ہمیں بھارت میں کھیلنے کا کوئی شوق نہیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
قومی ویمنز ٹیم کی اوپنر گل فیروزہ نے میگا ایونٹ سے قبل بھارت کو دوٹوک جواب دیکر خاموش کروادیا۔
پاکستان ویمنز ٹیم نے ہوم گراؤنڈ پر کھیلے گئے ورلڈکپ کوالیفائرز میں ناقابل شکست رہتے ہوئے بھارت میں شیڈول ویمنز ورلڈکپ میں جگہ بنائی۔
ویمنز ورلڈکپ رواں برس بھارت میں شیڈول ہے تاہم پاکستان کے کوالیفائی کرنے کے بعد اب ایونٹ ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیلا جائے گا۔
ادھر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بھارتی بورڈ اور حکومت پر واضح کرچکے ہیں کہ ایونٹ کیلئے پاکستانی ٹیم بھارت نہیں جائے گی۔
مزید پڑھیں: "ورلڈکپ؛ پاکستان ویمن ٹیم کو بھارت کے گروپ میں شامل نہ کیا جائے"
اس موقع پر گل فیروزہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اگلے عالمی ایونٹ میں شمولیت اسی فیوژن فارمولے کے تحت ہوگی، جس کا فیصلہ چیمپئینز ٹرافی سے قبل کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان ویمنز ٹیم کا ورلڈکپ کیلئے کوالیفائی کرنا بھارت کو مہنگا پڑگیا
انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہاں پر ایشین کنڈیشنز ہوں گی مگر ہم بھارت میں نہیں کھیلیں گے، یہ بالکل واضح ہے اور ویسے بھی ہمیں بھارت میں کھیلنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔
گل فیروزہ کا کہنا تھا کہ ہمارے میچز میچز سری لنکا یا دبئی میں ہوں گے جس کا ہمیں فائدہ ہوگا کیونکہ وہاں کنڈیشنز پاکستان کے جیسی ہی ہوں گی ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارت میں
پڑھیں:
تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟
تحریک انصاف اپنی ساری مقبولیت اور ایک صوبے میں اقتدار کے باوجود قومی دھارے سے دُور ہوتی جارہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایک سماجی المیہ ہے۔
سیاست کے سینے میں تو دل نہیں ہوتا لیکن سماجیات کے ماہرین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ تحریک انصاف کے وابستگان کو نفرت کے اس سونامی سے نکال کر ایک نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جاسکتا ہے۔
تحریک انصاف کوئی خلائی مخلوق نہیں جسے ہم جانتے نہ ہوں، یہ ہمارے ہی دوست ہیں، بھائی ہیں، رشتہ دار ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت کے روہے نارمل نہیں رہے۔ یہ ایک خاص کیفیت کا شکار ہیں۔ یہ چلتے پھرتے آتش فشاں بن چکے ہیں۔ عشروں کی دوستیاں پامال ہوچکی ہیں اور رشتے داؤ پر لگ گئے ہیں۔ نہ کوئی حفظ مراتب باقی بچا ہے نہ کوئی وضع اور حیا۔ رستم وہی ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت سے ایک درجے میں بے نیاز ہو۔
قریبی عزیزوں میں بھی نونہال موجود ہیں۔ پہلے پہل میں ان سے اختلاف کی جسارت کر لیتا تھا، اب ان سے خوف آتا ہے۔ دو لفظوں کے اختلاف سے یہ بھول جائیں گے کہ مخاطب کون ہے اور آپ سے کس رشتے میں بندھا ہے۔ یہ برسوں کا تعلق اور رشتے ایک طرف رکھ دیں گے اور سیدھے آپ کی دیانت پر حملہ آور ہوں گے۔ یہ 2 سیکنڈ میں آپ کو بددیانت، خائن، بے ایمان اور بکاؤ قرار دے دیں گے۔ یہی نہیں، یہ مرے مارنے پر اتر آئیں گے۔
آپ ان سے کسی بھی درجے میں اختلاف کرکے دیکھیں، یہ آپ کو سینگوں پر لے لیں گے۔ ان کے ہاں عزت، توقیر، حفظ مراتب، احترام کا ایک ہی پیمانہ باقی ہے اور وہ ہے عمران خان۔ اگر آپ عمران خان کو دنیا کا آخری ایماندار آدمی نہیں سمجھتے تو یہ آپ کو دنیا کے بدترین انسانوں میں شمار کریں گے۔
یہ کسی دلیل کو بھی نہیں مانتے۔ یہ اس تکلف سے بے نیاز ہیں۔ ان کی دلیل بھی صرف عمران خان صاحب ہیں۔ آپ ان سے بحث بھی نہیں کرسکتے کہ یہ دو فقروں بعد ہانپ جائیں گے اور اس کے بعد آپ کے دامن اور دستار کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
