بندونگ کانفرنس اعلامیہ کا جذبہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
پاکستان اور بنگلہ دیش میں 15سال بعد تعلقات کی بحالی ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ عوامی لیگ کی سربراہ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کی بناء پر 1947 سے 1971 تک ایک ساتھ رہنے والے برصغیر کے دو حصوں کے درمیان تعلقات معطل ہوئے تھے مگر سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ اور قاسم الدین کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی سطح پر تعلقات بحالی کے ممکنہ اقدامات پر غور کیا گیا اور دونوں وفود نے مختلف تجاویزکا تبادلہ بھی کیا۔
ان مذاکرات سے پہلے کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان بحری و تجارتی جہازوں کی آمدورفت بھی شروع ہوگئی۔ بنگلہ دیش کے وفد نے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے دور کے یہ مطالبات پھر پیش کیے کہ پاکستان باقاعدہ مارچ 1971سے دسمبر 1971کے درمیان سابقہ مشرقی پاکستان میں آپریشن کے دوران وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر باقاعدہ معذرت کرے۔ بنگلہ دیش کے وفد نے اس پرانے مطالبہ کو دوبارہ دہرایا کہ پاکستان 1971میں بنگلہ دیش کی آزادی سے پہلے کے 4.
بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ قاسم الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ 1970 میں طوفان سے متاثرین کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کی رقم کو بھی بنگلہ دیش کو منتقل کیا جائے۔ پاکستان کے وفد نے بنگلہ دیش کے طالب علموں کو ملک کی زرعی یونیورسٹیوں میں داخلے دینے کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیش نے ماہی گیروں اور دیگر شعبوں میں پاکستانی طلبہ کو تربیت دینے کی پیشکش کی۔ اگرچہ سابق صدر پرویز مشرف جب بنگلہ دیش کے دورہ پر گئے تھے تو انھوں نے نامعلوم سپاہی کی یادگار پر حاضری دی اور پھول چڑھائے تھے مگر اب ڈاکٹر یونس کے دور میں دوبارہ اس مطالبے کو دہرایا گیا ہے۔
بنگلہ دیش نے ان پرانے مطالبات کو دوبارہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایجنڈے میں شامل کرکے پاکستان میں موجود ان عناصر کے دماغوں میں لگنے والے اس مفروضے کا قلع قمع کردیا کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے گرانے اور ان کا نام بنگلہ دیش کی آزادی کے بانی کی حیثیت سے حذف کرنے کے بعد بنگلہ دیش اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے جا رہا ہے۔ ابلاغیات کے موضوع پر تحقیق کرنے والے وفاقی اردو یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیزکہتے ہیں کہ حسینہ واجد کے زوال کے بعد نئی حکومت نے جنرل ضیاء الرحمن کو اب بنگلہ دیش کا ہیرو قرار دیا گیا۔
جنرل ضیاء الرحمن مارچ نے 1971ء میں سب سے پہلے بنگلہ دیش کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیات کے خاتمے کے بعد جو ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک نے نوآبادی بنانے والے ممالک سے نئے تعلقات قائم کیے جس کی ایک مثال ویتنام بھی ہے۔ ویتنام نے 50ء کی دہائی سے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کامریڈ ہوچی منھ کی قیادت میں امریکا کی ویتنام پر جارحیت کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا نے ویتنام کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے تمام انسانیت سوز حربے استعمال کیے۔ ویت نام میں پاکستان کے پہلے سفیر اشفاق احمد خان (مرحوم) نے اپنی کتاب ہوچی منھ میں لکھا ہے کہ امریکا نے مہینوں مسلسل ویتنام کے شہروں پر بمباری کی تھی۔ اس بمباری میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اشفاق احمد خان نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ امریکی فوجی جن ویتنامی سپاہیوں کو گرفتار کرتے تھے انھیں ہیلی کاپٹر میں سوا رکرا کے فضاء میں لے جایا جاتا تھا اور فضاء سے زمین پر پھینک دیا جاتا تھا۔
