گورنر اسٹیٹ بینک کی عالمی اداروں، سرمایہ کاروں کو بہتر معاشی منظرنامے پر بریفنگ
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جمیل احمد نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے دوران پاکستان کے میکرو اکنامک استحکام اور نقطہ نظر میں بہتری کا اعادہ کیا۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے سربراہ نے عالمی مالیاتی اور سرمایہ کاری اداروں بشمول جے پی مورگن، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، ڈوئچے، جیفریز اور اہم کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کے سینئر ایگزیکٹوز سے ملاقاتیں کیں، اور انہیں پاکستان کی جانب سے اپنی معیشت کے استحکام کے حوالے سے ہونے والی ٹھوس پیش رفت سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ایک دانشمندانہ مانیٹری پالیسی، مسلسل مالی استحکام کی کوششوں کے ساتھ مل کر ملک میں میکرو اکنامک استحکام کا باعث بنی ہے۔
جمیل احمد نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہیڈ لائن افراط زر میں تیزی سے کمی آئی ہے، اور مارچ میں یہ کئی دہائیوں کی کم ترین سطح 0.
مزید برآں بنیادی افراط زر بھی 22 فیصد سے کم ہو کر سنگل ڈیجٹ پر آ گیا، اور توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس میں مزید کمی آئے گی، ہیڈ لائن افراط زر 5 سے 7 فیصد کے ہدف کی حد میں مستحکم ہونے کی توقع ہے۔
بیرونی کھاتوں کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے بفرز میں نمایاں معیار ی اور مقداری بہتری آئی ہے، فروری 2023 ء میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس کے فارورڈ واجبات میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ریزرو کی تعمیر کے پچھلے واقعات کے برعکس ، بیرونی بفرز میں جاری اضافہ بیرونی قرضوں کے مزید جمع ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سرکاری شعبے کے بیرونی قرضوں میں جون 2022 کے بعد سے مطلق طور پر اور جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر کمی آئی ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بہتری اسٹیٹ بینک کی بیرونی جھٹکوں بشمول تجارت سے متعلق جاری عالمی غیر یقینی صورتحال کے خلاف معیشت کی لچک پیدا کرنے پر پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اسٹیٹ بینک نے بیرونی کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کے درمیان فاریکس خریداری کے ذریعے یہ بفرز بنائے ہیں، اسٹیٹ بینک جون 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر کو 14 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف رکھتا ہے۔
Post Views: 2ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے اس بات پر اسٹیٹ بینک
پڑھیں:
پولیس اسٹیٹ
سیلاب نے وسیب کے علاقے کو تباہ کردیا۔ احمد پور شرقیہ کا علاقہ بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکا۔ عرفان بلوچ کی عمر 15 سال تھی۔ وہ احمد پور شرقیہ میں اپنے والدین کے ساتھ مل کر مزدوری کرتا تھا۔ جب سیلاب نے روزگار کے دروازے بند کیے تو عرفان اپنے تین دوستوں کے ساتھ بس میں سوار ہو کر کراچی چلا آیا۔ کراچی کے علاقے بفرزون کی بی آر سوسائٹی میں اس کے ایک چچا رہتے ہیں۔
عرفان بدھ 22 اکتوبر کو اپنے دوستوں ناصر اور سلیمان کے ساتھ ناشتہ کرنے عائشہ منزل گیا جہاں وہ اور اس کے دوست ٹک ٹاک بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ کراچی پولیس کے انویسٹی گیشن یونٹ کے اہلکار اس علاقے میں ’’ شکار‘‘ کی تلاش میں تھے۔ ان اہلکاروں کو یہ تینوں نوجوان شکار کی صورت میں نظر آگئے۔ پولیس اہلکاروں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو استعمال کیا اور ان تینوں نوجوانوں کو زبردستی پولیس وین میں دھکیلا۔ ان کے موبائل فون چھین لیے گئے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں اور کسی نامعلوم سیف ہاؤس میں انھیں منتقل کردیا گیا۔ پھر ان بے گناہ نوجوانوں پر تھرڈ ڈگری تشدد کا آغاز ہوا۔
پتہ نہیں یہ پولیس والے ان نوجوانوں سے کتنے ناکردہ جرائم کا اقرار کروانا چاہتے تھے مگر 15 سالہ عرفان پولیس کے بیہمانہ تشدد کو برداشت نہ کرسکا اور جان کی بازی ہار گیا۔ عرفان کے ایک ساتھی نے رپورٹر کو بتایا کہ اگرچہ عرفان زندگی کی بازی ہار چکا تھا مگر یہ پولیس والے لاش پر بھی تشدد کرتے رہے۔ پولیس والوں نے اپنی مرضی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی، پولیس والے عرفان کی موت کو دل کا دورہ کی وجہ قرار دے رہے تھے مگر ڈاکٹر میں انسانیت موجود تھی لہٰذا پولیس والے اپنے مقصد میں ناکام رہے۔
پولیس سرجن نے مجسٹریٹ کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کرنے پر زور دیا اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عرفان کی موت بیہمانہ تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ عرفان کے چچا اور رشتے دار عرفان اور اس کے دوستوں کو تھانوں اور اسپتالوں میں تلاش کرتے رہے مگر کسی تھانے میں انھیں کوئی جواب نہ ملا۔ پولیس افسران نے 18 گھنٹوں بعد عرفان کے چچا کو تھانے بلایا اور عرفان کی موت کی اطلاع دی۔ پولیس افسران نے اس کے ساتھ عرفان کے دوستوں کی آنکھوں سے کالی پٹیاں اتار کر انھیں تھانے سے جانے کی اجازت دیدی۔ عرفان کے لواحقین نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سہراب گوٹھ کے قریب عرفان کی میت کے ساتھ احتجاج کیا۔
