کو دوبارہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایجنڈے میں شامل کرکے پاکستان میں موجود ان عناصر کے دماغوں میں لگنے والے اس مفروضے کا قلع قمع کردیا کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے گرانے اور ان کا نام بنگلہ دیش کی آزادی کے بانی کی حیثیت سے حذف کرنے کے بعد بنگلہ دیش اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے جا رہا ہے۔ ابلاغیات کے موضوع پر تحقیق کرنے والے وفاقی اردو یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیزکہتے ہیں کہ حسینہ واجد کے زوال کے بعد نئی حکومت نے جنرل ضیاء الرحمن کو اب بنگلہ دیش کا ہیرو قرار دیا گیا۔

جنرل ضیاء الرحمن مارچ نے 1971ء میں سب سے پہلے بنگلہ دیش کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیات کے خاتمے کے بعد جو ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک نے نوآبادی بنانے والے ممالک سے نئے تعلقات قائم کیے جس کی ایک مثال ویتنام بھی ہے۔ ویتنام نے 50ء کی دہائی سے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کامریڈ ہوچی منھ کی قیادت میں امریکا کی ویتنام پر جارحیت کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا نے ویتنام کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے تمام انسانیت سوز حربے استعمال کیے۔ ویت نام میں پاکستان کے پہلے سفیر اشفاق احمد خان (مرحوم) نے اپنی کتاب ہوچی منھ میں لکھا ہے کہ امریکا نے مہینوں مسلسل ویتنام کے شہروں پر بمباری کی تھی۔ اس بمباری میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اشفاق احمد خان نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ امریکی فوجی جن ویتنامی سپاہیوں کو گرفتار کرتے تھے انھیں ہیلی کاپٹر میں سوا رکرا کے فضاء میں لے جایا جاتا تھا اور فضاء سے زمین پر پھینک دیا جاتا تھا۔

اشفاق احمد خان نے مزید لکھا ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ویتنام کا سفیر مقررکیا تو اس وقت ویتنام کے دارالحکومت ہینوئی سے براہِ راست فلائٹ نہیں تھی جو بعد میں ہوچی منھ سٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ مختلف ممالک سے ہو کر ہینوئی پہنچیں تو وہاں کوئی عمارت ایسی موجود نہیں تھی جس کو امریکا کی بمباری نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔ مگر ویتنام نے ترقی کی اور اب ویتنام کے امریکا سے قریبی تجارتی و ثقافتی تعلقات ہیں۔ ایسے ہی تعلقات اب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان قائم ہونے چاہئیں۔

 پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ مذاکرات کر رہے تھے تو انڈونیشیا میں بندونگ اعلامیہ  Bandung Declarationکی 70ویں سالگرہ منائی گئی۔ انڈونیشیا کے شہر بیڈونگ میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے 29 ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کو منظم کرنے میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو، مصر کے صدر جمال ناصر، انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو، یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹی ٹو ، چین کے وزیر اعظم چو این لائی اور پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں نوآزاد ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ اس بنڈونگ کانفرنس کے بعد غیر جانبدار ممالک کی تحریک کا قیام عمل میں آیا۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا استعماریت کے نئے نظام کے ساتھ ابھرکر سامنے آیا تھا۔ 50ء کی دہائی میں کئی ایشیائی ممالک اور بیشتر افریقی ممالک یورپی ممالک کی نوآبادیات تھے اور جو ملک آزاد ہوئے تھے امریکی سامراج کی پالیسیوں کی بناء پر اقتصادی بدحالی کا شکار رہے۔ بنڈونگ کانفرنس کا اعلامیہ ایک عرصے تک ایشیائی اور افریقی ممالک کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کا راستہ تھا۔ اس کانفرنس کے بعد رکن ممالک کے کئی اجلاس ہوئے۔ روس اور چین کے اختلافات، پاکستان سمیت کئی ممالک کے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں شامل ہونے کی بناء پر یہ تنظیم کمزور ہوگئی مگر آج پھر صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی بناء پر ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک نئے اقتصادی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ایشیا اور افریقی ممالک ہیں۔ امریکا نے کلائمیٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکارکیا ہے۔ امریکا نے عالمی ادارہ صحت W.H.O کی گرانٹ بند کرکے کروڑوں افراد جن میں اکثریت بچوں کی ہے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال ایسے ممالک ہیں جن کے علاقوں سے جو دریا گزرتے ہیں وہ دوسرے ممالک کو بھی سیراب کرتے ہیں، اگر اس خطے کے جغرافیے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دریائے سندھ، دریائے گنگا اور دریائے برہم پترا سے اس خطے کے کئی ممالک کی زمین سیراب ہوتی ہیں۔ کلائمیٹ چینج کے نقصانات یہ بھی ہیں کہ ان دریاؤں میں پانی کم ہو رہا ہے، اگر ان ممالک کے علاوہ چین اور افغانستان کو بھی شامل کرلیا جائے تو پانی کا ایک ایسا منصفانہ نظام بن سکتا ہے جو تمام ممالک کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتے۔ پھر اس خطے میں کئی ممالک میں بجلی کی قلت ہے۔

