فلم پیرا پھیری میں بابو راؤ کا کردار ’گلے کا پھندا‘ ہے، پریش راول نے ایسا کیوں کہا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
ہیرا پھیری ایک یادگار بالی ووڈ فلم ہے، اور بابو راؤ اس کا سب سے یادگار کردار ہے، جسے پاریش راول نے نبھایا ہے۔ یہ کردار اب اداکار کے ساتھ اس حد تک جُڑ چکا ہے کہ لوگ اب انہیں بابو راؤ کے نام سے ہی پہچانتے ہیں۔ مزاحیہ ریلیز اور میمز میں بھی ان کا چہرہ اکثر نظر آتا ہے، یہ کردار ان کی پہچان بن چکا ہے۔
تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، پاریش راول نے اس کردار کی بے پناہ مقبولیت سے خود کو بندھا ہوا محسوس کرنا شروع کر دیا۔ حال ہی میں ایک انٹرویو میں انہوں نے بابو راؤ کے کردار کو ’گلے کا پھندا‘ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ کردار ان کے لیے گھٹن کا باعث بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اکشے کمار کی سنیل شیٹھی اور پاریش راول کے ساتھ تصویر وائرل، ’کیا ہیرا پھیری 3 آنے والی ہے؟‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ احساس کوئی نیا نہیں بلکہ 2007 میں جب پھر ہیرا پھیری ریلیز ہوئی تھی تو پاریش راول نے فلم سازوں وشال بھاردواج اور آر بالکی سے رابطہ کیا تھا، تاکہ وہ کوئی نیا کردار ادا کر سکیں اور بابو راؤ کی چھاپ سے نکل سکیں۔ انہوں نے ایک ایسا کردار تجویز کیا جو بابو راؤ سے مشابہ ہو لیکن ایک نیا انداز رکھتا ہو۔ مگر وشال بھاردواج نے اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ انہیں ری میکس میں دلچسپی نہیں۔
پاریش راول نے فلموں کے سیکوئلز کے بارے میں بھی کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر سیکوئل بغیر کسی نئی تخلیقی سوچ کے صرف پہلی فلم کے فارمولے کو دہراتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ فلم کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیکوئل میں کرداروں کو نئی سمت میں لے جانا چاہیے، مگر اکثر فلم ساز ’ذہنی سستی یا دیوالیہ پن‘ کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہیرا پھیری 3 میں سنجے دت کون سا انوکھا کردار ادا کریں گے؟
اداکار نے ایک حیران کن انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے فلم گھاتک کی شوٹنگ کے دوران گھٹنے کی چوٹ سے صحت یابی کے لیے اپنا پیشاب پیا تھا۔ اور ایکشن ڈائریکٹر ویرو دیوگن نے انہیں یہ غیر روایتی علاج تجویز کیا تھا، پاریش راول نے اسے اپنی شفا کی وجہ قرار دیا۔ اسپتال سے واپس آکر وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ان کا اداکاری کا کیریئر شاید ختم ہو چکا ہے، مگر اس علاج نے ان کی حالت بہتر کر دی۔
واضح رہے کہ مداح بے چینی سے ہیرا پھیری 3 میں ان کی واپسی کے منتظر ہیں، جہاں وہ ایک بار پھر اکشے کمار اور سنیل شیٹی کے ساتھ نظر آئیں گے۔ بالی ووڈ کے سپر اسٹار اکشے کمار نے تصدیق کی ہے کہ کامیڈی فلموں کی مشہور سیریز ہیرا پھیری کی تیسری قسط کی شوٹنگ 2025 کے آخر میں شروع ہوگی۔
فلم ہیرا پھیری (2000) بنائی گئی تھی، مشہور سیریز میں اکشے کمار (راجو)، پاریش راول (بابو راؤ گنپت راؤ آپٹے) اور سنیل شیٹھی (شیام) کے کردار ناظرین کے دلوں میں ایک خاص جگہ بنا چکے ہیں۔ اس کے سیکوئل پھر ہیرا پھیری نے بھی باکس آفس پر دھوم مچا دی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اکشے کمار بابو راؤ پاریش راول ہیرا پھیرا 3.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اکشے کمار بابو راو پاریش راول ہیرا پھیرا 3 پاریش راول نے ہیرا پھیری اکشے کمار بابو راو کے ساتھ چکا ہے
پڑھیں:
پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟
پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحالخلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔
ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔(جاری ہے)
ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔
لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔
‘‘ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیتتجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔
جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔
‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔
سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔
لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔‘‘میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘
پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلاتعالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ادارت: مقبول ملک