ماڈل علیزے شاہ کا سوشل میڈیا سے تعلق ختم کرنے کا فیصلہ، آخری پوسٹ میں کیا کہا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
پاکستان کی بولڈ اداکارہ و ماڈل علیزے شاہ نے سوشل میڈیا سے دوری اختیار کر لی۔
علیزے شاہ نے گزشتہ روز فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام سے اپنی تمام پوسٹس ڈیلیٹ کر دیں اور سوشل میڈیا کو جہنم سے تشبیہہ دے دی۔اداکارہ نےاپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’یہ جگہ جہنم سے بھی زیادہ بری ہے‘۔
سوشل میڈیا سے دوری اختیار کرنے کے بعد ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کوئی پوسٹ موجود نہیں اور انہوں نے سب کو ان فالو بھی کردیا ہے۔
آج انہوں نے انسٹاگرام پر ایک اسٹوری لگائی ہے جس میں اداکارہ کا کہنا تھا کہ ’طنز، مسلسل تنقید اور منفی رویہ صرف میرے جذبات کو مجروح نہیں کر رہا تھا بلکہ اس نے میری جسمانی صحت کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور یہ نوبت آ گئی کہ مجھے نہ صرف سوشل میڈیا سے بلکہ اپنے اردگرد کے تمام لوگوں سے مکمل طور پر خود کو الگ کرنا پڑا‘۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ ’میں ٹوٹ چکی ہوں، تھک چکی ہوں، اور ایک اس حد تک بوجھ محسوس کر رہی ہوں جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ میری بائیو میں واضح طور پر یہ لکھنے کے بعد بھی کہ میں زندہ ہوں، کچھ لوگ اب بھی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ اور کئی چینلز نے میرے والدین سے رابطہ کیا ہے کہ کیا میں مر چکی ہوں۔ ذرا سوچیں اس بات کا ایک ماں کے دل پر کیا اثر ہوتا ہے اور ایک خاندان پر کیا گزرتی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’براہِ مہربانی سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ سب مجھے اور میرے چاہنے والوں کو کس قدر تکلیف دے رہا ہے۔ اس وقت، مجھے واقعی نہیں معلوم کہ میں انسٹاگرام یا ٹی وی ڈراموں پر کب یا کبھی واپس آؤں گی بھی یا نہیں۔ یہ دباؤ حد سے بڑھ گیا ہے۔ اس کا بوجھ اتنا بھاری ہو چکا ہے کہ میری صحت خراب ہو گئی ہے‘۔
میری صرف ایک گزارش ہے کہ مجھے کچھ وقت دیں علیزے شاہ نے کہا کہ میرے خاندان سے رابطہ نہ کریں۔ جھوٹی کہانیاں گھڑنا بند کریں اور مجھے سانس لینے دیں۔
واضح رہے کہ علیزے شاہ پاکستانی ٹیلی ویژن کی ایک باصلاحیت اور خوبصورت اداکارہ ہیں جنہیں فالوورز کی ایک بڑی تعداد پسند کرتی ہے۔ انسٹاگرام پر ان کے 4 ملین سے زیادہ فالوورز ہیں۔
ادکارہ ڈراما سیریل عہد وفا سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچی اور اس کے بعد کئی ہٹ ڈراموں میں نظر آئیں۔ آج کل وہ سوشل میڈیا پر اپنی بولڈ تصاویر کی وجہ سے وائرل ہیں اور انہیں صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسٹاگرام پاکستانی ڈرامے سوشل میڈیا علیزے شاہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسٹاگرام پاکستانی ڈرامے سوشل میڈیا علیزے شاہ سوشل میڈیا سے علیزے شاہ
پڑھیں:
بھارت: شہروں میں صفائی ستھرائی کرنے والوں کا فیصلہ ذات پات پر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جولائی 2025ء) بھارت کے نیشنل ایکشن فار میکانائزڈ سینی ٹیشن ایکو سسٹم (این اے ایم ایس ٹی ای یا نمستے) کے اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان کے 38 ہزار 'سیور اینڈ سیپٹک‘ ورکرز میں سے کم از کم 77 فیصد دلت برادری سے ہیں۔
دلت ایک تاریخی طور پر پسماندہ گروہ ہیں، جو بھارت کی صدیوں پرانی امتیازی ذات پات کی درجہ بندی میں سب سے نچلی سطح پر سمجھے جاتے ہیں۔
بھارت: دلت لڑکی کا مبینہ ریپ واقعہ، 60 میں سے 43 ملزم گرفتار
بھارت میں دلت خواتین کے خلاف جنسی جرائم کبھی رکیں گے بھی؟
نمستے ایک ایسی تنظیم ہے جس کا مقصد صفائی کرنے والے ملازمین کی فلاح ہے، جبکہ مشینی صفائی والی مشینوں کے استعمال کو فروغ دینا اور دستی مزدوری کو کم کرنے کے لیے سبسڈی حاصل کرنا ہے۔
(جاری ہے)
