ڈاکٹر کارل ساگان: حیات و خدمات
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
کارل ایڈورڈ ساگان (Carl edward sagan) بیسویں صدی کے ایک نام ور ماہر فلکیات، ماہر حیاتیاتی فلکیات، مصنف، اور سائنسی ابلاغ کے ماہر تھے۔ وہ سائنس کو عام فہم انداز میں بیان کرنے اور عوام میں سائنسی شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے معروف تھے۔
انہوں نے فلکیاتی تحقیق میں انقلابی نظریات پیش کیے، سیاروں کے ماحول کو سمجھنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اور سائنسی فکر کو فروغ دینے میں بنیادی حیثیت حاصل کی۔ ان کی سائنسی جستجو اور عوامی دلچسپی نے فلکیات کے میدان میں نئی راہیں کھولیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
کارل ساگان 9 نومبر 1934ء کو نیویارک، امریکا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیموئیل ساگان یہودی نژاد ملبوسات کے تاجر تھے، جب کہ والدہ ریچل مولڈاؤ ساگان ایک گھریلو خاتون تھیں۔ بچپن سے ہی کارل ساگان کا ذہن فلکیات اور سائنس کی طرف مائل تھا۔ انہوں نے 1951ء میں راہوے ہائی اسکول سے گریجویشن کیا اور 1955ء میں شکاگو یونیورسٹی سے طبیعیات میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1960ء میں اسی یونیورسٹی سے فلکیات اور فلکی طبیعات میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
ان کی ابتدائی زندگی سے ہی سائنس سے محبت نمایاں تھا۔ کارل ساگان کی سائنسی خدمات کا دائرہ کار فلکیات، حیاتیاتی فلکیات (Astrobiology)، اور فلکی طبیعات (Astrophysics) تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے زمین سے باہر زندگی کی تلاش اور سیاروی سائنس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کی۔ ان کی اہم خدمات درج ذیل ہیں:
سیاروں کے ماحول پر تحقیق اور ناسا سے وابستگی: کارل ساگان نے ناسا کے مختلف منصوبوں میں شمولیت اختیار کی، جن میں وائکنگ، وائجر، اور گلیلیو مشنز شامل ہیں۔ انہوں نے زمین سے باہر ذہین مخلوق کے امکانات کے بارے میں بھی تحقیق کی اور سیٹی (SETI - Search for Extraterrestrial Intelligence) منصوبے کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ سیٹی کا مقصد کائنات میں دیگر ذہین مخلوقات کی تلاش تھا۔
پایونیر اور وائجر پیغام: ساگان نے پایونیر 10 اور 11 خلائی مشنز کے لیے ایک خصوصی پیغام تیار کیا، جس میں انسانی نسل اور زمین کے بارے میں بنیادی معلومات دی گئی تھیں، تاکہ اگر کوئی غیر زمینی مخلوق ان خلائی جہازوں کو دریافت کرے تو وہ زمین اور انسانیت کے بارے میں جان سکے۔ اسی طرح وائجر گولڈن ریکارڈ بھی انہی کی نگرانی میں تیار کیا گیا، جس میں مختلف زبانوں میں پیغامات، انسانی آوازیں، موسیقی، اور زمین کی تصاویر شامل کی گئیں۔
کارل ساگان نہ صرف ایک عظیم سائنس دان تھے بلکہ سائنسی ابلاغ کے بھی ماہر تھے۔ انہوں نے عام لوگوں کو سائنسی علوم سے روشناس کرانے کے لیے کئی اہم سائنسی اقدام کیے، ساگان نے اپنی تحقیقی زندگی کا آغاز کارنیل یونیورسٹی سے کیا، جہاں وہ 1968ء میں فلکیاتی اور سیاروی علوم کے پروفیسر بنے۔ انہوں نے مختلف تحقیقی منصوبوں میں کام کیا، جن میں ناسا کے مریخ، وینس اور مشتری کے مشن شامل تھے۔
