Express News:
2025-06-11@19:30:21 GMT

قوم کو وژن چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں میں تقسیم دلی شہر‘ تین حصے مہاجنوں‘ انگریزوں اور گوجروں نے آپس میں تقسیم کرلیے تھے جب کہ چوتھا حصہ لال قلعے تک محدود تھا اور یہ بادشاہ کے قبضے میں تھا‘یہ قبضہ بھی نام کا رہ گیا تھا‘ بادشاہ شاہی برتن‘ سونے کی تلواریں اور تاج کے ہیرے بیچ کر خادموں کی تنخواہیں پوری کرتا تھا جس مہینے رقم نہیں ہوتی تھی اس ماہ قلعے کے ملازمین بھی شاہی احکامات ماننے سے انکار کر دیتے تھے جب کہ باقی دو اثاثے کبوتر بازی اور مشاعرے تھے‘ مشاعرے بادشاہ سلامت کی تفریح تھے۔

جب کہ کبوتر بازی شہزادے اور شہزادیاں پسند فرماتے تھے‘ بادشاہ سلامت ظہر کے وقت بیدار ہوتے تھے‘ خادم انھیں مالش اور غسل کے بعد مغرب تک بمشکل تیار کرتے تھے اور اذان کے ساتھ ہی ابراہیم ذوق حواریوں کے ساتھ تشریف لے آتے تھے اور اس کے بعد رات بھر مشاعرہ چلتا تھا۔ 

یہ محفل پرندوں کی آنکھ کھلنے کے بعد اختتام پذیر ہوتی تھی‘ شاہی پالکیاں جب نشے میں دھت شاعروں کو لے کر رخصت ہو جاتی تھیں تو بادشاہ سلامت کو ان کے خادم اٹھا کر خواب گاہ میں لے جاتے تھے‘ ان کا شاہی لباس اتارا جاتا تھا‘ انھیں ململ کے نرم کپڑے پہنائے جاتے تھے اور اس کے بعد ہندوستان کا والی ظہر تک بے سدھ پڑا رہتا تھا۔ 

دوسری طرف شہزادے اور شہزادیاں کبوتر بازی فرماتے تھے‘ ان سب کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ پائے کا قیمتی کبوتر تھا‘ یہ ان کا تبادلہ بھی کرتے تھے اور انھیں اڑا کر محل کی چھتوں پر جشن بھی مناتے تھے‘ محل میں روز سیکڑوں قسم کے کھانے بنتے تھے‘ شرابیں ایران‘ سمر قند اور انگلستان سے آتی تھی اور ان کا دور سارا دن ساری رات چلتا تھا۔ 

ان ثقافتی سرگرمیوں کا یہ نتیجہ نکلا 1857 کی جنگ شروع ہوئی‘ ہندوستانی سپاہی لال قلعہ پہنچے‘ بہادر شاہ ظفر کو گھوڑے پر بٹھانے کی کوشش کی وہ نہ بیٹھ سکا‘ اسے تلوار پکڑائی گئی‘ اس کے بازو تلوار کا وزن بھی برداشت نہ کر سکے لہٰذا مجبوراً اسے ہاتھی پر بٹھا دیا گیا لیکن وہ ہاتھی پر بھی زیادہ دیر نہ بیٹھ سکا۔

اس نے لشکر کی باقی قیادت لیٹ کر فرمائی‘ محل شہزادوں اور ان کے شہزادوں سے بھرا ہوا تھا لیکن ان میں سے ایک بھی ایسا جوان نہیں تھا جسے گھڑ سواری آتی ہو یا وہ تلوار چلا سکتا ہو یا اسے رائفل سے نشانہ لینا آتا ہو چناں چہ قیادت کے بحران کی وجہ سے تاریخ کا آخری موقع بھی ضائع ہو گیا۔ 

میجر ولیم ہڈسن 50 سپاہیوں کے ساتھ لاہور سے نکلا اور 72 گھنٹوں میں 152 میل کا سفر طے کر کے دلی پہنچ گیا‘ بہادر شاہ ظفر اس وقت اپنے دو شہزادوں اور پوتوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں پناہ گزین ہو چکا تھا‘ میجر ہڈسن باغیوں سے سرینڈر کراتا ہوا سیدھا ہمایوں کے مقبرے پر پہنچ گیا( ہڈسن نے 50 جوانوں کے ساتھ چھ ہزار باغیوں سے سرینڈر کرایا تھا) بہرحال قصہ مختصر بہادر شاہ ظفر نے جان بخشی کے عوض اپنا آپ میجر ہڈسن کے حوالے کر دیا‘ ہڈسن نے اس کے دو بیٹوں مرزا مغل اور مرزا سلطان اور پوتے مرزا ابوبکر کے سر کاٹ کر ٹرے میں رکھے‘ اس پر زری میز پوش ڈالا اور یہ ٹرے بطور تحفہ بادشاہ کو پیش کر دی اور یوں ہندوستان میں مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔

