Express News:
2025-11-05@02:36:11 GMT

ڈاکٹر کارل ساگان: حیات و خدمات

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

کارل ایڈورڈ ساگان (Carl edward sagan) بیسویں صدی کے ایک نام ور ماہر فلکیات، ماہر حیاتیاتی فلکیات، مصنف، اور سائنسی ابلاغ کے ماہر تھے۔ وہ سائنس کو عام فہم انداز میں بیان کرنے اور عوام میں سائنسی شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے معروف تھے۔

انہوں نے فلکیاتی تحقیق میں انقلابی نظریات پیش کیے، سیاروں کے ماحول کو سمجھنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اور سائنسی فکر کو فروغ دینے میں بنیادی حیثیت حاصل کی۔ ان کی سائنسی جستجو اور عوامی دلچسپی نے فلکیات کے میدان میں نئی راہیں کھولیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

کارل ساگان 9 نومبر 1934ء کو نیویارک، امریکا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیموئیل ساگان یہودی نژاد ملبوسات کے تاجر تھے، جب کہ والدہ ریچل مولڈاؤ ساگان ایک گھریلو خاتون تھیں۔ بچپن سے ہی کارل ساگان کا ذہن فلکیات اور سائنس کی طرف مائل تھا۔ انہوں نے 1951ء میں راہوے ہائی اسکول سے گریجویشن کیا اور 1955ء میں شکاگو یونیورسٹی سے طبیعیات میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1960ء میں اسی یونیورسٹی سے فلکیات اور فلکی طبیعات میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔

ان کی ابتدائی زندگی سے ہی سائنس سے محبت نمایاں تھا۔ کارل ساگان کی سائنسی خدمات کا دائرہ کار فلکیات، حیاتیاتی فلکیات (Astrobiology)، اور فلکی طبیعات (Astrophysics) تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے زمین سے باہر زندگی کی تلاش اور سیاروی سائنس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کی۔ ان کی اہم خدمات درج ذیل ہیں:

 سیاروں کے ماحول پر تحقیق اور ناسا سے وابستگی: کارل ساگان نے ناسا کے مختلف منصوبوں میں شمولیت اختیار کی، جن میں وائکنگ، وائجر، اور گلیلیو مشنز شامل ہیں۔ انہوں نے زمین سے باہر ذہین مخلوق کے امکانات کے بارے میں بھی تحقیق کی اور سیٹی (SETI - Search for Extraterrestrial Intelligence) منصوبے کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ سیٹی کا مقصد کائنات میں دیگر ذہین مخلوقات کی تلاش تھا۔

 پایونیر اور وائجر پیغام: ساگان نے پایونیر 10 اور 11 خلائی مشنز کے لیے ایک خصوصی پیغام تیار کیا، جس میں انسانی نسل اور زمین کے بارے میں بنیادی معلومات دی گئی تھیں، تاکہ اگر کوئی غیر زمینی مخلوق ان خلائی جہازوں کو دریافت کرے تو وہ زمین اور انسانیت کے بارے میں جان سکے۔ اسی طرح وائجر گولڈن ریکارڈ بھی انہی کی نگرانی میں تیار کیا گیا، جس میں مختلف زبانوں میں پیغامات، انسانی آوازیں، موسیقی، اور زمین کی تصاویر شامل کی گئیں۔

کارل ساگان نہ صرف ایک عظیم سائنس دان تھے بلکہ سائنسی ابلاغ کے بھی ماہر تھے۔ انہوں نے عام لوگوں کو سائنسی علوم سے روشناس کرانے کے لیے کئی اہم سائنسی اقدام کیے، ساگان نے اپنی تحقیقی زندگی کا آغاز کارنیل یونیورسٹی سے کیا، جہاں وہ 1968ء میں فلکیاتی اور سیاروی علوم کے پروفیسر بنے۔ انہوں نے مختلف تحقیقی منصوبوں میں کام کیا، جن میں ناسا کے مریخ، وینس اور مشتری کے مشن شامل تھے۔

