سندھ طاس کے نہلے پر شملہ معاہدے کا دہلا
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی نازک اور پیچیدہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں ہونے والے متعدد معاہدے دو طرفہ اعتماد اور تنازعات کے حل کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاہدوں میں “سندھ طاس معاہدہ” (Indus Waters Treaty – 1960) اور “شملہ معاہدہ” (Simla Agreement – 1972) شامل ہیں۔ بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا تو پاکستان نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے شملہ معاہدہ معطل کر دیا، یوں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ اس کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کے حصے میں آئے۔ یہ معاہدہ دنیا کا واحد آبی معاہدہ ہے جو دو دشمن ممالک کے درمیان کئی جنگوں کے باوجود قائم و دائم رہا۔
حالیہ بھارتی اقدامات کے مطابق وہ اس معاہدے کو معطل کر چکا ہے، لیکن عملی طور پر بھارت ان دریائوں پر ایسا کوئی انفراسٹرکچر نہیں رکھتا جس سے وہ فوری طور پر پانی کا بہائو روک سکے۔ چناب اور جہلم پر نہ کوئی بڑا بیراج ہے اور نہ ہی کوئی بڑی نہریں بھارت کے اندر موجود ہیں جو ان دریائوں سے نکلتی ہوں کہ بھارت دریائوں کے پانی کو موڑ سکے۔ اس لیے یہ دعوی محض ایک سیاسی دبائو ڈالنے کی کوشش ہے، جس کا زمینی حقائق سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستان نے اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر کے بھارت کو قانونی اور سفارتی دبائو میں لانے کا راستہ اختیار کیا ہے، چونکہ اس معاملے میں پاکستان کی قانونی و اخلاقی پوزیشن بہتر ہے، اس لیئے پاکستان آنیوالے ہفتوں اور مہینوں میں عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر سکتا ہے۔
1972 میں ہونے والا شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد طے پایا تھا جس میں جموں و کشمیر کی لائن آف کنٹرول (LoC) کو تسلیم کیا گیا اور اس پر دونوں ممالک نے باہمی اتفاق سے امن برقرار رکھنے کا وعدہ کیا۔ پاکستان کی طرف سے جوابی اقدام کے طور پر شملہ معاہدے کو معطل کرنا، سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے مقابلے بہت زیادہ خوفناک اور فوری اثرات کا حامل ثابت ہو گا، اور نتائج بھارت کیلئے بہت زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں، کیونکہ شملہ معاہدے کی معطلی سے لائن آف کنٹرول کی بین الاقوامی حیثیت ختم ہوجائے گی، اس معاہدے کے تحت LoC کو ایک متنازع سرحد کے طور پر بین الاقوامی سطح پرقبول کیاگیا۔ شملہ معاہدے کی معطلی بہت ہی زیادہ خطرناک معاملہ ہے کیونکہ اس بڑے فیصلے کی وجہ سےپاکستان اوربھارت سمیت پوری دنیا کیلئے کنٹرول لائن کا تقدس ختم ہو جائے گا اور جس کاجب جی چاہے گاوہ اسے پارکرلے گا، یوں ایل او سی محض ایک دفاعی لکیر بن کر رہ جائے گی جس کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس سے کشمیر کی آئینی و سیاسی اور عسکری حیثیت میں دھماکہ خیز تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی اور دنیا بھر کی جہادی و عسکری تنظیموں کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بطور ایک عالمی جہادی میدان کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔
شملہ معاہدے کے تحت پاکستان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کنٹرول لائن پر کسی قسم کی دراندازی یا عسکری مداخلت کا حصہ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر یہ معاہدہ عملاً معطل ہو جاتا ہے تو دنیا بھر کی جہادی تنظیموں کے لیے یہ موقف پیدا ہو سکتا ہے کہ اب لائن آف کنٹرول کوئی مسلمہ رکاوٹ نہیں رہی اور مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونا ایک “کھلا میدان” ہے۔ اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک براہ راست اثر یہ ہو گا کہ کشمیریوں کی عسکری تحریک کو نئی توانائی اور بیرونی مددحاصل ہوجائےگی اور بھارتی فوج کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنا اور یہاں دریائے چناب و جہلم پر بیراج تعمیر کرکے بھارت کیلئے نہریں نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔
اس نئی صورتحال میں پاکستان پر بین الاقوامی دبائو بھی بڑھےگاکہ وہ غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی نہ کرے لیکن پاکستان اس موقع پر یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ پہل بھارت نے کی ہے، کیونکہ دریائوں کا پانی روکنا پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ اور کھلا اعلان جنگ ہے۔ شملہ معاہدے کی منسوخی یا معطلی سے بھارتی فوج کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں درپیش چیلنجز میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔ لائن آف کنٹرول کی قانونی حیثیت ختم ہونےسے اگر عسکری دراندازی میں اضافہ ہوا تو بھارتی فوج کو ایک وسیع اور ناقابل تصور جنگی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف بھارت کے فوجی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوجائےگابلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی تعداد مزید لاکھوں فوجی لا کر بہت زیادہ بڑھانی پڑے گی اور مودی سرکار کو کم و بیش ویسی ہی صورتحال درپیش ہو جائے گی جس کا جہاد افغانستان کے دوران سویت یونین کو سامنا کرنا پڑا تھا، آٹھ دس برس کنٹرول لائن معطل رہی تو اربوں ڈالر ماہانہ کے فوجی اخراجات بھارت کی معیشت کی چولیں ہلا دیں گے اور پھر ہندوستان بھی نہ صرف آخر کار جہادیوں کی گوریلا جنگ سے تنگ آ کر مقبوضہ جموں و کشمیر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا بلکہ اپنی شمال مشرقی ، مشرقی اور وسطی ریاستوں پر کنٹرول کے قابل بھی نہیں رہے گا جہاں پہلے سے ہی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، یوں آخر کار سوویت یونین کی طرح بھارت بھی ٹوٹ کو کم و بیش ڈیڑھ درجن ممالک میں بٹ جائے گا۔ واللہ اعلم باالصواب
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: لائن آف کنٹرول معاہدے کو معطل بین الاقوامی پاکستان اور میں پاکستان شملہ معاہدے ہو جائے گا اس معاہدے اور بھارت کے درمیان بھارت کے گی اور
پڑھیں:
ضلع لوئر کرم اور صدہ کے قبائل کے درمیان ایک سال کے لیے امن معاہدہ طے پاگیا
خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کرم اور صدہ کے قبائل نے علاقے میں ایک سالہ جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
صدہ فرنٹیئر کور قلعہ میں منعقدہ جرگہ میں دونوں فریقین نے معززین کی موجودگی میں ایک سال کے لیے امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔
جرگہ کرم کے ڈپٹی کمشنر اشفاق خان کی صدارت میں ہوا جنہوں نے لوئر کرم اور صدہ کے مقامی قبائل کے درمیان ایک سال کے لیے امن معاہدہ طے پانے کی تصدیق کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ضلع کرم میں متحارب فریقین جنگ بندی آمادہ، پائیدار امن کی کوششوں پراتفاق
جرگہ میں علاقے کے اہلِ سنت اور توری بنگش قبائل کے نمائندوں ضلعی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے شرکت کی۔
ڈپٹی کمشنر اشفاق خان نے اس جنگ بندی کو علاقائی استحکام کے لیے سنگِ میل قرار دیتے ہوئے بتایا کہ قبائلی عمائدین نے کوہاٹ معاہدے کی روشنی میں اس امن معاہدے پر دستخط کیے اور اس معاہدے کی تمام شرائط کو تسلیم کیا گیا۔
اس موقع پر ڈی سی اشفاق خان نے کہا کہ ضلع کرم میں قیام امن علاقائی عمائدین کے تعاون سے ہی ممکن ہوا ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز کی امن کے لیے بے پناہ قربانیاں قابلِ تحسین ہیں، انہوں نے دیرپا امن کے لیے مزید اقدامات کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امن معاہدہ جنگ بندی صدہ ضلع کرم