بھارت نے 60 شادی شدہ خواتین کو پاکستان واپس آنے سے زبردستی روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) بھارت نے 60 خواتین کو زبردستی بھارت میں روک لیا، یہ خواتین انڈین شہری ہیں جن کی شادیاں پاکستانی شہریوں سے ہوئی ہیں اور یہ خواتین اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے ملنے بھارت گئی تھیں۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کا ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستان جانے والی 60 خواتین کو ملک چھوڑنے سے روک دیا ہے، بھارت کی جانب سے روکے جانے والی 60 خواتین کی شادیاں پاکستانی شہریوں سے ہوئی ہیں، ان خواتین کے پاس پاکستان کے طویل المدتی ویزے موجود ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کو بھی پاکستان واپسی سے روک دیا گیا ہے، بھارتی خواتین اپنے اہل خانہ عزیز و اقارب سے ملنے بھارت گئی تھیں، ان خواتین کو بھارتی شہر امرتسر کی انتظامیہ نے پاکستان واپسی سے روکا ہے۔پاکستان واپس آنے کی خواہشمند بھارتی خواتین گزشتہ 2 روز سے امرتسر میں پھنسی ہوئی ہیں، ان کو امرتسر سے کہیں اور جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
آرمی چیف کا نعرہ ’پاکستان ہمیشہ زندہ باد‘ ہر زباں کا ورد بن گیا، نیا نغمہ ریلیز
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
امرتسر سے سری نگر قتل عام کی سیاہ تاریخ
جون کا مہینہ بھارت میں سکھوں اور کشمیری مسلمانوں کے دو بدترین سانحات کی یاد دلاتا ہے۔ گولڈن ٹیمپل امرتسر اور سری نگر کے نواحی علاقے چھوٹا بازار میں بھارتی سیکورٹی اداروں نے نہتے شہریوں کا بیدردی سے قتل عام کیا۔ دونوں سانحات کے متاثرہ فریقین آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔
سانحہ گولڈن ٹیمپل عشروں پر محیط ریاستی جبر کی داستان کا اہم باب ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد، نہرو تاراسنگھ مفاہمت کے تحت جب سکھ برادری نے اپنی لسانی، ثقافتی اور مذہبی شناخت کے تحفظ کے لیے پنجابی صوبہ کے قیام کا مطالبہ کیا تو بھارت نے اس مطالبے کو علیحدگی پسندی، غداری اور خطرہ بنا کر پیش کیا۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو نے 1950 کی دہائی میں اکالی رہنما ماسٹر تارا سنگھ کو یقین دلایا تھا کہ ریاستوں کی لسانی بنیاد پر تشکیل کے دوران پنجابی زبان کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ مگر جب 1956 ء کا اسٹیٹس ری آرگنائزیشن ایکٹ منظور ہوا، تو پنجابی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ تامل، تیلگو، بنگالی کو علیحدہ ریاستیں ملیں، مگر سکھوں کو دھوکہ دیا گیا۔
پنجابی صوبہ کے مطالبے کو مذہبی انتہا پسندی کا رنگ دے کر بدنام کیا گیا۔ مرارجی دیسائی جیسے رہنمائوں نے سکھوں پر مذہبی ریاست قائم کرنے کا الزام لگایا۔ 1951 ء اور 1961 ء کی مردم شماری میں ریاستی مداخلت سے پنجابی زبان کے ساتھ کھلی زیادتی کی گئی۔ سرکاری دبائو کے تحت ہندی کو مادری زبان لکھوانے پر مجبور کیا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ پنجابی زبان کو اکثریت حاصل نہیں۔
صرف 1960 ء کی تحریک میں 57,000 سے زائد سکھوں کو گرفتار کیا گیا۔ اندرا گاندھی کے دور میں 1966 ء میں پنجابی صوبہ تو قائم ہوا، مگر اس کے ساتھ ایسی شرائط لگائی گئیں جنہوں نے سکھوں کے اعتماد کو مکمل طور پر چکناچور کر دیا۔ ہریانہ کو پنجاب سے الگ کر دیا گیا ۔
کئی پنجابی بولنے والے علاقے ہماچل پردیش کو دے دیے گئے۔اکال تخت سے خالصتان کے حق میں 41سال بعد سچ کی للکار پھر بلند ہوئی ہے- گولڈن ٹیمپل میں خالصتان زندہ باد کے نعرے دوبارہ گونجنے لگے ہیں۔
آپریشن بلیو اسٹار کی 41ویں برسی پر سکھوں کا پیغام واضح ہے؛ اب خاموشی نہیں، مزاحمت ہوگی۔ یکم تا 10جون تک ’’یادِ مظلومیت‘‘ کا عشرہ منایا جا رہا ہے۔ دل خالصہ نے امرتسر میں مارچ اور ہڑتال کی کال دے کر ثابت کر دیا کہ خالصتان کا مطالبہ صرف جذبہ نہیں، بلکہ زندہ تحریک ہے۔
سکھوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم مشہور زمانہ تنظیم دل خالصہ نے ’’نسل کشی یادگاری مارچ‘‘ منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ یہ مارچ گوردوارہ برج پھولا سنگھ سے اکال تخت تک نکالا گیا۔ جبکہ چھ جون کو بھارتی پنجاب کے اکثر علاقوں میں مکمل ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ پنجاب میں خالصتان کے حامی کارکنان اور تنظیموں نے گولڈن ٹیمپل قتل عام کی ۔ بی بی سی اردو نے سات جون کو شایع کردہ چشم کشا رپورٹ میں آپریشن بلیو اسٹار میں مارے جانے والے بے گناہ سکھوں کی لاشوں کو توہین آمیز طریقے سے نذر آتش کرنے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
کیول کمار امرتسر میونسپل کارپوریشن کے سابق صفائی اہلکار ہیں، جو آپریشن کے بعد لاشیں اٹھانے پر مامور کیے گئے۔ان کے مطابق لاشیں بازاروں، گلیوں، لنگر ہال اور دربار صاحب کے اندر تک بکھری ہوئی تھیں، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ لاشوں کو جانوروں کی طرح کچرے کی ٹرالیوں میں بھر کر لے جایا گیا اور سرکاری عملے کو شراب پلا کر یہ کام کروایا گیا۔چھوٹا بازار قتلِ عام کی تفصیلات بھی بہت دلخراش ہیں۔
11 جون 1991ء کو سرینگر، مقبوضہ جموں و کشمیر کے چھوٹا بازار میں بھارتی فورسز نے نہتے کشمیریوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس میں 32معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، شہید ہوئے۔ 34سال گزرنے کے باوجود متاثرین کو انصاف نہیں مل پایا۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ ریاست میں 30 سے زائد منظم حملوں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کو شہید کیا۔
چھوٹا بازار جیسے قتلِ عام کا مقصد کشمیریوں میں خوف پھیلانا ہے۔ بی جے پی کی شدت پسند حکومت نے سکھوں، کشمیری مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے لئے بھارت میں زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عالمی برادری کو اس ریاستی دہشت گردی اور منظم شدت پسندی کے خلاف راست اقدامات کرنے ہوں گے۔