Daily Ausaf:
2025-09-18@16:27:56 GMT

سندھ طاس کے نہلے پر شملہ معاہدے کا دہلا

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی نازک اور پیچیدہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں ہونے والے متعدد معاہدے دو طرفہ اعتماد اور تنازعات کے حل کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاہدوں میں “سندھ طاس معاہدہ” (Indus Waters Treaty – 1960) اور “شملہ معاہدہ” (Simla Agreement – 1972) شامل ہیں۔ بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا تو پاکستان نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے شملہ معاہدہ معطل کر دیا، یوں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ اس کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کے حصے میں آئے۔ یہ معاہدہ دنیا کا واحد آبی معاہدہ ہے جو دو دشمن ممالک کے درمیان کئی جنگوں کے باوجود قائم و دائم رہا۔
حالیہ بھارتی اقدامات کے مطابق وہ اس معاہدے کو معطل کر چکا ہے، لیکن عملی طور پر بھارت ان دریائوں پر ایسا کوئی انفراسٹرکچر نہیں رکھتا جس سے وہ فوری طور پر پانی کا بہائو روک سکے۔ چناب اور جہلم پر نہ کوئی بڑا بیراج ہے اور نہ ہی کوئی بڑی نہریں بھارت کے اندر موجود ہیں جو ان دریائوں سے نکلتی ہوں کہ بھارت دریائوں کے پانی کو موڑ سکے۔ اس لیے یہ دعوی محض ایک سیاسی دبائو ڈالنے کی کوشش ہے، جس کا زمینی حقائق سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستان نے اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر کے بھارت کو قانونی اور سفارتی دبائو میں لانے کا راستہ اختیار کیا ہے، چونکہ اس معاملے میں پاکستان کی قانونی و اخلاقی پوزیشن بہتر ہے، اس لیئے پاکستان آنیوالے ہفتوں اور مہینوں میں عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر سکتا ہے۔
1972 میں ہونے والا شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد طے پایا تھا جس میں جموں و کشمیر کی لائن آف کنٹرول (LoC) کو تسلیم کیا گیا اور اس پر دونوں ممالک نے باہمی اتفاق سے امن برقرار رکھنے کا وعدہ کیا۔ پاکستان کی طرف سے جوابی اقدام کے طور پر شملہ معاہدے کو معطل کرنا، سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے مقابلے بہت زیادہ خوفناک اور فوری اثرات کا حامل ثابت ہو گا، اور نتائج بھارت کیلئے بہت زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں، کیونکہ شملہ معاہدے کی معطلی سے لائن آف کنٹرول کی بین الاقوامی حیثیت ختم ہوجائے گی، اس معاہدے کے تحت LoC کو ایک متنازع سرحد کے طور پر بین الاقوامی سطح پرقبول کیاگیا۔ شملہ معاہدے کی معطلی بہت ہی زیادہ خطرناک معاملہ ہے کیونکہ اس بڑے فیصلے کی وجہ سےپاکستان اوربھارت سمیت پوری دنیا کیلئے کنٹرول لائن کا تقدس ختم ہو جائے گا اور جس کاجب جی چاہے گاوہ اسے پارکرلے گا، یوں ایل او سی محض ایک دفاعی لکیر بن کر رہ جائے گی جس کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس سے کشمیر کی آئینی و سیاسی اور عسکری حیثیت میں دھماکہ خیز تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی اور دنیا بھر کی جہادی و عسکری تنظیموں کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بطور ایک عالمی جہادی میدان کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔
شملہ معاہدے کے تحت پاکستان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کنٹرول لائن پر کسی قسم کی دراندازی یا عسکری مداخلت کا حصہ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر یہ معاہدہ عملاً معطل ہو جاتا ہے تو دنیا بھر کی جہادی تنظیموں کے لیے یہ موقف پیدا ہو سکتا ہے کہ اب لائن آف کنٹرول کوئی مسلمہ رکاوٹ نہیں رہی اور مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونا ایک “کھلا میدان” ہے۔ اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک براہ راست اثر یہ ہو گا کہ کشمیریوں کی عسکری تحریک کو نئی توانائی اور بیرونی مددحاصل ہوجائےگی اور بھارتی فوج کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنا اور یہاں دریائے چناب و جہلم پر بیراج تعمیر کرکے بھارت کیلئے نہریں نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔
اس نئی صورتحال میں پاکستان پر بین الاقوامی دبائو بھی بڑھےگاکہ وہ غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی نہ کرے لیکن پاکستان اس موقع پر یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ پہل بھارت نے کی ہے، کیونکہ دریائوں کا پانی روکنا پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ اور کھلا اعلان جنگ ہے۔ شملہ معاہدے کی منسوخی یا معطلی سے بھارتی فوج کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں درپیش چیلنجز میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔ لائن آف کنٹرول کی قانونی حیثیت ختم ہونےسے اگر عسکری دراندازی میں اضافہ ہوا تو بھارتی فوج کو ایک وسیع اور ناقابل تصور جنگی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف بھارت کے فوجی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوجائےگابلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی تعداد مزید لاکھوں فوجی لا کر بہت زیادہ بڑھانی پڑے گی اور مودی سرکار کو کم و بیش ویسی ہی صورتحال درپیش ہو جائے گی جس کا جہاد افغانستان کے دوران سویت یونین کو سامنا کرنا پڑا تھا، آٹھ دس برس کنٹرول لائن معطل رہی تو اربوں ڈالر ماہانہ کے فوجی اخراجات بھارت کی معیشت کی چولیں ہلا دیں گے اور پھر ہندوستان بھی نہ صرف آخر کار جہادیوں کی گوریلا جنگ سے تنگ آ کر مقبوضہ جموں و کشمیر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا بلکہ اپنی شمال مشرقی ، مشرقی اور وسطی ریاستوں پر کنٹرول کے قابل بھی نہیں رہے گا جہاں پہلے سے ہی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، یوں آخر کار سوویت یونین کی طرح بھارت بھی ٹوٹ کو کم و بیش ڈیڑھ درجن ممالک میں بٹ جائے گا۔ واللہ اعلم باالصواب

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: لائن آف کنٹرول معاہدے کو معطل بین الاقوامی پاکستان اور میں پاکستان شملہ معاہدے ہو جائے گا اس معاہدے اور بھارت کے درمیان بھارت کے گی اور

پڑھیں:

اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب

اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب

سعودی وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے رات گئے تحریر مختصر الفاظ پاک سعودی تعلقات کے دریا کو کوزے میں بند کردیتے ہیں، انہوں پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجی دفاعی معاہدہ سائن ہونے کے بعد اردو میں لکھا کہ ’سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔ہمیشہ اور ابد تک‘، یہی وہ جملہ ہے جس نے حالیہ اسٹریٹیجک مشترکہ دفاعی ایگریمنٹ کو محض ایک معاہدہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی اور تہذیبی اشارہ بنا دیا ہے۔ یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون نہیں، بلکہ ایک مشترکہ مقدر کا اعلان ہے، ایسا عہد جو وقت کی آزمائشوں سے گزری ہوئی رفاقت پر کھڑا ہے۔

معاہدے میں یہ طے ہوا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا۔ گویا ایک کی سرحد پر خطرہ، دوسرے کے وجود پر بھی دستک سمجھی جائے گی۔

رائٹرز نے اس معاہدے کو دہائیوں پر محیط دفاعی تعلقات کا ادارہ جاتی تسلسل کہا ہے، اور زور دیا ہے کہ یہ محض کسی حالیہ واقعے کا ردِ عمل نہیں بلکہ طویل مشاورت اور سوچ سمجھ کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب کی یہ حکمتِ عملی بھی قابلِ غور ہے کہ وہ ایک طرف پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک گہرائی قائم کر رہا ہے، تو دوسری طرف بھارت کے ساتھ اپنے مضبوط اقتصادی تعلقات کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

