Express News:
2025-11-03@17:08:42 GMT

قومی سلامتی کمیٹی

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس میں پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی آبی جارحیت اور دیگر اقدامات کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے پاکستان نے بھارت سے ہر قسم کی تجارت، واہگہ بارڈر اور فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اورکہا ہے کہ پانی روکنے کو اعلان جنگ تصورکیا جائے گا۔ کمیٹی نے بھارت کی جانب سے دی گئی درپردہ دھمکیوں کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار قتل اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں پر توجہ دینی چاہیے۔

 بلاشبہ پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت نے بہت سوچا سمجھا رد عمل دیا ہے۔ بھارت اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ ملک کے شمالی حصے میں جنگ چھیڑے گا تو اُس جنگ کا دائرہ کار وہیں تک محدود رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی بھی جنگ وقت، دائرہ کار اور ہتھیاروں کے استعمال کی قید سے آزاد ہوگی، اگر بھارت جنگ کرنا چاہتا ہے تو اُسے اِس جنگ کی قیمت چکانا پڑے گی اور یہی پاکستان نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان پانی روکے جانے کے عمل کو اعلان جنگ سمجھے گا۔

بھارت آج اگر سندھ طاس معاہدے سے مُکر جاتا ہے تو اِس کے بعد بین الاقوامی معاہدات کو لے کر بھارت اپنا عالمی اعتبارکھو دے گا۔ بین الاقوامی معاہدات تو درکنارکثیر القومی معاہدات میں بھی بھارت کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جائے گا۔ بلاشبہ پاکستان کا ردعمل بہت نپا تلا ہے، ملکی دفاع کے لیے پوری قوم پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہے۔

پاکستان نے بھارتی مذموم دھمکیوں سے دو درجے اوپر جا کر بھارتی فیصلوں کو ’’ ایکٹ آف وار‘‘ قرار دیا ہے۔ تجارت، فضائی حدود اور ٹرانزٹ تجارت کی بندش سے ہندوستانی معیشت پر شدید اثر پڑے گا۔ شملہ معاہدہ اور دیگر دو طرفہ معاہدوں کی تقدیر اب پاکستان کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ ایک ہی جھٹکے میں مودی نے پہلگام کے احمقانہ اقدام سے 1971 کی ہندوستانی سفارتی کامیابی کو ختم کردیا۔ پاکستان کے تمام سفارتی اقدامات بھی بھارتی لاپرواہی سے ایک درجے اوپر ہیں۔ NSC کا بیان پاکستان کا واضح عکاس ہے۔

بھارت کا فالس فلیگ آپریشن کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنے کی ذہنی پسماندگی ہے۔ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی بلا امتیاز مذمت کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 کی دہائی میں پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی اورگارنٹی میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دریائی آبی وسائل کی تقسیم کا ایک مستقل حل فراہم کرتا ہے اور یقینا دونوں ممالک کی معیشت اور زراعت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو اور تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔

دو دن پہلے مقبوضہ کشمیرکے علاقے پہلگام میں جب ایک لوکل علیحدگی پسند تنظیم نے مسلح کارروائی کرکے وادی میں موجود 25 سے زائد بھارتی سیاحوں کو ہلاک اور 10 کو زخمی کردیا تو بھارتی حکومت نے اس حملے کا بھی ہمیشہ کی طرح بنا تحقیق و ٹھوس ثبوت، الزام پاکستان پہ لگاتے ہوئے رد عمل کے طور پہ دونوں ممالک کے درمیان موجود سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پہ معطل کرنے جیسا سنگین اقدام اٹھایا ہے۔

یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے کی روح کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت پہ آبی جارحیت سے کم کچھ نہیں۔ بھارت کا یہ موقف ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ ہونے دینے کا حق رکھتا ہے اور اپنے دریاؤں پر تعمیراتی کام اور ان کا پانی روکنے کا مجاز ہے۔

تاہم، سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو مغربی دریاؤں پر صرف محدود تعمیرات کی اجازت ہے، جن کا مقصد صرف بجلی کی پیداوار اور معمولی ذخیرہ ہوتا ہے اور وہ بھی اس شرط پرکہ اس سے پاکستان کے پانی کے حصے پر کوئی اثر نہ پڑے۔ عالمی بینک کی گارنٹی کے تحت ہوئے سندھ طاس معاہدے کی بھارت قانونی طور اور کسی بھی صورت میں خلاف ورزی کر کے پاکستان کا پانی بند نہیں کر سکتا۔ معاہدے کی شقوں کے تحت دونوں ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پانی کے حقوق کا احترام کریں گے۔ بھارت کی جانب سے کسی بھی یکطرفہ اقدام کو معاہدے کے تحت چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

اس معاہدے کی نگرانی اور تنازعات کے حل کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے، جو دونوں ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ تنازعہ کی صورت میں پہلے کمیشن سے رجوع کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ضرورت پڑنے پر ثالثی یا بین الاقوامی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر مختلف سطحوں پر مختلف نوعیت کے اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو اس معاملے کو بلا تاخیر انڈس کمیشن میں اٹھانا چاہیے، اگرکمیشن کے ذریعے مسئلہ حل نہیں ہوتا جوکہ موجودہ حالات میں نا ممکن نظر آتا ہے تو پھر پاکستان کو عالمی بینک کو ثالثی کے لیے مداخلت کی درخواست کر دینی چاہیے، کیونکہ عالمی بینک ہی اس معاہدے کا گارنٹر ہے۔ دوسری جانب، پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف یا بین الاقوامی ثالثی فورمز پر بھی لے جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہوئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو متاثرہ ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کرے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی خلاف ورزیوں کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرے اور معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھی لے جائے۔