کچھ لمحہ بعد پولیس فورس فوراً موقع پر پہنچی اور ٹریفک کو متبادل راستوں پر منتقل کیا۔ عرفان کے لواحقین کئی گھنٹوں تک احتجاج کرتے رہے لیکن کوئی وزیر یا پولیس کا افسر ان کی داد رسی کے لیے نہیں آیا، صرف پولیس افسران نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور آخر پولیس حکام مجبور ہوئے کہ وہ کئی سپاہیوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کریں۔
اس سے پہلے پولیس حکام نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لیے صدر تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کی تھی جس میں اسلحہ کی برآمدگی کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ممنوعہ مقامات کی وڈیو بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر دیگر نوجوانوں کی رہائی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ایف آئی آر جھوٹی تھی۔ ناصر اور سلیمان نے بتایا کہ ہم تو عائشہ منزل کے پل کے نیچے ٹک ٹاک بنا رہے تھے، وہاں تو کوئی ممنوعہ مقام موجود نہیں۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تشدد میں ملوث کئی سپاہی گرفتار ہوگئے ہیں اور اب یہ مقدمہ مزید تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کے سپرد کردیا گیا ہے ، یوں اب ایف آئی اے کے افسران کا امتحان کا وقت آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کو تھانے میں عرفان کے قتل کا نوٹس لینا چاہیے۔ عدالت کی مداخلت سے ہی ان ملزمان کو قرار واقعی سزا مل سکتی ہے، مگر عرفان پہلا فرد نہیں ہے جو بے گناہ تھا اور پولیس کے تشدد سے جان سے گیا۔
ایسے سیکڑوں افراد ہیں جو گزشتہ کئی برسوں میں پولیس کے تشدد کا شکار ہوئے۔ گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں میرپور خاص کے محکمہ صحت کے ڈاکٹر شاہنواز کو پولیس نے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا۔ انھیں کراچی سے تھرپارکر لے جایا گیا جہاں ایک نام نہاد پولیس مقابلے میں ڈاکٹر شاہنواز کو قتل کردیا گیا۔ بعد میں ایک ہجوم نے ان کی میت کو نذرآتش کیا، اس مقدمے کا پوری دنیا میں چرچا ہوا۔ سندھ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس واقعے کا نوٹس لینا پڑا۔ ڈاکٹر شاہنواز کے قتل میں ڈی آئی جی کی سطح کے افسران شامل تھے۔
ان پولیس والوں کو گرفتار کیا گیا۔ یہ مقدمہ ابھی تک زیرِ سماعت ہے مگر اب مقدمہ میں ملوث پولیس افسران کو ان کے عہدوں پر بحال کردیا گیا ہے۔ 2018 میں عرفان جیسا ایک نوجوان نقیب اللہ محسود پولیس کے تشدد کا شکار ہوا۔ نقیب اللہ جس کا تعلق وزیرستان سے تھا سہراب گوٹھ کے علاقے میں مقیم تھا۔ اس علاقے میں پولیس کا اسپیشل یونٹ متحرک تھا۔ راؤ انوار اس یونٹ کی سربراہی کررہے تھے۔ یہ نوجوان بھی پولیس تشدد کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گیا۔ پولیس کے اسپیشل یونٹ نے اس وقت نقیب اللہ محسود کو طالبان دہشت گرد قرار دیا۔ مگر نقیب اللہ محسود کی برادری نے سپرہائی وے پر دھرنا دے دیا۔
یہ دھرنا کئی دن تک جاری رہا۔ پھر یہ دھرنا شمالی وزیرستان تک پھیل گیا۔ منظور پشتین نے اس دھرنے کی قیادت سنبھال لی۔ اس قتل کی تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ نقیب اللہ محسود ایک غریب شخص تھا جو شاید روزگار کے حصول کے لیے کراچی آیا تھا۔ اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت کئی پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ راؤ انوار اپنی گرفتاری قبل از وقت ضمانت کے لیے سپریم کورٹ تک گئے، بہرحال پولیس افسروں کے خلاف مقدمہ تو چلا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی سرد پڑگیا۔
اسی واقعے کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران پختون تحفظ موومنٹ PTM قائم ہوئی۔ اس تحریک نے خیبر پختون خوا میں طالبان دہشت گردی کے خلاف عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جرائم کی بیٹ پر کام کرنے والے ایک سینئر صحافی کہتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو یہ ہے کہ پولیس بے گناہ افراد کو پکڑتی ہے، ان پر تشدد کر کے ان کے لواحقین سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دوران پولیس بدترین تشدد اس لیے کرتی ہے کہ وہ کسی جرم کا اقرار کر لیں، یوں زبردستی اقرارِ جرم کرانے کی کوشش میں کمزور افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
پولیس ان افراد کا انکاؤنٹر کرتی ہے جو معروف مجرم سمجھے جاتے ہیں۔ پولیس والوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ عدالتوں سے انھیں سزا نہیں ہوسکتی، اس بناء پر پولیس کو خود ان افراد کو قتل کرنا چاہیے۔ یہ صورتحال پورے ملک کی ہے مگر گزشتہ ایک سال سے پنجاب میں یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اس سال کے 9 ماہ کے دوران پنجاب میں 500 سے زائد افراد پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس صورتحال پر سخت تشویش ہے۔