اشفاق احمد خان نے مزید لکھا ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ویتنام کا سفیر مقررکیا تو اس وقت ویتنام کے دارالحکومت ہینوئی سے براہِ راست فلائٹ نہیں تھی جو بعد میں ہوچی منھ سٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ مختلف ممالک سے ہو کر ہینوئی پہنچیں تو وہاں کوئی عمارت ایسی موجود نہیں تھی جس کو امریکا کی بمباری نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔ مگر ویتنام نے ترقی کی اور اب ویتنام کے امریکا سے قریبی تجارتی و ثقافتی تعلقات ہیں۔ ایسے ہی تعلقات اب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان قائم ہونے چاہئیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ مذاکرات کر رہے تھے تو انڈونیشیا میں بندونگ اعلامیہ Bandung Declarationکی 70ویں سالگرہ منائی گئی۔ انڈونیشیا کے شہر بیڈونگ میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے 29 ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کو منظم کرنے میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو، مصر کے صدر جمال ناصر، انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو، یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹی ٹو ، چین کے وزیر اعظم چو این لائی اور پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں نوآزاد ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ اس بنڈونگ کانفرنس کے بعد غیر جانبدار ممالک کی تحریک کا قیام عمل میں آیا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا استعماریت کے نئے نظام کے ساتھ ابھرکر سامنے آیا تھا۔ 50ء کی دہائی میں کئی ایشیائی ممالک اور بیشتر افریقی ممالک یورپی ممالک کی نوآبادیات تھے اور جو ملک آزاد ہوئے تھے امریکی سامراج کی پالیسیوں کی بناء پر اقتصادی بدحالی کا شکار رہے۔ بنڈونگ کانفرنس کا اعلامیہ ایک عرصے تک ایشیائی اور افریقی ممالک کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کا راستہ تھا۔ اس کانفرنس کے بعد رکن ممالک کے کئی اجلاس ہوئے۔ روس اور چین کے اختلافات، پاکستان سمیت کئی ممالک کے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں شامل ہونے کی بناء پر یہ تنظیم کمزور ہوگئی مگر آج پھر صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی بناء پر ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک نئے اقتصادی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ایشیا اور افریقی ممالک ہیں۔ امریکا نے کلائمیٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکارکیا ہے۔ امریکا نے عالمی ادارہ صحت W.H.O کی گرانٹ بند کرکے کروڑوں افراد جن میں اکثریت بچوں کی ہے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال ایسے ممالک ہیں جن کے علاقوں سے جو دریا گزرتے ہیں وہ دوسرے ممالک کو بھی سیراب کرتے ہیں، اگر اس خطے کے جغرافیے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دریائے سندھ، دریائے گنگا اور دریائے برہم پترا سے اس خطے کے کئی ممالک کی زمین سیراب ہوتی ہیں۔ کلائمیٹ چینج کے نقصانات یہ بھی ہیں کہ ان دریاؤں میں پانی کم ہو رہا ہے، اگر ان ممالک کے علاوہ چین اور افغانستان کو بھی شامل کرلیا جائے تو پانی کا ایک ایسا منصفانہ نظام بن سکتا ہے جو تمام ممالک کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتے۔ پھر اس خطے میں کئی ممالک میں بجلی کی قلت ہے۔
پاکستان کی بجلی کی قیمتیں پڑوسی ممالک سے خاصی زیادہ ہیں۔ بھوٹان اور نیپال پہاڑوں سے گرنے والے پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ممالک یہ بجلی بھارت کو فراہم کرتے ہیں۔
بھارت سے یہ بجلی بنگلہ دیش کو فراہم کی جاتی ہے۔ یوں بھارت، نیپال اور بھوٹان کو اس بجلی کی رائلٹی ملتی ہے، اگر افغانستان کو واہگہ کے راستے بھارت کو ٹرکوں کے ذریعے سامان بھجوانے کی رعایت دی جائے تو پاکستان کو چند برسوں میں اتنی آمدنی ہوسکتی ہے کہ دوسرا موٹر وے تعمیر ہوسکتا ہے، اگر بندونگ کانفرنس کے اعلامیے کے جذبے کو برقرار رکھا جائے تو بلگھام جیسے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بات چیت او ر دیگر طریقے وضع ہوسکتے ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں تقریباً 1.48 بلین افراد غربت کے خط کی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی صرف 42 فیصد ہے، اگر تمام ممالک بندونگ اعلامیہ کی روح کے مطابق آپس میں تعلقات قائم کرلیں تو یہ خطہ خوشحال ہوسکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افریقی ممالک بنگلہ دیش کے پاکستان کے اس کانفرنس کی بناء پر کے درمیان امریکا نے کی آزادی ممالک کے ممالک کی جائے تو کے بعد
پڑھیں:
فلسطین پر بھارت کی نمایاں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مشترکہ اعلامیہ جاری