وہ وائیجر اسپیس کرافٹ کے ’’گولڈن ریکارڈ‘‘ پروجیکٹ کے مرکزی معماروں میں شامل تھے، جس کا مقصد زمین سے باہر کسی بھی ممکنہ ذہین مخلوق کے لیے انسانی تہذیب کا تعارف فراہم کرنا تھا۔ کارل ساگان نے زمین سے باہر زندگی (ایکسٹراٹریسٹریل لائف) کی تلاش کے حوالے سے غیرمعمولی تحقیق کی۔ انہوں نے زمین جیسے دیگر سیاروں کی موجودگی کے نظریے کو سائنسی بنیادوں پر پرکھا اور اس امکان کو مضبوط کیا کہ کائنات میں زندگی دیگر مقامات پر بھی موجود ہوسکتی ہے۔ ان کے اہم کاموں میں زمین کے ماحولیاتی مسائل پر تحقیق، گرین ہاؤس ایفیکٹ، اور سیاروی فزکس شامل تھے۔
مشہور تصانیف
ساگان نے متعدد سائنسی کتابیں تحریر کیں، جو آج بھی سائنس اور فلکیات کے حوالے سے انتہائی مستند سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی چند معروف کتابیں درج ذیل ہیں:
(1980) Cosmos : کاسموس یہ کتاب فلکیات، سائنسی تاریخ اور انسانی تہذیب کے ارتقاء پر ایک عظیم تحقیقی کام ہے، جس پر مشتمل ٹی وی سیریز بھی بنائی گئی۔
(1977) The Dragons of Eden انسانی دماغ کی ارتقائی تاریخ پر ایک غیرمعمولی کتاب، جس پر انہیں پلٹزر انعام سے نوازا گیا۔
(1994) Pale Blue Dot : اس کتاب میں ساگان نے زمین کی حیثیت کو کائنات میں ایک معمولی نقطے کے طور پر پیش کیا اور اس کی حفاظت کی اہمیت اجاگر کی۔
(1995) The Demon-Haunted World : اس میں سائنسی سوچ اور منطق کی وضاحت کی گئی ہے اور سائنسی جہالت کے خلاف ایک مضبوط دلیل پیش کی گئی ہے۔
’’کاسموس‘‘ سیریز اور عوامی آگاہی
1980ء میں ان کی تحریر کردہ اور میزبانی میں چلنے والی ٹی وی سیریز ’’Cosmos: A Personal Voyage‘‘ سائنس کے عوامی فروغ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ یہ اب تک کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سائنسی دستاویزی فلموں میں شمار کی جاتی ہے اور 60 سے زیادہ ممالک میں نشر کی جا چکی ہے۔ اس سیریز نے لاکھوں لوگوں کو فلکیات اور سائنسی سوچ سے روشناس کرایا۔
آخری دن اور میراث
ساگان نے تین شادیاں کیں، جن میں این ڈرائیئن ان کی آخری شریک حیات تھیں۔ 1996ء میں ساگان کو مائیلو ڈسپلاسٹک سنڈروم نامی بیماری لاحق ہوئی، جو بعد میں لیوکیمیا (خون کا کینسر) میں تبدیل ہوگئی۔ طویل علاج کے باوجود وہ 20 دسمبر 1996ء کو 62 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے سائنسی نظریات اور تصانیف نئی نسلوں کو متاثر کر رہی ہیں۔
ساگان کی خدمات کا تسلسل
ساگان کی یاد میں متعدد سائنسی ادارے اور منصوبے شروع کیے گئے، جن میں ’’کارل ساگان انسٹی ٹیوٹ‘‘ اور ناسا کے مختلف تحقیقی منصوبے شامل ہیں۔ ان کے نظریات آج بھی سائنسی برادری میں تحقیق و جستجو کا ذریعہ ہیں۔کارل ساگان نے فلکیات، سائنسی آگاہی اور ماورائے ارضی زندگی کی تلاش میں غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ ان کی کتابیں اور ’’کوسموس‘‘ جیسی سیریز آج بھی سائنسی معلومات کا قیمتی خزانہ سمجھی جاتی ہیں۔ وہ ایک ایسا نام ہیں جو سائنس کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
زمین کی اہمیت اور انسانیت کے مستقبل پر ان کا نظریہ
اپنی مشہور کتاب Pale Blue Dot میں انہوں نے ناسا کی وائیجر 1 خلائی جہاز کی کھینچی گئی ایک تصویر کو بنیاد بنا کر کہا کہ زمین کائنات میں ایک چھوٹا سا نیلا نکتہ ہے، اور یہی ہماری واحد جائے پناہ ہے۔ انہوں نے انسانوں کو اپنی ذمے داری کا احساس دلاتے ہوئے زمین کے وسائل کو ضائع نہ کرنے اور عالمی امن کی ضرورت پر زور دیا۔
خلائی مشنز میں سائنسی قیادت
ساگان نے مریخ، مشتری، زحل، اور دیگر سیاروں کی تحقیق کے لیے بھیجے گئے کئی اہم خلائی مشنز میں سائنسی مشیر اور تحقیقاتی ماہر کے طور پر کام کیا۔ خاص طور پر:
مارینر 9: یہ پہلا مشن تھا جس نے مریخ کے مکمل نقشے تیار کیے، اور ساگان کی قیادت میں مریخ پر آتش فشانی پہاڑوں اور وادیوں کی دریافت ہوئی۔
وائجر 1 اور 2: ان خلائی جہازوں نے مشتری، زحل، یورینس، اور نیپچون کی تفصیلی تصاویر اور ڈیٹا فراہم کیا، جن کی تشریح میں ساگان کا کلیدی کردار تھا۔
وائکنگ مشن: ناسا کے وائکنگ 1 اور 2 مشنز مریخ پر اترے اور پہلی بار زمین سے باہر زندگی کے ممکنہ آثار تلاش کیے گئے۔
تہذیبوں کے عروج و زوال پر سائنسی نقطۂ نظر
کارل ساگان نے سائنسی اصولوں کو انسانی تہذیبوں کے عروج و زوال سے جوڑ کر دیکھا اور وضاحت کی کہ اگر انسان اپنی سائنسی ترقی کو درست سمت میں نہ لے کر گیا تو وہی انجام ہو سکتا ہے جو ماضی کی کئی تہذیبوں کا ہوا۔
ایکسوپلانٹس (دوسرے نظام شمسی کے سیارے) کی تلاش
ساگان نے ابتدائی طور پر ان نظریات پر کام کیا جو بعد میں دوسرے ستاروں کے گرد گھومنے والے سیاروں (Exoplanets) کی تلاش میں مددگار ثابت ہوئے۔ آج جدید دور میں ہزاروں ایکسوپلانٹس دریافت کیے جا چکے ہیں، جن میں کئی ایسے ہیں جو زندگی کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں۔
جوہری عدم پھیلاؤ کی حمایت
کارل ساگان نے ہمیشہ جوہری ہتھیاروں کے تجربات اور ممکنہ جنگوں کے خلاف آواز اٹھائی اور یہ وضاحت کی کہ جوہری جنگ کے نتائج زمین کے ماحول کے لیے کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
کائنات میں ذہانت کی اوسط عمر پر تحقیق
ساگان نے اس نظریے پر بھی تحقیق کی کہ ایک ذہین تہذیب اوسطاً کتنے عرصے تک قائم رہ سکتی ہے؟
کیا کوئی تہذیب جو ہزاروں سال سے موجود ہو، آج بھی کہکشاں میں کہیں آباد ہوسکتی ہے؟
’’پیلے نیلے نقطے‘‘ (Pale Blue Dot) کا فلسفہ
کارل ساگان کے سب سے مشہور تصورات میں سے ایک Pale Blue Dot ہے، جو زمین کی ایک تصویر پر مبنی تھا جو Voyager 1 نے 6 بلین کلومیٹر کے فاصلے سے لی تھی۔ اس تصویر کو دیکھ کر ساگان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ: کائنات میں زمین محض ایک چھوٹا سا نقطہ ہے، جو ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہمیں آپس میں محبت، ہم دردی، اور امن و آشتی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اس نے انسانوں کو یہ احساس دلایا کہ ہماری ساری جنگیں، نفرتیں، اور سرحدیں بے معنی ہیں کیوںکہ پوری انسانیت ایک ہی سیارے پر رہتی ہے جو بے پناہ وسیع کائنات میں ایک تنہا نقطہ ہے۔
مریخ پر انسانی بستیاں بسانے کے امکانات
ساگان نے تجویز دی کہ مریخ کو ایک دن انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ وہ مریخ پر "Terraforming" (کسی سیارے کو زمین جیسا بنانے کا عمل) پر یقین رکھتے تھے اور اس پر تحقیق کی۔ ان کا نظریہ تھا کہ اگر مریخ پر ماحول کو مصنوعی طور پر تبدیل کیا جائے، تو وہاں ایک مستقل انسانی تہذیب بسائی جا سکتی ہے۔ آج SpaceX اور NASA جیسے ادارے ان کے انہی خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جدید خلائی پروگراموں پر اثرات:
کارل ساگان کی تحقیق اور نظریات نے ناسا کے کئی مشنز پر اثر ڈالا، جن میں شامل ہیں:
Missions Voyager نے سیاروں کی تصاویر بھیجیں اور جنھوں نے کائنات کی وسعت کو مزید واضح کیا۔