2020 میں، بھارتی حکومت نے اگست 2021 تک ہاتھ سے صفائی کرنے کے خطرناک عمل کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا، جن بیت الخلاء، سیپٹک ٹینک اور سیور سے انسانی فضلے کو ہاتھ سے ہٹانا شامل تھا۔
یہ اقدامات وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے ذریعہ شروع کردہ ''کلین انڈیا انیشی ایٹیو‘‘ کا حصہ تھے جس کا مقصد ہاتھ سے صفائی کرنے پر پابندی کے قوانین کو نافذ کرنا تھا۔
صفائی کے کاموں میں 'پھنسے‘ دلتزمینی حقائق یہ ہیں کہ پابندی کے باوجود، ہاتھ سے انسانی فضلہ صاف کرنے کا یہ کام جاری ہے، جسے زیادہ تر دلت کرتے ہیں۔
میونسپل کی دیگر نوکریاں حاصل کرنے کی ان کی کوششوں کے باوجود، جن کے لیے وہ اہل ہیں، بہت سے دلتوں کا کہنا ہے کہ انہیں دوسرے کام سے محروم کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ صفائی کے کام پر مجبور ہو کر رہ گئے ہیں۔
’’حکومت اس سماجی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے کہ بھارت بنیادی طور پر ذات پات پر مبنی سماج ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے بیزواڈا ولسن کا جو صفائی کام چاری اندولن (ایس کے اے) سے وابستہ ہیں۔
یہ ایڈووکیسی گروپ ہاتھ سے صفائی کرنے کے عمل کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ولسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ جو دعویٰ کرتے ہیں وہ حقائق کے بارے میں کم اور اپنی رائے کے بارے میں زیادہ ہے۔‘‘
ولسن نے کہا، ''نمستے اسکیم کے تحت ہاتھ سے صفائی کرنے والوں کو خود مشینیں خریدنے کے لیے کہنا 'بحالی‘ کی ایک ظالمانہ شکل ہے۔
’’ذات پات کی بنیاد پر بھرتیوں کو ختم کرنے کے بجائے، یہ اسے صرف ایک جدید نام دینے کی کوشش ہے... نمستے ترقی کے طور پر ذات پات کی بنیاد پر امتیازی عمل جاری رکھنے کی کوشش ہے۔‘‘
ذات پات اور ترقی سے محرومیدلت برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو عام طور پر سب سے زیادہ معمولی اور خطرناک نوکریاں دی جاتی ہیں، جنہیں مذہبی اور سماجی معیارات کے مطابق 'ناپاک‘ سمجھا جاتا ہے۔
یہ نوکریاں نسلوں تک چلتی ہیں، جس سے خاندان سماجی اخراج اور معاشی محرومی کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔یہاں تک کہ دلتوں میں بھی، ذیلی ذات والمیکی کے ارکان کو تاریخی طور پر سخت سماجی، سیاسی اور معاشی محرومی، جبر اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر وویک کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ذات پات کو کسی کے ماضی کے کاموں کے نتیجے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو صفائی کرنے والوں کو دوسروں کے فضلے کو صاف کرنے کی زندگی گزارنے کی سزا دیتا ہے۔
‘‘کمار نے مزید کہا، ''اسے روحانی فریضہ یا سماج کی عظیم خدمت کہہ کر اس کی سرپرستی کرنا امتیازی سلوک کی تلخ حقیقت پر پردہ ڈالتا ہے۔‘‘
امتیازی ذات پات کے نظام سے آگے بڑھتے ہوئےدلتوں کو اکثر رہائش، تعلیم اور سماجی تعامل میں الگ تھلگ رہنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذات پات اور صفائی ستھرائی کے کام کے درمیان تعلق دلتوں کو سماجی ترقی سے روکتا ہے کیونکہ دیگر ملازمتیں اور مواقع تک ان کی رسائی منع ہے۔
کمار نے کہا کہ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک جدیدیت یا شہری طرز زندگی سے ختم نہیں ہوا، اس کے بجائے، یہ شہری مراکز میں پھیل گیا ہے اور صنعت، سول سوسائٹی، سیاست اور بیوروکریسی جیسے جدید اداروں میں داخل ہو گیا ہے۔
کمار کا ماننا ہے کہ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک 'ڈگنٹی آف لیبر‘ یا کام کی عظمت کو اجاگر کیا جانا چاہیے تاکہ صفائی کے کام کا کسی کی پیدائش سے جڑے ہونے کے فرسودہ عقیدے کو ختم کیا جا سکے۔
وہ کہتےہیں، ''ایک بار جب ذات پات اور صفائی کے درمیان تعلق ٹوٹ جائے گا اور کام کرنے والے کو مناسب معاوضہ مل جائے گا، تو ہم دیکھیں گے کہ دیگر برادریاں بھی ان ملازمتوں میں قدم رکھ رہی ہیں۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