تاریخ آج تک حیران ہے ہندوستان میں پانچ سو سال پرانی اور مضبوط ترین سلطنت دنوں میں کیسے تباہ ہو گئی؟ اس کی بے شمار وجوہات تھیں لیکن آخری وجہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغل بادشاہ کے درمیان دفاعی معاہدہ بنا‘ انگریز نے بہادر شاہ ظفر کو پیش کش کی آپ‘ آپ کے خاندان اور سلطنت کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے‘ آپ کو فوج رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ آپ ہمیں بس اس کے بدلے ٹیکس جمع کرنے اور اپنی تجارتی کوٹھیاں بڑھانے کی رعایت دے دیں۔ 

بادشاہ فوج سے تنگ تھا‘ اس نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی‘ کمپنی سرکار نے اس کے بعد بادشاہ کو مشورہ دیا آپ شہزادوں کی عسکری ٹریننگ پر بھی پابندی لگا دیں اگر یہ ٹریننگ لیں گے تو یہ جہانگیر اور اورنگزیب کی طرح آپ کے خلاف بغاوت کردیں گے اور یوں آپ کا تخت خطرے میں پڑ جائے گا‘ بادشاہ کو یہ مشورہ بھی اچھا لگا چناں چہ اس نے شہزادوں کی عسکری تربیت پر پابندی لگا دی جس کے بعد مغلیہ خاندان کے صرف تین شغل رہ گئے۔

کبوتربازی‘ مشاعرے اور مجرے‘ یہ ان شغلوں سے فارغ ہوتے تھے تو کنیزوں اور طوائفوں کے پیچھے لپکنا شروع کر دیتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا جب 1857 کی جنگ آزادی شروع ہوئی تو امیر تیمور کی نسل میں لشکر کی قیادت کرنے والا ایک بھی شخص موجود نہیں تھا اوریوں پوری سلطنت دس دن میں ختم ہو گئی۔

بادشاہ کی اس بے وقوفی کو سیلف ہیلپ کی دنیا میں ’’وژن کی کمی‘‘ کہتے ہیں‘ مغلیہ سلطنت اور ہندوستان کے مسلمان دراصل وژن کی کمی کا لقمہ بن گئے‘ یہ اندازہ ہی نہ کر سکے دنیا میں گیم آف وار بدل چکی ہے‘ نئی وار ٹیکنالوجیزبھی آ چکی ہیں‘ تلوار کی جگہ رائفل اور منجنیق کی جگہ توپیں لے چکی ہیں‘ موٹر کاریں اور ٹینک تیار ہو چکے ہیں اور معیشت اور صنعت نام کی نئی طاقت بھی دنیا میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ 

ان لوگوں کو ان تبدیلیوں پر نظر رکھنی چاہیے تھی لیکن یہ اس کے بجائے حماقت اور خوش فہمی کے نقش کہن پر اڑے رہے اور یوں میجر ہڈسن نے صرف پچاس جوانوں کے ساتھ پانچ سو سال پرانی اور 30 کروڑ لوگوں کی سلطنت چند گھنٹوں میں زمین پر روند ڈالی اور پھر قصہ نہ رہا قصوں کے بازاروں میں۔

ہمارا آج بھی ماضی سے مختلف نہیں‘ مسلمان پوری دنیا بالخصوص ہندوستان اور پاکستان میں خوف ناک فکری مغالطے کا شکار ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہیں ہم صرف کلمہ پڑھ کر اللہ کی عزیز ترین قوم بن گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اب ہر قسم کی کوتاہی‘ خرابی اور ہڈحرامی کے باوجود فتح یاب کرے گا‘ اللہ کی نصرت بہرحال ہمارے دروازے پر ہی اترے گی لہٰذا ہم دنیا بھر سے جوتے کھا رہے ہیں۔ 

انسان دنیا میں دوست کی بجائے سب سے زیادہ دشمن سے سیکھ سکتا ہے‘ ہم مسلمان بھی اگر سیکھنا چاہیں تو اسرائیل سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ اسرائیل کا کل رقبہ 22 ہزار مربع کلو میٹر ہے اور یہ رقبہ بھی چار ملکوں سے چھین کرتخلیق کیا گیا‘ کل آبادی ایک کروڑ ہے لیکن یہ چھوٹا سا ملک دنیا کی 25 ویں بڑی معاشی طاقت ہے۔ 