وہ وائیجر اسپیس کرافٹ کے ’’گولڈن ریکارڈ‘‘ پروجیکٹ کے مرکزی معماروں میں شامل تھے، جس کا مقصد زمین سے باہر کسی بھی ممکنہ ذہین مخلوق کے لیے انسانی تہذیب کا تعارف فراہم کرنا تھا۔ کارل ساگان نے زمین سے باہر زندگی (ایکسٹراٹریسٹریل لائف) کی تلاش کے حوالے سے غیرمعمولی تحقیق کی۔ انہوں نے زمین جیسے دیگر سیاروں کی موجودگی کے نظریے کو سائنسی بنیادوں پر پرکھا اور اس امکان کو مضبوط کیا کہ کائنات میں زندگی دیگر مقامات پر بھی موجود ہوسکتی ہے۔ ان کے اہم کاموں میں زمین کے ماحولیاتی مسائل پر تحقیق، گرین ہاؤس ایفیکٹ، اور سیاروی فزکس شامل تھے۔

مشہور تصانیف

ساگان نے متعدد سائنسی کتابیں تحریر کیں، جو آج بھی سائنس اور فلکیات کے حوالے سے انتہائی مستند سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی چند معروف کتابیں درج ذیل ہیں:

 (1980)  Cosmos : کاسموس یہ کتاب فلکیات، سائنسی تاریخ اور انسانی تہذیب کے ارتقاء پر ایک عظیم تحقیقی کام ہے، جس پر مشتمل ٹی وی سیریز بھی بنائی گئی۔

 (1977) The Dragons of Eden انسانی دماغ کی ارتقائی تاریخ پر ایک غیرمعمولی کتاب، جس پر انہیں پلٹزر انعام سے نوازا گیا۔

 (1994) Pale Blue Dot :  اس کتاب میں ساگان نے زمین کی حیثیت کو کائنات میں ایک معمولی نقطے کے طور پر پیش کیا اور اس کی حفاظت کی اہمیت اجاگر کی۔

(1995) The Demon-Haunted World :  اس میں سائنسی سوچ اور منطق کی وضاحت کی گئی ہے اور سائنسی جہالت کے خلاف ایک مضبوط دلیل پیش کی گئی ہے۔

’’کاسموس‘‘ سیریز اور عوامی آگاہی

1980ء میں ان کی تحریر کردہ اور میزبانی میں چلنے والی ٹی وی سیریز ’’Cosmos: A Personal Voyage‘‘ سائنس کے عوامی فروغ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ یہ اب تک کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سائنسی دستاویزی فلموں میں شمار کی جاتی ہے اور 60 سے زیادہ ممالک میں نشر کی جا چکی ہے۔ اس سیریز نے لاکھوں لوگوں کو فلکیات اور سائنسی سوچ سے روشناس کرایا۔

آخری دن اور میراث

ساگان نے تین شادیاں کیں، جن میں این ڈرائیئن ان کی آخری شریک حیات تھیں۔ 1996ء میں ساگان کو مائیلو ڈسپلاسٹک سنڈروم نامی بیماری لاحق ہوئی، جو بعد میں لیوکیمیا (خون کا کینسر) میں تبدیل ہوگئی۔ طویل علاج کے باوجود وہ 20 دسمبر 1996ء کو 62 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے سائنسی نظریات اور تصانیف نئی نسلوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

ساگان کی خدمات کا تسلسل

ساگان کی یاد میں متعدد سائنسی ادارے اور منصوبے شروع کیے گئے، جن میں ’’کارل ساگان انسٹی ٹیوٹ‘‘ اور ناسا کے مختلف تحقیقی منصوبے شامل ہیں۔ ان کے نظریات آج بھی سائنسی برادری میں تحقیق و جستجو کا ذریعہ ہیں۔کارل ساگان نے فلکیات، سائنسی آگاہی اور ماورائے ارضی زندگی کی تلاش میں غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ ان کی کتابیں اور ’’کوسموس‘‘ جیسی سیریز آج بھی سائنسی معلومات کا قیمتی خزانہ سمجھی جاتی ہیں۔ وہ ایک ایسا نام ہیں جو سائنس کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

زمین کی اہمیت اور انسانیت کے مستقبل پر ان کا نظریہ

اپنی مشہور کتاب Pale Blue Dot میں انہوں نے ناسا کی وائیجر 1 خلائی جہاز کی کھینچی گئی ایک تصویر کو بنیاد بنا کر کہا کہ زمین کائنات میں ایک چھوٹا سا نیلا نکتہ ہے، اور یہی ہماری واحد جائے پناہ ہے۔ انہوں نے انسانوں کو اپنی ذمے داری کا احساس دلاتے ہوئے زمین کے وسائل کو ضائع نہ کرنے اور عالمی امن کی ضرورت پر زور دیا۔