پاکستان کی بجلی کی قیمتیں پڑوسی ممالک سے خاصی زیادہ ہیں۔ بھوٹان اور نیپال پہاڑوں سے گرنے والے پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ممالک یہ بجلی بھارت کو فراہم کرتے ہیں۔

بھارت سے یہ بجلی بنگلہ دیش کو فراہم کی جاتی ہے۔ یوں بھارت، نیپال اور بھوٹان کو اس بجلی کی رائلٹی ملتی ہے، اگر افغانستان کو واہگہ کے راستے بھارت کو ٹرکوں کے ذریعے سامان بھجوانے کی رعایت دی جائے تو پاکستان کو چند برسوں میں اتنی آمدنی ہوسکتی ہے کہ دوسرا موٹر وے تعمیر ہوسکتا ہے، اگر بندونگ کانفرنس کے اعلامیے کے جذبے کو برقرار رکھا جائے تو بلگھام جیسے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بات چیت او ر دیگر طریقے وضع ہوسکتے ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں تقریباً 1.48 بلین افراد غربت کے خط کی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی صرف 42 فیصد ہے، اگر تمام ممالک بندونگ اعلامیہ کی روح کے مطابق آپس میں تعلقات قائم کرلیں تو یہ خطہ خوشحال ہوسکتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افریقی ممالک بنگلہ دیش کے پاکستان کے اس کانفرنس کی بناء پر کے درمیان امریکا نے کی آزادی ممالک کے ممالک کی جائے تو کے بعد

پڑھیں:

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

گزشتہ ہفتے بین الاقوامی دہشت گرد اور ریاستی دہشتگردی کے علمبردار اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے رہائشی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرکے ایک اور آزاد ریاست کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔

اسرائیلی جنگی جنون کا ناسور چاروں طرف پھیل رہا ہے مگر اسرائیل نے قطر پر ایسے حساس وقت پر حملہ کیا جب ایک طرف قطر غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا اور دوسری طرف دنیا کے مختلف ممالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت کا درد لیے صمود فلوٹیلا (قافلہ استقامت) کی شکل میں غزہ کے مظلوم و مجبور بھوکے پیاسے اور بیمار شہریوں کے لیے امدادی سامان اور ادویات لے کر دن رات آگے بڑھ رہا تھا۔

قافلہ میں پاکستان کی نمایندگی استقامت اور بہادری کی علامت بن کر ابھرنے والے سابق سینیٹر برادر عزیز مشتاق احمد خان کررہے ہیں۔ جس قافلے کا حصہ بن کر وہ غزہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اس پر اسرائیل کی جانب سے دو ڈرون حملے ہوچکے ہیں لیکن صمود فلوٹیلا بلا خوف آگے بڑھ رہا ہے۔

اللہ رب العزت صمود فلوٹیلا کے تمام ممبران کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کی سعی کو مظلومین غزہ کے زخموں کا مرہم اور اسرائیلی بربریت کے خاتمے کا ذریعہ اور وسیلہ بنائے، آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔

قطر پر اسرائیلی حملے سے نہ صرف علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ اس حملے نے قطر کی علاقائی، عسکری اور سفارتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا اور تمام عرب ممالک کی کھوکھلی شان و شوکت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔

اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزر کر اسرائیل کے دس ایف 35 جنگی طیاروں نے قطر کے خلاف اس آپریشن میں حصہ لیا۔ ان جہازوں کو قطر ہی کے ’’العدید ایئربیس‘‘ سے پرواز کر کے برطانوی اور امریکی طیاروں نے فضا میں ایندھن فراہم کیا، جس کے بعد وہ واپسی کی پرواز کے قابل ہوئے ورنہ سارے طیارے راستے میں گر راکھ کا ڈیر بن جاتے۔

دوحہ حملے کا سب سے چونکا دینے والا پہلو قطر اور سعودی عرب کے انتہائی جدید فضائی دفاعی نظام کی ناکامی ہے، نہ تو دونوں ممالک کے کسی زمینی فضائی دفاعی نظام نے کوئی ردعمل ظاہر کیا اور نہ ہی ان ممالک کی فضا میں موجود کسی طیارے نے الرٹ جاری کیا۔

اسرائیل اور اس کے گنے چنے حمائتیوں کو چھوڑ کر ساری مہذب دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اسرائیل نے ’’بدمعاش ریاست‘‘ بن کر تمام بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں اڑا کر اپنی ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کردیا۔ یہ اظہرمن شمس ہے کہ اب اسرائیل کا وجود عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکا۔

غزہ پر قبضے اور گریٹر اسرائیل کا خواب لیے توسیع پسندانہ عزائم کی حامل ریاستی دہشتگردی کا علمبردار اسرائیل اب اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر آزاد اور خود مختار اسلامی ریاستوں پر براہ راست حملوں پر اتر آیا ہے۔

اب تک سات اسلامی ممالک اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں سے بیشتر ممالک وہ ہیں جنھوں نے ہمیشہ اسرائیل کے ازلی سرپرست امریکا پر بھروسہ کیا اور امریکا کی دوستی کا دم بھرا، ان ممالک کے سربراہان تاحال امریکا کے ساتھ ہیں۔ قطر بھی امریکا کے اتحادیوں کی صف اول میں کھڑا ہے، وہ خوش فہمی مبتلا تھا کہ جب انھوں نے امریکا کے لیے اپنی سرزمین پر اڈے دیے ہیں، امریکا سے کھربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدتے ہیں۔ 

حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دورہ قطر کے موقع 400 ملین ڈالر کا جہاز گفٹ کیا گیا اور اس کے علاوہ ہر موقع پر تابعداری اور جی حضوری کے بعد قطر کی طرف کون میلی آنکھ سے دیکھ سکتاہے اور اگر کوئی دیکھے گا تو ’’امریکا ماموں‘‘ اسے خود دیکھ لے گا۔

مگر امریکا کے بغل بچے اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے دوحہ پر حملے اور اس پر امریکا کی مجرمانہ خاموشی نے قطر کی یہ خوش فہمی چکنا چور کردی۔ اسرائیل کے اس حملے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے اور ملکوں کی خود مختاری اور اقتدار کے احترام کے بیانیے محض ڈھکوسلے ہیں۔

دنیا میں ابھی بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی رائج ہے۔ جب ہر بین الاقوامی فورم پر امریکا، اسرائیلی جرائم کے دفاع کے لیے کھڑا ہوگا تو پھر صرف فلسطین، شام، ایران اور قطر نہیں جہاں بھی اسرائیلی مفادات خطرے میں ہوں گے وہاں دوسروں کی خود مختاری اور اقتدار ریت کی دیوار ثابت ہو ںگے۔

اسرائیلی حملہ صرف قطر کے لیے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ بالخصوص عربوں کے لیے بہت بڑا دھچکا، لمحہ فکریہ اور وارننگ ہے۔ اللہ کرے اس دھچکے کے بعد مسلمان حکمرانوں اور خاص کر عرب ممالک نیند سے جاگ جائیں اور اپنے پہلو میں موجود غزہ کے مظلوم و مجبور اور غذائی قلت کا شکار فلسطینیوں کے حق میں کھڑے ہو کر اﷲ کو راضی کریں۔