واشنگٹن پوسٹ اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے معاہدے کے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں ملکوں پر حملے کے مترادف ہوگی، اور یہ اقدام دفاعی تعاون کو وسعت دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ فائنانشل ٹائمز نے اس پیشرفت کو اس زاویے سے دیکھا کہ خلیجی ممالک اب علاقائی سطح پر اپنی سیکیورٹی کا بندوبست خود کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کسی ایک طاقت پر انحصار نہ رہے۔ سعودی عرب نے ایک سال سے زائد کی گفت وشنید کے بعد یہ خاکہ مکمل کیا اور اس دوران جوہری عدمِ پھیلاؤ کی اپنی پالیسی پر بھی زور دیا۔

بلومبرگ نے اس معاہدے کو دفاعی تعاون کی نئی سطح قرار دیا، جس میں حملہ صرف ایک ملک پر نہیں رہتا بلکہ پورے اتحاد پر حملہ بن جاتا ہے، اور اس کا جواب بھی مشترکہ ہوتا ہے۔ یہی بات پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں بھی دہرائی گئی، جہاں ریڈیو پاکستان نے اسے دو طرفہ دفاعی تعلقات کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا۔

روزنامہ ڈان نے اسے صفحہ اول پر نمایاں جگہ دی اور واضح کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک ایسا فریم ورک طے کیا ہے جس میں ’ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ‘ کا اصول قانونی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ جیو نیوز کے تبصروں میں ماہرین نے اسے حیران کن نہیں بلکہ فطری ارتقا قرار دیا جو مشترکہ مشقوں اور عسکری ہم آہنگی کا حاصل ہے۔

سعودی میڈیا نے بھی اس معاہدے کو محض ایک خبر کے طور پر نہیں بلکہ ایک علامت کے طور پر پیش کیا۔ العربیہ انگلش اور سعودی پریس ایجنسی نے اس موقع کی کوریج کرتے ہوئے ریاض کے ٹاورز پر سبز وسفید روشنیوں کی جھلک دکھائی، اور سرکاری اعلامیے میں نمایاں انداز میں لکھا کہ دورے کے اختتام پر اسٹریٹیجک دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس سب کے پیچھے ایک سنجیدہ پیغام تھا کہ سعودیہ اور پاکستان اب اپنی سلامتی کی کہانی ایک مشترکہ صفحے پر لکھنے جا رہے ہیں۔

اس سب کو اگر تاریخی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ 2015 میں جب اسلامی فوجی اتحاد قائم ہوا تو اس کا صدر دفتر ریاض میں رکھا گیا اور اس کے پہلے کمانڈر پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنے۔ یہ عسکری رشتہ محض رسمی نہیں، عملی اور ادارہ جاتی ہے، جس کی ایک جھلک سالہا سال کی مشترکہ مشقوں مثلاً الصمصام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

جب معاہدے کے ساتھ معاشی پہلو کو جوڑ کر دیکھا جائے تو تصویر اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ 2019 میں شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری معاہدے طے پائے۔ ان میں توانائی، پیٹرو کیمیکل، معدنیات اور خوراک جیسے اہم شعبے شامل تھے۔ اس کے بعد بھی سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں جاری رہی، 2024 میں 2 ارب ڈالر کے مزید ایم او یوز پر دستخط ہوئے، اور 3 ارب ڈالر کا ڈپازٹ مسلسل پاکستان کی مالی بنیاد کو سہارا دیتا رہا۔ ان سب اقتصادی اقدامات کو دفاعی اشتراک سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہا۔