خلائی مشنز میں سائنسی قیادت

ساگان نے مریخ، مشتری، زحل، اور دیگر سیاروں کی تحقیق کے لیے بھیجے گئے کئی اہم خلائی مشنز میں سائنسی مشیر اور تحقیقاتی ماہر کے طور پر کام کیا۔ خاص طور پر:

مارینر 9: یہ پہلا مشن تھا جس نے مریخ کے مکمل نقشے تیار کیے، اور ساگان کی قیادت میں مریخ پر آتش فشانی پہاڑوں اور وادیوں کی دریافت ہوئی۔

وائجر 1 اور 2: ان خلائی جہازوں نے مشتری، زحل، یورینس، اور نیپچون کی تفصیلی تصاویر اور ڈیٹا فراہم کیا، جن کی تشریح میں ساگان کا کلیدی کردار تھا۔

وائکنگ مشن: ناسا کے وائکنگ 1 اور 2 مشنز مریخ پر اترے اور پہلی بار زمین سے باہر زندگی کے ممکنہ آثار تلاش کیے گئے۔

تہذیبوں کے عروج و زوال پر سائنسی نقطۂ نظر

کارل ساگان نے سائنسی اصولوں کو انسانی تہذیبوں کے عروج و زوال سے جوڑ کر دیکھا اور وضاحت کی کہ اگر انسان اپنی سائنسی ترقی کو درست سمت میں نہ لے کر گیا تو وہی انجام ہو سکتا ہے جو ماضی کی کئی تہذیبوں کا ہوا۔

ایکسوپلانٹس (دوسرے نظام شمسی کے سیارے) کی تلاش

ساگان نے ابتدائی طور پر ان نظریات پر کام کیا جو بعد میں دوسرے ستاروں کے گرد گھومنے والے سیاروں (Exoplanets) کی تلاش میں مددگار ثابت ہوئے۔ آج جدید دور میں ہزاروں ایکسوپلانٹس دریافت کیے جا چکے ہیں، جن میں کئی ایسے ہیں جو زندگی کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں۔

جوہری عدم پھیلاؤ کی حمایت

کارل ساگان نے ہمیشہ جوہری ہتھیاروں کے تجربات اور ممکنہ جنگوں کے خلاف آواز اٹھائی اور یہ وضاحت کی کہ جوہری جنگ کے نتائج زمین کے ماحول کے لیے کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔

کائنات میں ذہانت کی اوسط عمر پر تحقیق

ساگان نے اس نظریے پر بھی تحقیق کی کہ ایک ذہین تہذیب اوسطاً کتنے عرصے تک قائم رہ سکتی ہے؟

کیا کوئی تہذیب جو ہزاروں سال سے موجود ہو، آج بھی کہکشاں میں کہیں آباد ہوسکتی ہے؟

’’پیلے نیلے نقطے‘‘ (Pale Blue Dot) کا فلسفہ

کارل ساگان کے سب سے مشہور تصورات میں سے ایک Pale Blue Dot ہے، جو زمین کی ایک تصویر پر مبنی تھا جو Voyager 1 نے 6 بلین کلومیٹر کے فاصلے سے لی تھی۔ اس تصویر کو دیکھ کر ساگان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ: کائنات میں زمین محض ایک چھوٹا سا نقطہ ہے، جو ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہمیں آپس میں محبت، ہم دردی، اور امن و آشتی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اس نے انسانوں کو یہ احساس دلایا کہ ہماری ساری جنگیں، نفرتیں، اور سرحدیں بے معنی ہیں کیوںکہ پوری انسانیت ایک ہی سیارے پر رہتی ہے جو بے پناہ وسیع کائنات میں ایک تنہا نقطہ ہے۔

مریخ پر انسانی بستیاں بسانے کے امکانات

ساگان نے تجویز دی کہ مریخ کو ایک دن انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ وہ مریخ پر "Terraforming" (کسی سیارے کو زمین جیسا بنانے کا عمل) پر یقین رکھتے تھے اور اس پر تحقیق کی۔ ان کا نظریہ تھا کہ اگر مریخ پر ماحول کو مصنوعی طور پر تبدیل کیا جائے، تو وہاں ایک مستقل انسانی تہذیب بسائی جا سکتی ہے۔ آج SpaceX اور NASA جیسے ادارے ان کے انہی خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جدید خلائی پروگراموں پر اثرات:

کارل ساگان کی تحقیق اور نظریات نے ناسا کے کئی مشنز پر اثر ڈالا، جن میں شامل ہیں:

Missions Voyager نے سیاروں کی تصاویر بھیجیں اور جنھوں نے کائنات کی وسعت کو مزید واضح کیا۔

Rovers Mars ، جو مریخ کی سطح کی تحقیق کر رہے ہیں۔

kepler space telescope، جو زمین جیسے سیاروں کو تلاش کر رہا ہے۔

کارل ساگان کی خدمات اور تحقیقات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے، جو صرف فلکیات تک محدود نہیں بلکہ سائنسی فکر، فلسفہ، موسمیاتی تبدیلی، مصنوعی ذہانت، اور انسانی تہذیب کے مستقبل جیسے اہم موضوعات پر بھی محیط ہے۔

ان کے خیالات آج بھی سائنسی دنیا میں راہ نمائی کا ذریعہ ہیں، اور ان کی سوچ نے ہمیں یہ سکھایا کہ کائنات کو سمجھنا درحقیقت خود کو سمجھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ کارل ساگان جدید سائنس کے سب سے بڑے مبلغین میں سے ایک تھے۔ انہوں نے نہ صرف فلکیاتی سائنس میں نمایاں تحقیق کی بلکہ عوام میں سائنسی شعور کو فروغ دینے کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔ ان کا کام آج بھی سائنس دانوں، طلبہ، اور عام قارئین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی تحریریں اور نظریات دنیا بھر میں سائنسی فکر کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کارل ساگان نے انسانی تہذیب ا ج بھی سائنس زمین سے باہر کائنات میں اور سائنسی اور انسانی اور سائنس تحقیق کی انہوں نے کے ماحول ساگان کی میں ایک زمین کے کی تلاش زمین کی ناسا کے اور ان پیش کی کے لیے

پڑھیں:

اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7

کائنات اپنی وسعت میں ہمیشہ انسان کو حیرت زدہ کرتی آئی ہے۔ آسمان کی بے پناہ گہرائی میں جب کوئی نیا مظہر ظاہر ہوتا ہے تو نہ صرف فلکیات کی دنیا میں ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے بلکہ انسان کے ذہن و شعور میں بھی نئی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک ایسا ہی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے جس نے ماہرین فلکیات کو حیران اور عام انسان کو متجسس بنا دیا ہے۔ ناسا نے اعلان کیا ہے کہ ایک پراسرار خلائی جسم ناقابلِ یقین تیزی کے ساتھ سورج کے نظام میں داخل ہورہا ہے۔ اس جسم کو عارضی طور پر A11pl3Z کا نام دیا گیا ہے اور اس کی رفتار تقریباً دو لاکھ پینتالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ رفتار کسی عام شہابیے یا دمدار ستارے کی نہیں بلکہ ایک ایسے اجنبی مہمان کی ہے جو خلا کی تاریکی سے آکر ہماری سائنس اور فلکیات کو نئے سوالات میں الجھا رہا ہے۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی میں اجنبی مہمان آیا ہو۔ اس سے قبل بھی دو بین النجومی اجسام کی دریافت ہوچکی ہے جنہیں سائنس کی تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے۔ پہلا Oumuamua تھا جو 2017ء میں دریافت ہوا۔ اس کی شکل لمبوتری اور چپٹی تھی اور اس نے سورج کی کشش کے برعکس عجیب انداز میں حرکت کی، جس پر بعض سائنس دانوں نے حتیٰ کہ مصنوعی ہونے کا شبہ بھی ظاہر کیا۔

دوسرا مہمان 2I/Borisov تھا جو 2019ء میں دریافت ہوا اور ایک عام دمدار ستارے کی طرح نظر آیا، تاہم اس کا مدار سورج کی کشش سے آزاد تھا اور وہ محض ایک زائر کی حیثیت سے آیا اور گزر گیا۔ اب یہ تیسرا مہمان A11pl3Z ہے، جو اپنے حجم اور غیرمعمولی حرکت کی وجہ سے سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