اس کا جی ڈی پی 551 بلین ڈالر اور فارن کرنسی ریزروز 220 بلین ڈالرز ہیں‘ یہ کمال ہے لیکن اس سے بھی بڑا کمال دنیا کی 400 ہائی ٹیک ملٹی نیشنل کارپوریشنز ہیں‘ اینٹل ہو یا مائیکرو سافٹ‘ ایپل‘ گوگل‘ ہیولیٹ پیکرڈ‘ سسکو سسٹم‘ فیس بک یا پھر موٹرولا دنیا کی تمام بڑی ٹیک کمپنیوں کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر اسرائیل میں ہیں۔ 

آپ ان کا ڈیفنس سسٹم اور سفارت کاری بھی دیکھ لیں‘ حماس نے غزہ سے ان پر سات ہزار میزائل داغے اور اس کے بعد اسرائیل نے پورا غزہ تباہ کر دیا اور دنیا کے تمام بڑے ملک اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب کہ عالم اسلام صرف اپنے ملکوں میں مظاہر کر کے ہلکان ہو رہا ہے۔ 

اسرائیل کے گرد 22 اسلامی ملک ہیں اور ان میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں لیکن یہ غزہ کے مسلمانوں کو بچا سکے اور نہ اسرائیل کا ہاتھ روک سکے‘ آپ دنیا میں ایک اسلامی ملک بتائیں جو اس وقت کھل کر اسرائیل کی مخالفت کر رہا ہو‘ پوری اسلامی دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے سہم کر بیٹھی ہے‘ ان کا خیال ہے ہم نے اگر مظلوم فلسطین مسلمانوں کی بات کی تو ڈونلڈ ٹرمپ ہم پر معاشی پابندیاں لگا دے گا۔

لہٰذا یہ اب خانہ کعبہ میں بھی دعا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں‘ آپ پاکستان اور بھارت کی موجودہ کش مکش کو بھی دیکھ لیجیے‘ بھارت 2004سے کھل کر افغانوں کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے‘ یہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پر ہر سال 280 ارب روپے خرچ کرتا ہے‘ را نے دو برسوں میں پاکستان میں گھس کر 25 سابق کشمیری مجاہدین کو قتل کر دیا‘

کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتا ہے ہم معاشی طور پر کم زور ہیں‘ ہم جنگ افورڈ نہیں کر سکتے لہٰذا یہ ہماری اس کم زوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے‘ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اس بار پہلگام کے واقعے کے بعد ہم کھڑے ہو گئے اور بھارت کو طویل عرصے بعد ٹکر کے مقابلے کا سامنا ہے۔

لیکن سوال پھر وہی ہے‘ ہم اپنے ہاؤس کو ان آرڈر کیوں نہیں کرتے؟ ہم کشکول کی ذلت سے باہر کیوں نہیں آتے‘ اپنی کم زوری کو اپنی طاقت کیوں نہیں بناتے؟ یہ یاد رکھیں ہم پاکستانی جب تک معاشی طاقت نہیں بنیں گے ہم اس وقت تک عزت اور وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکیں گے۔

مسلم امہ بھی اس وقت تک غزہ کے مسلمانوں کی حفاظت نہیں کر سکے گی جب تک یہ معاشی اور دفاعی خود مختاری حاصل نہیں کرتی چناں چہ مسلم امہ کو مل کر معاشی اور ٹیکنیکل بلاک بنانا ہو گا‘ یہ اکٹھے ہوں‘عربی زبان کو 58 ملکوں کی سرکاری زبان بنائیں اور سرمایہ پول کر کے ٹیکنیکل اور معاشی سرگرمیوں پر سرمایہ کاری کریں‘ اپنا ڈیفنس بھی مضبوط کریں۔

دنیا کو علم ہونا چاہیے ہم نے اگر کسی ایک اسلامی ملک کو چھیڑا تو ہمیں 58 ملکوں اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا‘ پاکستان بھی اسی طرح ونس فار آل اپنی معاشی سمت درست کر لے‘ ملک میں جیسے تیسے سیاسی استحکام لے کر آئیں‘آئین کو مضبوط کریں اور پھر اسے توڑنا اور روندنا بند کریں‘ الیکشن کمیشن‘ عدلیہ اور بیوروکریسی کو آزاد کریں‘ اداروں کو مضبوط کریں اور ملک کو بزنس فرینڈلی بنائیں تاکہ ہم گردن سیدھی کر کے کھڑے ہو سکیں۔ 