پاکستانی ترسیلات زر میں بھی سعودی عرب کی حیثیت ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ صرف مارچ اور جون 2025 کے اعداد وشمار دیکھے جائیں تو سعودی عرب سے بھیجی گئی رقوم تمام ممالک سے زیادہ تھیں۔ یہ انسانی اور مالی رشتہ اب دفاعی و معاشی شراکت کو ایک سماجی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے اس معاہدے کے حساس پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا۔ فائنانشل ٹائمز نے سعودی قیادت کی جوہری عدمِ پھیلاؤ سے وابستگی کو سراہا، جب کہ رائٹرز نے اس معاہدے کو ایک جامع دفاعی خاکے کے طور پر بیان کیا۔ بلومبرگ نے اسے علاقائی سیکیورٹی کے منظرنامے میں ایک نئے عنصر کے طور پر دیکھا جس سے آئندہ کسی بحران کی صورت میں ردِعمل کا دائرہ اور رفتار دونوں بدل سکتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا نے ایک اور پہلو پر بھی زور دیا، اور وہ یہ کہ اس معاہدے کے موقع پر وزیر اعظم، ولی عہد اور آرمی چیف تینوں کی مشترکہ موجودگی نے ملک میں سیاسی اور عسکری قیادت کے یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ صرف ایک رسمی تصویر نہیں تھی بلکہ ایک اسٹریٹیجک اشارہ ہے کہ ریاست اپنی تمام سطحوں پر اس معاہدے کی پشت پر کھڑی ہے۔

سعودی میڈیا میں بھی یہی تاثر دیا گیا کہ یہ طویل المیعاد مشاورت کا فطری نتیجہ ہے۔ شہزادہ خالد بن سلمان کا جملہ (ہم ایک ہی صف میں ہیں) اب سفارتی بیان سے بڑھ کر عوامی سطح پر وحدت کے بیانیے میں ڈھل چکا ہے۔

اگر دیکھا جائے کہ اس معاہدے سے پاک سعودی رشتہ کیسے بدلتا ہے، تو 3 باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ دفاع اور معیشت اب ایک دوسرے کی لازم و ملزوم شرائط بنتے جا رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عسکری ادارہ جاتی سطح پر اشتراک کو مزید منظم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ منصوبہ بندی اور انٹروپریبلٹی کے شعبے میں پیشرفت۔ تیسرا یہ کہ اس معاہدے میں ’صفر جمع‘ کا کھیل نہیں کھیلا گیا، بلکہ ریاض نے اسلام آباد کے ساتھ گہرائی بڑھاتے ہوئے بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بھی قائم رکھا ہے۔

آگے کیا ہو سکتا ہے؟ اگر دونوں ملک مشترکہ ورکنگ گروپس بنا کر عملی خاکہ ترتیب دیں، شعبہ وار تعاون کی ٹائم لائن طے کریں، اور معیشت کے بنیادی ستونوں کو اس دفاعی فریم ورک سے جوڑ دیں تو یہ معاہدہ صرف ایک اعلامیہ نہیں رہے گا بلکہ ایک قابلِ عمل حقیقت بن جائے گا۔ پاکستانی عوام کی طرف سے ہر ماہ سعودی عرب سے آنے والی ترسیلات زر اس وحدت کو زندہ رکھتی رہیں گی، اور یہ شراکت روزمرہ معیشت کا حصہ بن کر اور مضبوط ہو جائے گی۔

یہ معاہدہ درحقیقت ایک تاریخ کا اگلا باب ہے۔ ایک ایسا باب جس میں سعودیہ اور پاکستان اپنے دفاع کو ایک دوسرے کی تقدیر سے باندھ رہے ہیں۔ اور جب سعودی وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی صف میں ہیں، تو یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک قانونی، اخلاقی اور انتظامی عہد ہے، ایسا عہد جو اب تحریر سے عمل میں ڈھلنے کو ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

طلحہ الکشمیری

اسرائیل امریکا پاکستان خالد بن سلمان دفاعی معاہدہ سعودی عرب قطر

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ
  • سعودی عرب اور پاکستان میں دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے سے بھارت اور اسرائیل میں صف ماتم بھچی ہوئی ہے: مشاہد حسین سید 
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • بھارت کی مشکلات میں اضافہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے نے پاکستان کو کتنا مضبوط بنادیا؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل بھی سامنے آگیا
  • پاکستان اور فلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون کا اہم معاہدہ
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار