Express News:
2025-04-29@03:31:08 GMT

پہلی ششماہی کے دوران اقتصادی نمو سست ہو گئی، اسٹیٹ بینک

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

کراچی:

اگرچہ معیشت میں بحالی کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں، تاہم مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی (H1-FY25) کے دوران پاکستان کی اقتصادی نمو سست ہو گئی. 

کیونکہ صنعتی شعبے میں کمی اور زرعی شعبے کی رفتار میں کمی نے مجموعی کارکردگی کو متاثر کیا، اگرچہ خدمات کے شعبے میں معمولی بہتری دیکھی گئی. 

تاہم مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں سست رہی، اس کی وجہ معیشت میں موجود مسلسل اسٹرکچرل کمزوریاں ہیں، جیسا کہ اسٹیٹ بینک پاکستان (SBP) کے تازہ جائزے میں بتایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: کچھ عرصے بعد افراط زر 5 تا 7 فیصد رہنے کی توقع ہے، گورنر اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک کی "دی اسٹیٹ آف پاکستان اکانومی" رپورٹ  میں بین الاقوامی ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بڑھائے جانے کو ملک کے معاشی ماحول میں بہتری کا اعتراف قرار دیا گیا ہے.

 

رپورٹ کے مطابق "مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی آئی، جس میں صنعت کے شعبے میں سکڑاؤ اور زراعت میں کمزور ترقی کا کردار نمایاں رہا۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ عمومی مہنگائی میں تیزی سے کمی آئی، جاری کھاتے کا توازن سرپلس میں تبدیل ہوگیا اور مالیاتی خسارہ مالی سال 05ء کے بعد سے پست ترین سطح تک آگیا۔

رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی منظوری کے ساتھ ساتھ زرعی پالیسی کے متوازن موقف، مالیاتی یکجائی اور عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں کمی نے بنیادی طور پر ان سازگار نتائج کو تقویت دی۔

مزید پڑھیں: مہنگائی کا دباؤ کم؛ 2024ء میں ملکی مجموعی معاشی حالات میں بہتری آئی، اسٹیٹ بینک

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہنگائی کے دباؤ میں نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ مارچ 2025ء تک عمومی مہنگائی کئی دہائیوں کی کم ترین سطح 0.7 فیصد تک پہنچ گئی۔ مہنگائی میں اس نمایاں کمی کی وجہ کئی عوامل تھے جن میں سخت زری پالیسی موقف اور مالیاتی یکجائی، جس نے ملکی طلب کو قابو میں رکھا، رسد کی بہتر صورتِ حال، توانائی کی قیمتوں میں کمی اور اجناس کی پست عالمی قیمتیں شامل ہیں. 

اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2024-25 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5% سے 3.5%، مہنگائی کی شرح 5.5% سے 7.5% اور مالی خسارہ 5.5% سے 6.5% کے درمیان رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ تاہم، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ عالمی تحفظ پسندی میں اضافہ، جغرافیائی سیاسی کشیدگی، اور مہنگائی کی واپسی جیسے عوامل پاکستان کی معاشی صورتحال پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مالی سال 2024 25 پہلی ششماہی اسٹیٹ بینک کی شرح

پڑھیں:

امریکا اور چین کی تجارتی جنگ: عالمی اقتصادی نظام میں ایک بڑا تغیر

امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ محض محصولات کے نفاذ اور جوابی کارروائیوں کا ایک سلسلہ نہیں ہے؛ یہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان ایک وسیع تر اور گہری جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے، جس کے مرکز میں اقتصادی بالادستی، مستقبل کی تکنیکی برتری، اور بین الاقوامی سطح پر اثر و رسوخ کی رسہ کشی ہے۔

اس تنازعے نے، جو کئی برسوں سے جاری ہے، نہ صرف ان دو اہم ممالک کے باہمی تجارتی تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر سپلائی چینز، بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں، اور کثیرالجہتی تجارتی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے اثرات دور رس اور کثیرالجہتی ہیں، جو عالمی معیشت کے ہر پہلو پر اپنی چھاپ چھوڑ رہے ہیں۔

اس تجارتی محاذ آرائی کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو عالمی لگژری برانڈز کی بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال ہے۔ حالیہ انکشافات نے ان پیچیدہ طریقوں پر روشنی ڈالی ہے جن کے تحت کئی معروف اور مہنگے لگژری برانڈز اپنی بیشتر مصنوعات چین میں تیار کرواتے ہیں، جہاں پیداواری لاگت نسبتاً کم ہوتی ہے، اور پھر انہیں مغربی ممالک کے بازاروں میں نمایاں طور پر زیادہ قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔

اس صورتحال نے ان برانڈز کی طرف سے وصول کی جانے والی بھاری قیمتوں اور ان کی اصل پیداواری لاگت کے درمیان ایک واضح تضاد کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے نہ صرف صارفین کے درمیان ان برانڈز کی قدر و قیمت اور ان کی مبینہ اصلیت کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوئے ہیں بلکہ عالمی تجارت میں شفافیت، صداقت، اور صارفین کے حقوق کے وسیع تر مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے۔

