امریکی صدر ٹرمپ قطر میں اپنے پہلے رئیل اسٹیٹ منصوبے کا آج اعلان کرینگے
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
دوحہ (اوصاف نیوز)قطرکا معروف ادارہ رئیل اسٹیٹ ڈویلپرقطری دیار اور گلوبل بڑی ڈیل کا اعلان کرنے جارہا ہے۔ یہ اعلان قطر میں ٹرمپ کے مخصوص برانڈ کے تحت رئیل اسٹیٹ منصوبے کا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ادارے ٹرمپ انٹر نیشنل گالف کورس اینڈ ٹرمپ ولاز قطری دارالحکومت دوحہ سے چالیس منٹ کی مسافت پر سمندر کنارے سیمائسما بیچ سائیڈ ڈیویلپمنٹ کےبڑے رئیل اسٹیٹ منصوبے کا حصہ ہوں گے۔
سیمائیسما ڈویلپمنٹ کے اس پراجیکٹ کو قطری دیار کا منصوبہ بتایا جاتا ہے ۔ جس کی مالیت ساڑھے پانچ ارب ڈالر ہے۔ یہ سات کلو میٹر پر پھیلا منصوبہ ہے جس میں ‘انٹر ٹینمنٹ ریزورٹ ڈسٹرکٹ’ شامل ہے۔ نیز 18 ہولز کا حامل گالف کورس اور ‘لیجنڈ تھیم پارک’ بھی شامل ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر میں اپنے کامیاب کاروباری منصوبوں کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ امکان ہے کہ بدھ کے روز اس معاہدے کا قطر میں اعلان کیا جائے گا تو اس سلسلے میں ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ بھی موجود ہوں گے۔
ایرک ٹرمپ ٹرمپ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو ہیںکا کہنا تھا کہ خلیجی علاقہ مضبوط امریکہ پر بہت انحصار کرتا ہے۔ سارا علاقہ سلامتی اور مقامی معاشی خوشحالی کیلئے امریکہ کا محتاج ہے۔
یاد رہے کہ ڈار گلوبل انٹرنیشنل آرم آف سعودی عرب کا ڈار ارکان رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی اس سے پہلے بھی کئی منصوبوں میں ٹرمپ آرگنائزیشن کے ساتھ شراکت داری رکھتے ہیں۔
ان شراکتی منصوبوں میں دبئی کا ٹرمپ ٹاور اور سعودی عرب کے شہروں ریاض اور جدہ میں بھی اسی طرح کے دو ٹاور قائم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اومان میں بھی ٹرمپ آرگنائزیشن کے منصوبے ہیں۔ ٹرمپ کا اعلان دنیا سے جنگیں ختم کرنے اور کاروبار کو فروغ دینے کا کر رکھا ہے۔
تاہم قطر میں ٹرمپ گالف کورس اور ولاز کا منصوبہ گیس سے مالا مال اس خلیجی ملک میں پہلا ٹرمپ منصوبہ ہو گا۔ صدرر ٹرمپ اگلے ہفتوں میں خلیجی ملکوں کے دورے کے موقع پر سعودی عرب کے علاوہ قطر بھی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ٹرمپ برانڈ کے منصوبوں کے بارے میں ‘ رائٹرز’ نے قطری ڈویلپر کمپنی اور ٹرمپ آرگنائزیشن سے رابطہ کر کے تبصرے کے لیے درخواست کی تو دونوں نے فوری طور پر کسی بھی تبصرے سے انکار کر دیا۔
پہلگام فالس فلیگ ،بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا بھارتی فوج کو جنگ کیلئے تیار رہنے کا حکم
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رئیل اسٹیٹ
پڑھیں:
ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔ تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