Rovers Mars ، جو مریخ کی سطح کی تحقیق کر رہے ہیں۔
kepler space telescope، جو زمین جیسے سیاروں کو تلاش کر رہا ہے۔
کارل ساگان کی خدمات اور تحقیقات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے، جو صرف فلکیات تک محدود نہیں بلکہ سائنسی فکر، فلسفہ، موسمیاتی تبدیلی، مصنوعی ذہانت، اور انسانی تہذیب کے مستقبل جیسے اہم موضوعات پر بھی محیط ہے۔
ان کے خیالات آج بھی سائنسی دنیا میں راہ نمائی کا ذریعہ ہیں، اور ان کی سوچ نے ہمیں یہ سکھایا کہ کائنات کو سمجھنا درحقیقت خود کو سمجھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ کارل ساگان جدید سائنس کے سب سے بڑے مبلغین میں سے ایک تھے۔ انہوں نے نہ صرف فلکیاتی سائنس میں نمایاں تحقیق کی بلکہ عوام میں سائنسی شعور کو فروغ دینے کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔ ان کا کام آج بھی سائنس دانوں، طلبہ، اور عام قارئین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی تحریریں اور نظریات دنیا بھر میں سائنسی فکر کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کارل ساگان نے انسانی تہذیب ا ج بھی سائنس زمین سے باہر کائنات میں اور سائنسی اور انسانی اور سائنس تحقیق کی انہوں نے کے ماحول ساگان کی میں ایک زمین کے کی تلاش زمین کی ناسا کے اور ان پیش کی کے لیے
پڑھیں:
’ڈاکٹر چکر لگوا رہے تھے، چیٹ جی پی ٹی نے مرض کی تشخیص کر کے زندگی بچا لی
واشنگٹن(انٹرنیشنلڈیسک)امریکہ میں ایک خاتون نے کہا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نے ان کے اندر ”پوشیدہ کینسر“ کا پتا لگانے میں مدد کی جس کی علامات انہوں نے ڈاکٹر کو بتائیں لیکن انہوں اسے نظر انداز کر کے کسی اور مرض کی تشخیص کردی۔
فوکس نیوز کے مطابق 40 سالہ لورین بینن نے تیزی سے وزن کم ہونے اور معدے میں درد کی شکایت پر ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے وجہ آرتھرائٹس یا معدے کی خرابی بتائی۔
لورن، جو ایک مارکیٹنگ کمپنی کی مالک ہیں، پھر انتھائی تکلیف دہ پیٹ کے درد میں مبتلا ہو گئیں اور صرف ایک ماہ میں 14 پاؤنڈ وزن کھو بیٹھیں، جسے ڈاکٹروں نے ایسڈ ریفلکس قرار دیا۔
خاتون نے چیٹ جی پی ٹی پر اپنی علامات کے بارے میں لکھا تو جواب آیا کہ انہیں ”ہیشیموتو“ (کینسر کی ایک قسم) ہے اور جب ٹیسٹ کروایا تو معلوم ہوا کہ چیٹ جی پی ٹی ٹھیک کہہ رہا ہے۔
ٹیسٹ سے پتا چلا کہ ان کی گردن پر دو چھوٹی رسولیاں ہیں جو کینسر ثابت ہوئیں۔
لورین کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر مجھے صرف چکر لگوا رہے تھے، میں بہت مایوس تھی اور جاننا چاہتی تھی کہ آخر مجھے کیا ہوا ہے۔ لیکن جو جواب مجھے چاہیے تھا وہ نہیں مل رہا تھا۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے چیٹ جی پی ٹی پر جاننے کی کوشش کی جس نے مرض کے بارے میں بتایا اور کہا کہ تھائیرائڈ کا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئی جس نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس مرض کی میری کوئی فیملی ہسٹری نہیں ہے۔
لورین کا کہنا تھا کہ میرے اندر ہیشیموتو مرض کی علامات نہیں تھیں، مجھے تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اگر میں چیٹ جی پی ٹی پر نہ دیکھتی تو کینسر میرے جسم میں پھیل جاتا۔ چیٹ جی پی ٹی نے میری زندگی بچائی ہے۔
مزیدپڑھیں:سونے کی قیمتوں میں پھر یکدم ہزاروں روپے کی کمی