تجارتی جنگ کا ایک اور اہم نتیجہ امریکی ڈالر کی بین الاقوامی قدر پر پڑنے والا دباؤ ہے۔ محصولات کے نفاذ اور جوابی کارروائیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد، بہت سے ممالک اب امریکی ڈالر پر اپنے روایتی انحصار کو کم کرنے کےلیے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اس مقصد کےلیے، وہ اپنی مقامی کرنسیوں میں دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے اور ڈالر کے متبادل بین الاقوامی ادائیگی کے نظاموں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ رجحان عالمی مالیاتی نظام میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں کئی دہائیوں سے قائم امریکی ڈالر کا غلبہ ممکنہ طور پر کم ہوسکتا ہے اور علاقائی یا دیگر متبادل کرنسیوں کا کردار بتدریج بڑھ سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے عالمی تجارت، بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بہاؤ، اور مختلف ممالک کی مالیاتی پالیسیوں پر دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔

مزید برآں، یہ تجارتی جنگ صنعتی دور اور موجودہ معلوماتی دور کے درمیان ایک واضح فرق کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ امریکا نے اپنی معیشت کو ایک ایسے ڈھانچے میں تبدیل کرلیا ہے جو بنیادی طور پر معلومات کی تخلیق، ڈیٹا کے تجزیے، اور مختلف خدمات کی فراہمی پر مبنی ہے۔ اس نئے اقتصادی تناظر میں، مینوفیکچرنگ کے شعبے کو اس کی سابقہ اہمیت دلانے پر زور دینا ایک پرانی اور شاید غیر موثر حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

بہت سے اقتصادی ماہرین کا استدلال ہے کہ امریکا کےلیے ایک غالب مینوفیکچرنگ طاقت کے طور پر اپنی تاریخی حیثیت پر واپس جانا اب انتہائی مشکل ہوگا، خاص طور پر ملک میں نسبتاً کم بے روزگاری کی شرح اور گھریلو پیداوار کی نسبتاً زیادہ لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ اس کے برعکس، چین نے گزشتہ چند دہائیوں میں اپنی مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر مضبوط کیا ہے اور اب جدید ٹیکنالوجیز کے میدان میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔

چین کو حاصل ایک اہم اسٹرٹیجک برتری نایاب زمینی معدنیات کے وسیع ذخائر پر اس کا مضبوط کنٹرول ہے۔ یہ خاص معدنیات بہت سی جدید صنعتوں کے لیے ناگزیر ہیں، جن میں جدید الیکٹرانکس کی تیاری، قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی ترقی، اور جدید دفاعی ٹیکنالوجیز کی تیاری شامل ہے۔ تجارتی جنگ کی صورت میں، چین ان نایاب زمینی معدنیات کی اپنی سپلائی کو ایک طاقتور اقتصادی ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے، جس سے ان اہم صنعتوں میں امریکا اور دیگر صنعتی ممالک کی ترقی اور مسابقتی صلاحیت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔

مجموعی طور پر، امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ایک ایسے اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے جو بلاشبہ عالمی اقتصادی نظام کو ایک نئی اور مختلف شکل دے گی۔ امریکی ڈالر پر عالمی انحصار میں بتدریج کمی، عالمی سپلائی چینز میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیاں، اور تکنیکی بالادستی کے لیے بڑھتی ہوئی مسابقت وہ چند اہم اور واضح رجحانات ہیں جو اس جاری تنازعے کے نتیجے میں ابھر رہے ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ہم ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کی طرف بڑھ رہے ہوں، جس میں طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں اور بین الاقوامی تجارت اور مالیات کے موجودہ قواعد و ضوابط کو نئے سرے سے طے کیا جا رہا ہے۔ 

یہ پیچیدہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک اجتماعی چیلنج پیش کرتی ہے کہ وہ ان اہم تبدیلیوں کو پوری طرح سے سمجھے اور ایک زیادہ مستحکم، منصفانہ، اور خوشحال عالمی معیشت کو یقینی بنانے کے لیے باہمی طور پر مناسب اور دانشمندانہ اقدامات کرے۔ امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ایک انتہائی پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے، اور اس کے عالمی اقتصادی نظام پر دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • مہنگائی میں اضافے کی رفتار 60 سال کی کم ترین سطح اور زرمبادلہ کے ذخائر دگنے ہوگئے، وزیر خزانہ
  • امریکا اور چین کی تجارتی جنگ: عالمی اقتصادی نظام میں ایک بڑا تغیر
  • پاکستان کی توجہ طویل مدتی اقتصادی تبدیلی پر مرکوز ہے: وزیرخزانہ
  • پاکستان کی اقتصادی ترقی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ہارورڈ کانفرنس میں بریفنگ
  • قدرتی وسائل سے اقتصادی ترقی کا راستہ
  • گورنر اسٹیٹ بینک کی عالمی اداروں، سرمایہ کاروں کو بہتر معاشی منظرنامے پر بریفنگ
  • آئندہ سال معاشی ترقی کی شرح 6 فیصد تک ہونے کی توقع ہے، وزیرخزانہ
  • پاکستان پائیدار معاشی نمو کی سوچ کا محور ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
  • کچھ عرصے بعد افراط زر 5 تا 7 فیصد رہنے کی توقع ہے، گورنر اسٹیٹ بینک