یہ بغیر کسی کارکردگی کے رستم ہیں۔ یہ دنیا کا آخری باشعور گروہ ہے لیکن اس باشعور گروہ سے آپ عثمان بزدار یا علی امین گنڈاپور کی کارکردگی کا سوال کرلیں تو یہ آپ کو ایسی ایسی گالیاں دیں گے کہ آپ کی کنپٹیاں سلگ اٹھیں گی۔ گالم گلوچ کے فن میں ان کا کوئی مقابل نہیں۔ یہ ایسی ایسی گالیاں دیتے ہیں جو آدمی نے کبھی سنی بھی نہیں ہوتیں۔ افسوس کہ اس فن میں کوئی نوبل انعام نہیں ملتا ورنہ یہ تاحیات ان ہی کے نام رہتا اور کوئی ورلڈ کپ ہوتا تو یہ بلامقابلہ ہی جیت جاتے۔
ان کے خیال میں ملک میں عمران خان کے علاوہ باقی سب چور ہیں۔ سب بددیانت اور خائن ہیں۔ یہ کسی سے بات کرنے کے روادار نہیں کیونکہ باقی سب تو چور ہیں۔ ان چورں میں سے کوئی اگر ان کی صف میں چلا جائے تو وہ راتوں رات متقی میوہ قرار پاتا ہے، اور متقی میووں میں سے کوئی انہیں چھوڑ کر چلا جائے تو اس سے بُرا آدمی آپ کو 7 براعظموں میں نہیں ملے گا۔
یقیناً تحریک انصاف کے سب کارکنان ایسے نہیں ہیں، بہت سارے اچھے بھی ہیں جو اپنی ساری اچھائی کے ساتھ آپ کو سمجھاتے ہیں کہ ہمارے نونہال اپنے چھینے گئے مینڈیٹ کی وجہ سے خفا ہیں اس لیے آپ ان کی گالیاں کھا کر بدمزہ نہ ہوں، صرف یہ دیکھیں کہ ان کے لب کتنے شیریں اور حسین ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ مینڈیٹ تو یہاں ہر ہارنے والے کا چوری ہی ہوا ہوتا ہے۔ کسی نے کبھی شکست مانی ہو تو بتائیے لیکن سچ یہ ہے کہ جب ان کا مینڈیٹ چوری نہیں ہوا تھا، جب وفاق میں ان کی حکومت تھی، جب یہ ایک پیج پر ڈی چوک میں ابرارالحق صاحب کی قیادت میں می رقصم تھے، تب بھی ان کی زبان کی کڑواہٹ ایسی ہی تھی۔ تب بھی یہ کسی دوسرے کے وجود کے قائل نہ تھے۔
ان کے نزدیک جج صرف وہ اچھا جو انہیں دیکھے تو وارفتگی میں پکار اٹھے: ’گڈ ٹو سی یو‘۔ صحافی صرف وہ اچھا جو ان کے ہر مخالف کو گالیاں دیتا رہے، آرمی چیف صرف وہ اچھا جو انہیں سایہ عاطفت میں شفقت پدری کے ساتھ رکھے۔
یہ کیفیت ایک سیاسی بحران نہیں، یہ ایک سماجی المیہ ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ معاشرے کی اخلاقی قدریں پامال کردی گئی ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ بدزبانی ہماری سیاست میں پہلے نہیں تھی۔ پہلے بھی تھی۔ لیکن اسے جس طرح ان لوگوں نے انسٹی ٹیوشنلائز کیا ہے وہ ایک مکمل تہذیبی المیہ ہے۔
یہ قومی دھارے سے کٹ چکے، یہ اجتماعی اخلاقیات سے بے نیاز ہوچکے۔ ان کے ہاتھوں نہ زندہ کو امان ہے نہ مرنے والوں کو۔ یہ ایک کلٹ بن چکے۔ کلٹ کی محبت میں یہ نہ ریاست کو خاطر میں لاتے ہیں نہ سماج کو۔ عام کارکنان سے لے کر ان کی قیادت تک، کلٹ کی عقیدت میں ایسا مبالغہ کرچکے کہ اسے بیان کرتے اور یہاں نقل کرتے بھی خوف آتا ہے۔
یقیناً یہ احوال سب کا نہیں، یقیناً یہ سب ایسے نہیں لیکن ان کا عمومی تاثر اب انہی کی چاند ماری کے مرہون منت ہیں جو ان خوبیوں کے مالک ہیں جو اوپر بیان کردی گئیں۔
لیکن یہ جیسے بھی ہیں، اس معاشرے کا حصہ ہیں، یہ ہمارے ہی پاکستانی بھائی ہیں، یہ ہمارے ہی بچے اور نوجوان ہیں۔ یہ ہمارے ہی دوست احباب اور رشتہ دار ہیں۔ انہیں اس نفسیاتی کیفیت سے نکالنا ہوگا اور نارمل زندگی کی طرف لانا ہوگا۔ جہاں یہ بے شک سیاست بھی کریں، اختلاف بھی کریں، تنقید بھی کریں، لیکن یہ سب ایک تہذیبی اور اخلاقی المیہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ یہ ایک شائستہ سیاسی عمل ہو۔
انہیں نارمل زندگی کی طرف لانے کا یہ کام روایتی سیاست کے کرنے کا نہیں ہے نہ ہی وہ کرسکتی ہے کیونکہ اس کی نفسیات حریفانہ ہے۔ جب کہ یہ کام خیر خواہی کا ہے۔ یہ بھاری پتھر سماجیات کے ماہریں اٹھا سکتے ہیں۔
تو کوئی ہے جو یہ کام کرسکے؟
یاد رکھیے، انہیں نفرت کی نہیں، خیر خواہی کی ضرورت ہے۔ یہ اس ملک کے نوجوان ہیں، یہ اس ملک کا سرمایہ ہیں۔ ان کی نفسیاتی بحالی کا کوئی جامع پروگرام شروع کیا جانا چاہیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