اس کے بعدوہ وقت آئے گا جب دنیا ہماری طرف دیکھنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گی ورنہ آج پہلگام کے واقعے کی وجہ سے سرحدیں بند ہیں اور کل دہلی میں حملے کی وجہ سے فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہوں گی‘ ہمیں اپنا وژن کلیئر کرنا ہوگا اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن موجود نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر اس کے بعد کی وجہ سے دنیا میں تھے اور کے ساتھ ہیں اور نہیں کر اور ان اور اس

پڑھیں:

کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 جون 2025ء) بارہ سالہ ٹیناساؤ مشرقی مڈغاسکر کی ایک کان میں دن بھر رینگ کر دو کلو گرام چمک دار معدن مائیکا جمع کرتی ہیں۔ وہ ٹانگوں سے معذور ہونے کے باعث چل پھر نہیں سکتیں۔ مائیکا سے انہیں جو اجرت ملتی ہے اس سے ان کا گھرانہ روزانہ کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔

مڈغاسکر میں ٹیناساؤ جیسے 10 ہزار بچے مائیکا کی بے قاعدہ صنعت میں کام کرتے ہیں۔

یہ معدن رنگ و روغن، کاروں کے پرزوں اور جسمانی آرائش کے کام میں استعمال ہوتی ہے۔ Tweet URL

ان میں بہت سے بچے اپنے والدین اور دادا دادیوں کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

مائیکا جمع کرتے ہوئے گرد کے نقصان دہ ذرات سانس کے ذریعے ان کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس سے صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ان میں کئی بچے ایسے ہیں جو پہلے تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن جب انہیں اس کام پر مجبور ہونا پڑا تو ان کی پڑھائی چھوٹ گئی۔

ٹیناساؤ کے دادا بھی اسی کان میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام اب ان کے لیے آسان نہیں ہے لیکن اگر وہ اسے ترک کر دیں تو کھانا نہیں کھا پائیں گے۔

یہاں بقا کے لیے مردوخواتین اور بچوں سمیت سبھی کو کام کرنا پڑتا ہے۔

2015 میں اقوام متحدہ نے 2025 تک دنیا بھر سے بچہ مزدوری ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق، اس ہدف کے حصول کی جانب پیش رفت بہت سست ہے۔

دونوں اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 138 ملین بچے اب بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔

تاہم، یہ تعداد 2020 کے مقابلے میں 12 ملین کم ہے۔

'آئی ایل او' کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگ بو نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کے نتائج امید افزا ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیش رفت ممکن ہے لیکن اس کے لیے یہ حقیقت یاد رکھنا ہو گی کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔

مزدور بچوں کا خطرناک کام

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ 2000 کے بعد مزدور بچوں کی تعداد میں 100 ملین سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے پاس اس مسئلے پر قابو پانے کا خاکہ موجود ہے تاہم اس پر مزید کام ہونا چاہیے۔ بہت سے بچے کارخانوں، کھیتوں اور کانوں میں مشقت کرتے ہیں اور ان میں بیشتر کو اپنی بقا کے لیے خطرناک کام کرنا پڑتا ہے۔

'آئی ایل او' میں بچہ مزدوری کے مسئلے پر کام کرنے والے ماہر بنجمن سمتھ نے یو این نیوز کو بتایا کہ بچوں کا ہر کام بچہ مزدوری نہیں ہوتا بلکہ وہی کام اس ذیل میں آتا ہے جو بچوں کو ان کے بچپن سے محروم کر دے اور جس سے ان کی صحت و ترقی کو خطرہ ہو۔

دنیا بھر میں 54 ملین بچوں کو کان کنی سمیت خطرناک کام کرنا پڑتے ہیں۔ افریقی ملک بینن سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ ہونورائن بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ تعمیراتی مقصد کے لیے کھودے گئے ایک وسیع گڑھے سے بجری نکالنے کا کام کرتی ہیں اور انہیں فی ٹوکری کے حساب سے اجرت ملتی ہے۔ وہ ہیئر ڈریسر بننا چاہتی ہیں اور اس مقصد کو لے کر رقم جمع کرتی رہتی ہیں۔

Shoaib Tariq بہت سے بچے اپنے والدین اور دادا دادیوں کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔

نسل در نسل مزدوری

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری نسل در نسل چلتی ہے۔ ایسے بچوں کو عام طور پر تعلیم تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کے باعث وہ مستقبل کے مواقع سے محروم ہو جاتے ہیں اور اس طرح غربت کے دائمی چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔

'آئی ایل او' کے ماہر اور رپورٹ کے مرکزی مصںف فیڈریکو بلانکو نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو محض شماریاتی طور پر دیکھنا درست نہیں ہو گا۔

اس سے متعلقہ ہر ہندسے کے پیچھے ایک بچہ ہے جوتعلیم، تحفظ اور باوقار مستقبل کا حق رکھتا ہے۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی 13 سالہ نور کو ان کے والدین نے سکول سے اٹھا لیا تھا تاکہ وہ کوئی کام کر کے گھر چلانے میں مدد دیں۔ کیمپ کے قریب یونیسف کے ایک مرکز پر تعینات اہلکار نے انہیں کام کرتے دیکھا تو ان کے والدین سے بات کر کے انہیں دوبارہ سکول میں داخل کروایا۔

نور کا کہنا ہے کہ کبھی وہ استاد بننے کا خواب دیکھتی تھیں۔ تاہم جب انہیں سکول سے اٹھایا گیا تو انہوں نے سوچا کہ شاید اب وہ کبھی اپنا یہ خواب پورا نہیں کر سکیں گی۔ لیکن اب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے پڑھ لکھ کر استاد بننا ممکن ہے۔

کلی طریقہ کار کی ضرورت

یونیسف اور 'آئی ایل او'نے اس مسئلے کو تعلیمی، معاشی اور سماجی تناظر میں حل کرنے کے لیے حکومتوں کے تمام شعبوں کی جانب سے مربوط پالیسی اپنانے پر زور دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری کا خاتمہ کرنے کی کوششوں میں ان حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جن کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے بجائے کام پر بھیجتے ہیں۔

اس معاملے میں والدین کے لیے اجتماعی سودے بازی اور محفوظ کام کے حقوق بھی بہت اہم ہیں۔ سمتھ کا کہنا ہےکہ اگر بڑوں کو کام کے اچھے حالات میسر ہوں گے تو غربت میں کمی آئے گی جو لامحالہ بچہ مزدوری میں کمی پر منتج ہو گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے خطوں میں مزدور بچوں کی تعداد میں کسی نہ کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے۔ اس وقت ذیلی صحارا افریقہ کے ممالک میں اس مسئلے کی شدت دیگر جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جہاں دنیا کے دو تہائی بچہ مزدور پائے جاتے ہیں۔

© UNICEF/Shehzad Noorani دنیا بھر میں 54 ملین بچوں کو کان کنی سمیت خطرناک کام کرنا پڑتے ہیں۔

مشقت نہیں، تعلیم

کیتھریل رسل نے کہا ہے کہ امدادی وسائل کی قلت کے باعث بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے کڑی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیاں ضائع ہونےکا خدشہ ہے۔ سبھی کو یقینی بنانا ہو گا کہ بچے کام کی جگہوں کے بجائے کمرہ ہائے جماعت اور کھیل کے میدانوں میں ہوں۔

ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ ایڈوارا تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن انہیں مزدوری کرنا پڑتی ہے۔

چند سال قبل وہ پڑھائی بھی کرتے تھے لیکن مزدوری کی وجہ سے انہیں سکول سے چھٹیاں کرنا پڑتی تھیں۔ ایک روز ان کے استاد نے انہیں سکول سے نکال دیا۔ اب وہ سونے کی ایک کان میں کام کرتے ہیں جہاں انہیں روزانہ 35 ڈالر تک آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم حصول تعلیم کے لیے ان کا عزم ماند نہیں پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک روز وہ سکول جائیں گے اور کچھ بن کر دکھائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ
  • سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ
  • امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا: بلاول
  • امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا، بلاول
  • برٹش پاکستانی میئر صادق خان کوبرطانیہ کے بادشاہ چارلس نےنائٹ ہڈ کے اعزاز سے نوازا
  • برٹش پاکستانی میئر صادق خان کو نائٹ ہڈ کے اعزاز سے نواز دیا گیا
  • پاکستانی نژاد صادق خان کو سرکا خطاب مل گیا، بادشاہ چارلس نے اعلیٰ ترین اعزاز نائٹ ہڈ سے نوازدیا
  • ثنا یوسف کا قتل ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیے،آصفہ زرداری
  •  وزیراعظم پاکستان کو امریکی صدر ٹرمپ کو امن کا داعی نہیں قرار دینا چاہیے تھا، حبیب اللہ شاکر 
  • ٹھنڈ کا بادشاہ: سوئس ایتھلیٹ نے برف میں 2 گھنٹے گزار کر گنیز ریکارڈ توڑ دیا