اس A11pl3Z کو ناسا کے ATLAS سسٹم نے 25 جون کو دریافت کیا۔ یہ جسم اپنے ساتھ کئی سوالات لے کر آیا ہے۔ عام دمدار ستارے جب سورج کے قریب آتے ہیں تو ان کے گرد روشنی کا ایک ہالہ یا ’’کُما‘‘ بنتا ہے اور ان کی ایک دم بھی نظر آتی ہے جو سورج سے مخالف سمت میں پھیلتی ہے۔ لیکن اس جسم کے گرد نہ کوئی کُما ہے اور نہ ہی دم۔ اس لیے اس کے کومیٹ ہونے پر شکوک ہیں۔ اگر یہ شہابیہ ہے تو بھی اس کا برتاؤ عام شہابیوں جیسا نہیں۔ اس کا مدار سورج کی کشش کے تابع نہیں بلکہ ہائپربولک ہے، یعنی یہ یہاں کچھ وقت کے لیے آئے گا اور پھر واپس گہرے خلا میں نکل جائے گا۔

سائنس دانوں نے اس کے حجم کا تخمینہ 10 سے 20 کلومیٹر لگایا ہے، جو کسی چھوٹے شہر کے برابر ہے۔ یہ اگر واقعی ایک ٹھوس شہابیہ یا اجنبی پتھریلا جسم ہے تو اپنی جسامت کے اعتبار سے انسانوں کی دریافت کردہ سب سے بڑے بین النجومی اجسام میں شمار ہوگا۔ لیکن اس کی سب سے بڑی پہچان اس کی رفتار ہے جو اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے کسی بھی عام جسم سے بڑھ کر ہے۔ یہاں تک کہ Oumuamua اور 2I/Borisov بھی اس رفتار کے قریب نہیں پہنچتے۔

فلکیاتی ماہرین اس وقت اپنی جدید ترین رصدگاہوں کو اس پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ، جو کائنات کی سب سے طاقتور آنکھ سمجھی جاتی ہے، اور ویرہ سی روبن آبزرویٹری، دونوں اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یورپی خلائی ادارے کے سائنس داں رچرڈ موئسل کا کہنا ہے کہ اگر یہ کومیٹ ہے تو اس کا برتاؤ غیرمعمولی ہے، اور اگر یہ کچھ اور ہے تو یہ ہماری فلکیاتی درجہ بندی کو ہی بدل کر رکھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئی تصویر اور ہر نیا ڈیٹا پوری دنیا کے ماہرین کی دل چسپی کا مرکز بن رہا ہے۔

یہ جسم رواں ماہ مریخ کے قریب سے گزرے گا اور دسمبر میں زمین کے قریب ترین ہوگا۔ لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت زمین سورج کے مخالف حصے میں ہوگی، لہٰذا کسی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود یہ واقعہ انسانی ذہن کو جھنجھوڑتا ہے کہ کائنات میں کتنے ہی اجسام انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہیں اور ہم اکثر ان کے بارے میں بے خبر رہتے ہیں۔ ناسا کے ایک ماہر مارک نوریس نے کہا ہے کہ ایسے دس ہزار تک اجسام بیک وقت ہمارے نظامِ شمسی میں موجود ہوسکتے ہیں جنہیں ہم اب تک دریافت ہی نہیں کرپائے۔

یہاں ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ بین النجومی اجسام اپنے ساتھ کائنات کے دور دراز خطوں کے ذرات اور مواد لاتے ہیں۔ ان میں کاربن مرکبات، نامیاتی سالمات اور حیات کے اجزائے ترکیبی شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ اجسام زمین یا کسی اور سیارے سے ٹکرائیں یا اس کے قریب سے گزریں تو وہ وہاں زندگی کے بیج ڈال سکتے ہیں۔ یوں A11pl3Z جیسا مہمان ممکنہ طور پر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ زندگی کا آغاز کس طرح ہوا اور یہ کہ کائنات کے مختلف خطوں میں سیاروں کا باہمی تعلق کس انداز سے وجود میں آتا ہے۔

اس سے قبل Oumuamua کے بارے میں بھی یہ قیاس کیا گیا تھا کہ شاید وہ کسی اجنبی تہذیب کی باقیات یا خلائی جہاز ہو۔ اگرچہ یہ خیال سائنسی برادری میں متفقہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، مگر اس نے یہ بحث ضرور چھیڑ دی کہ ہم کائنات کے واحد باشعور باشندے نہیں بھی ہوسکتے۔ A11pl3Z کی غیرمعمولی رفتار اور منفرد حرکت اسی طرح کے سوالات کو پھر سے زندہ کر رہی ہے۔ کیا یہ واقعی محض ایک بے جان پتھر ہے؟ یا یہ کسی اور دنیا کا کوئی اور تحفہ ہے؟