مسئلہ یہ نہیں کہ اسرائیل طاقتور ہے، المیہ یہ ہے کہ مظلوم امت مسلمہ کے حکمران کمزور، مصلحت پسند اور تقسیم ہیں۔ امت مسلمہ کے حکمران اب بھی متحد نہ ہوئے تو تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس حملے کے نتیجے میں مسلم امہ انگڑائی لیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ 

حملے کے فوری بعد قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے قطر کا دورہ کیا، اس دورے میں اسرائیل کے بغل بچے بھارت کو شکست فاش دینے والے ریاست پاکستان کی طرف اسرائیل کے لیے واضح پیغام تھا کہ ’’تمہاری بدمعاشی مزید نہیں چلے گی۔

جس طرح ہم نے تمہارے اسٹرٹیجک اتحادی ہندوستان کو آپکی سرپرستی، آشیرباد اور مدد سے کی گئی جارحیت کا منہ توڑ اور دندان شکن جواب دیا اس سے خطرناک انجام سے اسرائیل کو دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ اگر پوری مسلم امہ ساتھ دے تو پاکستان نے جس طرح انڈیا پر پھینکے گئے میزائلوں پر ان شہداء کے نام لکھے تھے جو رات کی تاریکی میں ہندوستان سے داغے گئے میزائلوں سے شہید ہوئے تھے۔

بلکل اسی طرح پاکستان اپنی میزائلوں پر صیہونی دہشت گردی کے شکار غزہ کے مظلوم شہید بچوں کے نام لکھ کر اسرائیل کو سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر اور پاک فوج کی کمان ایک ایسے سپہ سالار کے ہاتھوں میں ہے جس کا سینہ قرآن کے نور سے منور ہے، اگر وہ ہندوستان کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں تو دہشت گرد اسرائیل کو بھی لگام ڈال سکتے ہیں۔

یہ خوش آیند ہے کہ اس حملے کے بعد عرب دنیا میں اتحاد کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ تاحال تمام عرب ممالک اسرائیل کے خلاف ایک پیج پر اور سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اتوار اور سوموار کو دو روزہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس ہوا، اس اجلاس میں شریک مسلم ممالک کے سربراہان نے پہلی بار متفقہ لائحہ عمل اپنایا اور اسرائیل کی سخت الفاظ میں مزمت کی۔

مسلم سربراہان نے کہا کہ ’’اسرائیل نے تمام ریڈلائنزکراس کرلی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹراورعالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا، صہیونی جارحیت روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘

سوموار کی شام جاری ہونے والے اعلامیہ میں مسلم ممالک کی جانب سے جارحیت کے لیے اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیہ میں قطر پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیرقانونی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت، قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی اور قطری ردعمل کی حمایت کی۔

مگر یہ اب صرف مطالبات سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک ملکر انسداد ریاستی دہشتگردی کے لیے ’’بین الاقوامی اسلامی فورس خالد بن ولید فورس کے نام سے تشکیل دے کر دہشت گرد ریاست اسرائیل کو میدان جنگ میں نشان عبرت بنائیں۔

اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی دنیا ہماری بات تب تک نہیں سنے گی جب تک ہم متحد و متفق ہو کر عملی اقدامات کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، اب محض زبانی جمع خرچ، کھوکھلے بیان بازیوں اور مذمتوں پر وقت ضایع کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا تو آج قطر تو کل کسی اور اسلامی ریاست کو اسرائیلی جارحیت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کی تاریخ میں اہم موڑ ہے،وزیر دفاع
  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • ٹرمپ کا دورہ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • دوحہ کانفرنس اور فیصلے
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بہت اہم ہے، اس کے دور رس نتائج ہوں گے: ملیحہ لودھی
  • ویتنام : ٹرک حادثے میں 3 افراد ہلاک‘ کئی زخمی
  • لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے
  • اسلامی ملکوں کے حکمران وسائل کا رخ عوام کی جانب موڑیں: حافظ نعیم 
  • خلیجی ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ‘ سب پر حملہ تصور ہوگا‘ اعلامیہ جاری
  • قطر پر اسرائیلی جارحیت امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، عرب، اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس کا اعلامیہ