اسلام ٹائمز: مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارت کی بڑی اور نمایاں مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے قضیہ فلسطین پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں بھارتی حکومت اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غزہ میں جاری ظلم و بربریت کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کریں۔ انہوں نے کہا "ہم بھارت کی مسلم تنظیموں کے رہنماء، مذہبی علماء اور ملک کے امن پسند شہری، غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانیت سوز بحران کی شدید مذمت کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا "ہم 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں اور وطن عزیز کے تمام امن پسند شہریوں کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔
غزہ میں سنگین بحرانی کیفیت
فلسطینی عوام پر جاری جارحانہ اسرائیلی حملے منظم نسل کشی کی صورت اختیار کرچکے ہیں، ان حملوں میں گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اکتوبر 2023ء سے اب تک تقریباً ایک لاکھ معصوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جارحانہ اسرائیلی بمباری کے سبب غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز یا تو پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں یا ناکارہ ہوچکے ہیں، اس وقت پورے غزہ میں گنتی کے چند غذائی مراکز بچے ہیں، جو 20 لاکھ سے زائد افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ 17,000 سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں جبکہ اس جنگ نے پانچ لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ ایک جانب غزہ میں اتنی سنگین بحرانی کیفیت ہے اور دوسری جانب ہزاروں ٹن خوراک اور طبی امداد سرحدوں پر روک دی گئی ہے، پانی و صفائی کے نظام کی تباہی کے سبب غزہ میں مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اگر فوری طور پر ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو غزہ میں مکمل طور پر قحط سالی کا خطرہ ہے۔
عالمی طاقتوں سے کیا گیا یہ بڑا مطالبہ
مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ ایسی صورت میں عالمی برادری کی خاموشی ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی طاقتوں اور تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعلقات منقطع کریں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے خاتمہ کے مطالبے کی حمایت کریں۔ ہم تمام مسلم ممالک سے بھی پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنائیں، تاکہ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکا جاسکے۔ تاریخی اعتبار سے ہمارا ملک ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پوری قوت سے اس تاریخی روایت کی پاسداری کریں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم اپنی حکومتِ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کی اخلاقی اور سفارتی روایت کا احترام کرے، کھل کر اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کی مذمت کرے، اس کے ساتھ عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات کو معطل کرے۔ فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد میں ان کا ساتھ دے اور عالمی سطح پر خطہ میں امن و استحکام کی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔ ہم اپنی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی بنیادوں پر غزہ کے مظلومین کے لئے فوری امداد کا انتظام کرے اور غزہ میں خوراک، پانی، ایندھن اور طبی سامان کی ترسیل کے لئے کی جا رہی سفارتی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔
مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی عام شہریوں اور اداروں سے اپیل
مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ ہم عام شہریوں اور اداروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی مصنوعات اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں، جو کسی بھی طریقے سے اس نسل کشی میں شریک ہیں۔ سول سوسائٹیز، تعلیمی ادارے اور مذہبی تنظیمیں ملک میں مظلوموں کی آواز بنیں اور فلسطینی جدوجہد کے خلاف پھیلائے جا رہے پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کریں۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے لئے جاری پُرامن اور قانونی مزاحمت میں پُرجوش شرکت کریں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ غزہ کے لئے یکجہتی مارچ، بیداری مہمات، علمی مذاکروں اور بین المذاہب تقاریب کا اہتمام کیا جائے، تاکہ یہ پیغام جائے کہ ہندوستانی ضمیر خاموش نہیں ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو ریاستی ہراسانی یا دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل رہے۔ مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اس تنازعہ کے سلسلے میں ہمارا موقف وقتی سیاسی مفادات کے بجائے آئین میں درج اصولوں اور ہماری تہذیبی اور اخلاقی قدروں پر مبنی ہو۔ بے گناہ انسانوں کی نسل کشی کے وقت خاموشی یا غیر جانبدار رہنا سفارت کاری نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اب وقت ہے کہ ہم غزہ کے عوام کے ساتھ کھل کر یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں، ہمارے اقدامات انصاف کے تقاضوں اور انسانی ہمدردی کی ہماری روایت سے ہم آہنگ ہوں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، ہمیں ایک ہوکر اس نسل کشی کو روکنے کے لئے آواز اٹھانا ہوگی۔ مسئلہ فلسطین پر اس مشترکہ اعلامیہ کو جاری کرنے والوں میں مولانا ارشد مدنی (صدر جمیعۃ علماء ہند)، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)، سید سعادت اللہ حسینی (امیر جماعت اسلامی ہند)، مولانا علی اصغر امام مہدی (امیر مرکزی جمیعت اہلحدیث)، مولانا حکیم الدین قاسمی (جنرل سیکریٹری جمیعۃ علماء ہند)، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (امیر شریعت امارت شریعہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال)، مفتی مکرم احمد (امام شاہی جامع مسجد فتحپوری)، مولانا عبیداللہ خان اعظمی (سابق رکن پارلیمنٹ)، ملک معتصم خان (نائب امیر جماعت اسلامی ہند)، ڈاکٹر محمد منظور عالم (جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل)، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (سابق چیئرمین دہلی مائنریٹی کمیشن)، عبد الحفیظ (صدر ایس آئی او آف انڈیا)، مولانا محسن تقوی (معروف شیعہ عالم دین)، پروفیسر اختر الواسع (سابق وائس چانسلر، مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور) شامل ہیں۔
درایں اثناء انڈین نیشنل کانگریس نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر مودی حکومت کی خاموشی شرمناک ہے اور ایسی اخلاقی بزدلی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے۔ کانگریس نے غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں اور فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے مظالم پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مودی حکومت کی خاموشی کو شرمناک اور اخلاقی بزدلی کی انتہاء قرار دیا ہے۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر اور پارٹی کے مواصلاتی انچارج جے رام رمیش نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کو ناراض کرنے سے بچنے کے لئے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جے رام رمیش نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ غزہ میں فلسطینی عوام پر اسرائیلی حکومت کے ذریعے مسلسل خوفناک مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں کو بنیادی انسانی ضرورت یعنی خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں دیکھا جاتا ہے، انہیں نہایت بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے یا پھر دانستہ طور پر بھوکا رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی حادثاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک منظم اور سوچا سمجھا نسل کشی کا منصوبہ ہے، جس کا مقصد پورے فلسطینی معاشرے کو ختم کرنا ہے۔
کانگریس کمیٹی کے لیڈر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں جب دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی خبریں فلسطین سے سامنے آ رہی ہیں، مودی حکومت کی خاموشی انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم اس لئے خاموش ہیں، تاکہ ان کے قریبی دوست نیتن یاہو ناراض نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکومت نے آج تک ایسی اخلاقی بزدلی کبھی نہیں دکھائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رویہ نہ صرف سیاسی طور پر قابل اعتراض ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرم پر آنکھ بند کرنا ہے، جو کہ ہندوستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ دوسری طرف غزہ کی صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس درمیان کانگریس نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا مؤقف واضح کرے اور غزہ میں انسانیت سوز مظالم کی مذمت کرے۔ کانگریس نے یاد دلایا کہ بھارت ہمیشہ عالمی سطح پر مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت کا رویہ اس روایت سے انحراف ہے، جو ملکی شبیہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