اس معاملے کا ایک فلسفیانہ پہلو بھی ہے۔ کائنات اتنی وسیع ہے کہ ہمارا نظامِ شمسی اس کے مقابلے میں ایک ننھے ذرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ایسے میں جب کوئی اجنبی جسم اربوں میل دور سے آکر ہمارے قریب سے گزرتا ہے تو یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی علم دوستی اور تجسس کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ ہم جتنا جانتے ہیں، اتنا ہی یہ احساس بڑھتا ہے کہ کائنات کے راز ابھی کھلنے باقی ہیں۔

ماہرین کے نزدیک آنے والے چند ماہ انتہائی اہم ہوں گے۔ جیسے جیسے یہ جسم زمین اور مریخ کے قریب سے گزرے گا، ہمیں اس کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل ہوں گی۔ اس کی سطح کی ساخت، اس کے رنگ اور اس کی حرکت کے معمولات سے شاید یہ طے ہوسکے کہ یہ شہابیہ ہے، دمدار ستارہ ہے یا پھر کوئی نیا اور غیرمتوقع مظہر ہے۔ اگر یہ واقعی کچھ ایسا نکلتا ہے جسے ہم پہلے کبھی نہ جانتے تھے تو یہ دریافت ہماری فلکیاتی درجہ بندی کو بدل ڈالے گی۔

سائنس کی دنیا میں ہر نئی دریافت ایک نئی بحث کو جنم دیتی ہے۔ A11pl3Z بھی ایک ایسا ہی موقع ہے۔ یہ ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے نظریات کو پرکھیں، اپنے سوالات کو وسیع کریں اور اپنی سائنس کو مزید تحقیق کی طرف لے جائیں۔ یہ محض ایک جسم نہیں بلکہ ایک سوال ہے جو کائنات نے ہماری طرف پھینکا ہے۔ اور سوالات ہی انسان کو علم کے سفر پر آگے بڑھاتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ کائنات ہمیں اپنے راز آہستہ آہستہ کھول کر دکھا رہی ہے۔ کبھی Oumuamua آتا ہے، کبھی Borisov، اور اب A11pl3Z۔ شاید کل کوئی اور اجنبی مہمان ہماری کہکشاں کا سفر کرتے کرتے ہمارے پاس سے گزر جائے۔ ہر نیا مہمان ہمارے لیے ایک آئینہ ہے، جو ہمیں ہماری اپنی محدودیت کا احساس دلاتا ہے اور ہماری جستجو کو زندہ رکھتا ہے۔

علاوہ ازیں ماہرینِ فلکیات نے مذید حیرت انگیز انکشاف کیا ہے جس نے پوری دنیا کے سائنسی حلقوں میں دلچسپی پیدا کر دی ہے۔ یونیورسٹی آف ہوائی کے ماہرین کے مطابق زمین کے قریب ایک نیا فلکیاتی جسم دریافت ہوا ہے جو گزشتہ 60 برسوں سے زمین کے ساتھ ساتھ گردش کر رہا تھا، مگر اپنی معمولی جسامت اور مدھم روشنی کے باعث انسانی نگاہوں سے پوشیدہ رہا۔ اس خلائی پتھر کو 2025 PN7 کا نام دیا گیا ہے، اور ماہرین اسے زمین کا ‘‘دوسرا چاند’’ یا ‘‘شب قمر’’ (quasi-moon) قرار دے رہے ہیں۔

یہ فلکیاتی جسم سورج کے گرد تقریباً زمین کے مساوی مدار میں گھومتا ہے۔ اس کی حرکت اس قدر ہم آہنگ ہے کہ گویا یہ زمین کے ساتھ خلا میں سفر کر رہا ہو۔ اگرچہ یہ زمین کی کششِ ثقل سے براہِ راست منسلک نہیں، لیکن اس کا مدار نہایت نازک توازن میں قائم ہے، جس کے باعث یہ بظاہر زمین کی پیروی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مداری دور زمین کے بالکل برابر ہے، اور یہی ہم آہنگی اسے ایک ایسے فلکیاتی مظہر میں بدل دیتی ہے جو زمین کا دوسرا چاند محسوس ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دریافت فلکیاتی علوم میں ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔ ماڈلز کے مطابق 2025 PN7 آئندہ چھے دہائیوں تک زمین کے ساتھ اپنی موجودہ حالت میں گردش کرتا رہے گا اور ’’quasi-satellite‘‘ کی حیثیت برقرار رکھے گا۔ یہ جسم دراصل Arjuna group سے تعلق رکھتا ہے، جو Apollo asteroids کے زیرِزمرہ آتے ہیں، ایسی کائناتی چٹانیں جو زمین کے ساتھ 1:1 مداری گونج (orbital resonance) میں حرکت کرتی ہیں۔ یہ انکشاف ماہرینِ فلکیات کو زمین کے گرد اجسام کی حرکات، کششی اثرات اور مداروں کے پیچیدہ توازن کے بارے میں جدید ماڈل تیار کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔

تحقیقات کے مطابق 2025 PN7 کا قطر 19 سے 30 میٹر کے درمیان ہے۔ یہی چھوٹا سائز اور مدھم چمک اس کے طویل عرصے تک پوشیدہ رہنے کی بنیادی وجہ بنے۔ سائنس دانوں کے نزدیک یہ حقیقت نہایت دل چسپ ہے کہ ایک ایسا asteroid سورج کے گرد تقریباً زمین جیسے مدار میں حرکت کر رہا ہے، جس کی موجودگی دہائیوں تک کسی کی نگاہ میں نہ آئی۔

یہ جسم پہلی مرتبہ 2 اگست 2025 کو ہوائی میں موجود Pan-STARRS1 مشاہداتی نظام کے ذریعے دریافت ہوا۔ بعد ازآں جب ماضی کے مشاہداتی ریکارڈ کا ازسرِنو مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی موجودگی 2014 کی بعض فلکیاتی تصاویر میں بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس کی قربت اور مداری پائے داری اسے مستقبل کی خلائی تحقیقات کے لیے ایک نہایت موزوں ہدف بناتی ہے۔ روبوٹک یا تحقیقی مشن اس پر بھیجے جا سکتے ہیں تاکہ اس کی ساخت، سطحی خصوصیات اور مداری رویے کا تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس دریافت کی ایک بڑی اہمیت ارضیاتی و معاشی نقطۂ نظر سے بھی ہے۔ فلکیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کئی asteroids میں پلاٹینم، اریڈیم، پیلاڈیم، نکل اور دیگر نایاب دھاتوں کے قابلِ ذکر ذخائر موجود ہیں وہی عناصر جو زمین پر کم یاب اور مہنگے ہیں اور جن کی کان کنی ماحول کے لیے نقصان دہ اثرات رکھتی ہے۔ اس تناظر میں 2025 PN7 جیسے اجسام نہ صرف سائنسی مطالعے کے لیے قیمتی ہیں بلکہ مستقبل میں ماحول دوست وسائل کے حصول کے متبادل ذرائع فراہم کرسکتے ہیں۔

زمین کا یہ نیا فلکیاتی ہمسفر چھوٹا سہی، مگر اپنی نوعیت کا نہایت منفرد جسم ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کائنات کے اسرار ابھی مکمل طور پر منکشف نہیں ہوئے۔ خلا کی گہرائیوں میں اب بھی ایسے کئی پوشیدہ راز چھپے ہیں جو انسانی علم کے منتظر ہیں۔ 2025 PN7 اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں تحقیق و جستجو کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ہر نئی دریافت ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ آسمان کے پردے کے پیچھے اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا ٹمبر مافیا کے خلاف اعلانِ جنگ
  • حیسکو چیف کے اعزاز میں عشائیہ، خدمات پر خراج تحسین پیش کیاگیا
  • سائنس آن ویلز” چائنا میڈیا گروپ کا اسلام آباد میں شاندار تعلیمی اقدام
  • سہیل آفریدی کا درختوں کی کٹائی پر زیرو ٹالرنس اور ٹمبر مافیا کیخلاف کارروائی کا حکم
  • خدمات اور وفاداری کا اعتراف، عمان کی جانب سے 45 افراد کو شہریت دینے کا شاہی فرمان جاری
  • پنجاب وائلڈلائف ایکٹ میں ترامیم، جنگی حیات کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ
  • پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ
  • عقیل شہزاد آرائیں کو کمیونٹی خدمات پر تعریفی سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا
  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
  • عدالت عظمیٰ میں انتظامی تقرریاں، سہیل محمد لغاری رجسٹرار تعینات