اسی طرح اس ضمن میں پاکستان کے لیے سفارتی اقدامات بھی اہم ہیں۔ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھا کر دوست ممالک اور اتحادیوں کی جانب سے بھارت پر دباؤ بڑھا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق کرنے جیسے کسی اقدام سے باز رہے۔

سب سے اہم اور غور طلب نقطہ یہ ہے کہ اگر بھارت ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے بھی پانی روک دیتا ہے تو ایسی صورتحال میں پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے۔ اسے اپنی زراعت کو زندہ رکھنے اور اپنی سر سبز زمینوں کو بنجر ہونے سے بچانے کے لیے ایک جامع اور موثر منصوبہ بندی اور اس پہ فوری عمل درآمد کی ضرورت آن پڑی ہے۔

اس کے علاوہ، پاکستان کی حکومت کو عوام میں اس مسئلے کی اہمیت اجاگرکرنا ہو گی تاکہ نہ صرف قومی سطح پر کالا باغ جیسے اور مزید نئے ڈیمز کے لیے یکجہتی پیدا ہو سکے اور دستیاب وسائل سے بھارتی آبی جارحیت سے روکے گئے پانی کی کمی پوری کی جا سکے بلکہ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف ایک موثر اور قومی ردِعمل بھی دیا جا سکے۔ بھارت کے ایسے یک طرفہ اقدامات نہ صرف پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں بلکہ خطے میں امن و امان کے لیے بھی چیلنج ہیں۔ پانی کا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی متنازع ہے اور ایسے یک طرفہ اور سنگین اقدامات خطے میں مزید کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کی کشیدگی نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری فوری طور پہ بھارتی آبی جارحیت کا نوٹس لے اور ایسے سنگین اقدام کے خلاف اپنا موثر و مثبت کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کو پابند بنائے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی شقوں کا احترام کرے۔اسی طرح بھارت کی جانب سے پیدا کی گئی موجودہ سنگین صورتحال میں پاکستان کو اپنی سفارتی، قانونی اور سیاسی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ اب جہاں اسے ٹھوس انداز میں بھارت کے ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف عالمی سطح پر بھرپور اور موثر مہم چلانا ہوگی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہندو بنیا جو زبان سمجھتا ہے اسے اسی زبان میں منہ توڑ جواب بھی دیا جائے۔ اگر اگلے کچھ دنوں میں بھارتی حکمران ہوش کے ناخن نہیں لیتے اور سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کرتے تو پاکستان کو بھی شملہ معاہدے سمیت دیگر معاہدے یک طرفہ طور پہ معطل کر دینے چاہئیں تا کہ ہمارا کشمیر اور جونا گڑھ پر حق قائم ہو اور ہم کھل کر ان دونوں علاقوں کے عوام کی بھارت سے علیحدگی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے مدد کر سکیں۔ دراصل جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔

جنگ ایک آسان چیز نہیں حتیٰ کہ امریکا جیسا ملک بھی جنگ کے لیے اتحادی تلاش کرتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں اور بھارت گو کہ ایک بڑا ملک ہے لیکن اس کے معاشی مسائل بھی کم نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کے شدید ردعمل کے بعد فہم و فراست سے کام لیا جانا چاہیے۔ امریکا دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ بہت عجیب ہے۔ ان کا رویہ ڈرانے دھمکانے والا ہے۔

ایسی صورت میں دونوں ملکوں کو خود عملیت پسندی سے سوچنا ہوگا۔اب بال بھارتی کورٹ میں ہے لیکن جس طرح سے وہاں کے سیاست دانوں اور میڈیا نے اس معاملے پر انتہائی مبالغہ آمیز بیانیہ بنایا ہے اور ایک افراتفری کی فضا بنائی ہے، ایسی صورت میں چیزیں قابو سے باہر بھی ہو جاتی ہیں، لیکن امید کرنی چاہیے کہ دونوں ملکوں کے بیچ مزید تصادم اورکشیدگی نہیں ہو گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے بین الاقوامی ا بی جارحیت پاکستان کی عالمی بینک پاکستان کو پاکستان کے معاہدے کی اس معاہدے بھارت کو ہے کہ وہ کرتا ہے یک طرفہ کے خلاف کسی بھی سکتا ہے کا پانی بھارت ا کے بعد طور پہ کے تحت ہے اور کیا جا کے لیے

پڑھیں:

پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251102-09-4

 

محمد مطاہر خان

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔

اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔

وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔

بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • ریاست نئے مالیاتی معاہدے کی کھوج میں
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • وزیراعظم کی نواز شریف سے سیاسی، معاشی اور سلامتی امور پر مشاورت
  • قائمہ کمیٹی دفاع کی قومی ایئر لائن حکام کو طلب کرنے کی ہدایت
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کے 93 فیصد ارکان کروڑ و ارب پتی بن گئے، عوام بدحال؛ رپورٹ
  • حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
  • برطانیہ اور قطر کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط