UrduPoint:
2025-11-05@02:48:26 GMT

یمن: حوثیوں کے خلاف جنگ، امریکہ کو مہنگی پڑ رہی ہے

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

یمن: حوثیوں کے خلاف جنگ، امریکہ کو مہنگی پڑ رہی ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 اپریل 2025ء) امریکہ اور یمن کی عملاﹰ حکومت، جس کا کنٹرول ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے ہاتھوں میں ہے، کے درمیان تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔ حالانکہ واشنگٹن نے اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

اتوار کو صعدہ صوبے میں تارکین وطن کے حراستی کیمپ پر امریکی حملے میں ایتھوپیا کے متعدد تارکین وطن ہلاک ہوئے۔

حوثیوں کے زیر انتظام خبر رساں ایجنسی صبا کے مطابق، مرنے والوں کی تعداد 200 کے قریب تھی، جبکہ ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اس تعداد کو کم کرتے ہوئے 70 کے قریب بتایا ہے۔

یمن: حراستی مرکز پر ’امریکی فضائی حملہ، درجنوں تارکین وطن‘ ہلاک

امریکی سینٹرل کمانڈ، یا سینٹ کوم، جو مشرق وسطیٰ میں فوجی کارروائیوں اور افواج کی نگرانی کرتی ہے، نے کہا کہ "ہم فی الحال جنگ میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان دعوؤں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

"

دریں اثنا، سینٹ کوم نے پہلی بار مارچ کے وسط میں "آپریشن رف رائڈر" کے نام سے امریکی کارروائی کے آغاز کے بعد سے حوثی اہداف پر حملوں کی تعداد کا انکشاف کیا۔ اس نے یہ تعداد 800 بتائی۔

یمن میں مشتبہ امریکی فضائی حملے، حوثیوں کا ڈرون مار گرانے کا دعوی

سینٹ کام کے ترجمان، ڈیو ایسٹ برن، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ان حملوں میں سینکڑوں حوثی جنگجو اور متعدد حوثی رہنما مارے گئے ہیں، جن میں حوثی میزائل پروگرام اور یو اے وی کے سینئر اہلکار بھی شامل ہیں۔

لیکن انہوں نے نہ تو ان کے نام بتائے اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیا۔

حوثیوں کے میزائل اور ڈرون حملوں میں کمی، امریکہ کا دعویٰ

سینٹ کوم کے مطابق حوثی بیلسٹک میزائلوں کے حملوں میں 69 فیصد کمی آئی ہے۔ مزید برآں، حوثیوں کے یک طرفہ ڈرون حملوں میں 55 فیصد کمی آئی ہے۔

اس دوران اے پی نے اطلاع دی ہے کہ حوثی ملیشیا، جو سرکاری طور پر خود کو انصار اللہ کہتی ہے، گزشتہ ہفتوں میں کم از کم سات امریکی ایم کیو نائن ریپر ڈرونز کو تباہ کرنے میں کامیاب رہی جس کی مالیت 200 ملین ڈالر سے زیادہ تھی۔

ٹرمپ نے امریکی حملے میں مارے جانے والے حوثی جنگجوؤں کی ویڈیو شیئر کر دی

ادھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق حوثیوں کے خلاف موجودہ امریکی آپریشن کی کل لاگت پہلے ہی ایک بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہ حوثیوں کے خلاف امریکہ کی اس لڑائی کو سب سے مہنگا امریکی فوجی آپریشن بناتا ہے جب کہ اس کا جلد ختم ہونے کا بھی امکان نہیں نظر آتا ہے۔

سینٹ کوم کے ترجمان ایسٹ برن نے پیر کو اس بات کا اعادہ کیا، "ہم اپنے اس مقصد کے حصول تک دباؤ بڑھاتے رہیں گے، جو کہ خطے میں نیوی گیشن کی آزادی اور امریکی ڈیٹرنس کی بحالی ہے۔"

صبا نیوز ایجنسی کے مطابق، حوثیوں کے زیرانتظام وزارت انصاف نے اسی دن ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی خودمختاری اور شہریوں کا دفاع کا یمن کا حق جائز ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ شہریوں کو نشانہ بنانا اقوام متحدہ کے کنونشنز کے تحت ایک جرم ہے۔

فضائی دفاع میں اضافہ

برطانوی تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے دفاعی اور عسکری تجزیہ کار فابیان ہنز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے، ایم کیو نائن ریپر ڈرون انتہائی کارآمد ہیں کیونکہ یہ ڈرون کافی دیر تک ہوا میں رہ سکتے ہیں اور نیچے ہونے والی ہر سرگرمی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر، موبائل میزائل لانچرز کو تلاش کرنا۔

"

یمن میں 20 سے زائد حملے، ایک شخص ہلاک: حوثی باغی

تاہم ان ڈرونز کی خامی ان کی رفتار کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا، "امریکی ایم کیو 9 ریپر ڈرون نسبتاً سست ہیں، کیونکہ وہ اصل میں افغانستان یا مالی جیسے مشنز کے لیے تیار کیے گئے تھے، جہاں مسلح گروپوں کے پاس کوئی حقیقی فضائی دفاعی نظام دستیاب نہیں ہے۔"

جبکہ حوثیوں کے پاس دو فضائی دفاعی نظام موجود ہیں۔

ہنز نے کہا، "جب انہوں نے 2015 میں ملک میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے یمنی فوج سے کچھ پرانے فضائی دفاعی نظام حاصل کیے۔" انہوں نے مزید کہا، "اسی کے ساتھ، یقیناً، وہ ایران سے بھی ہتھیارحاصل کرتے رہے ہیں، جس میں "358" میزائل سسٹم (سطح سے فضا میں مار کرنے والے میزائل) بھی شامل ہیں، جو کہ ایرانیوں نے خاص طور پر MQ-9 ریپر کو مار گرانے کے لیے تیار کیا تھا۔

"

ہنز ایرانی سپلائی میں ممکنہ حالیہ تبدیلی کو بھی مسترد نہیں کرتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "تہران بہتر معیار کے نظام، نئے نظام، یا مزید نظام فراہم کر سکتا ہے۔" انہوں نے کہا، " یا پھر حوثی آسانی سے پتہ لگانے کے حربوں میں بہتر ہو گئے ہیں۔"

برطانیہ میں قائم تنظیم کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ یا 'کار'، جو ہتھیاروں کے استعمال کی دستاویز بندی کرتی ہے اور سپلائی چین کے ذریعے ان کے ذرائع کا پتہ لگاتی ہے، کے مطابق حال ہی میں حوثیوں کے لیے بھیجی جانے والی ہتھیاروں کے متعدد کھیپ ضبط کیے گئے ہیں۔

'کار' کے خلیج کے علاقائی آپریشنز کے سربراہ تیمور خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "حوثی اب بھی میزائل سسٹم جیسے مزید اسٹریٹجک نظاموں کی فراہمی کے لیے ایران پر مکمل انحصار کرتے ہیں جو وہ تجارتی جہاز رانی والے جہازوں یا اسرائیل جیسے ممالک پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"

تاہم، "حوثیوں نے چین کی تجارتی منڈی میں متبادل یا متنوع سپلائی چینز کو مضبوط کرنے کے لیے بھی ایک ٹھوس کوشش کی ہے، جہاں وہ تجارتی طور پر دستیاب دوہری استعمال کی اشیاء کو حاصل کرتے اور خریدتے ہیں جنہیں مقامی طور پر ڈرون اور میزائلوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

"

م‍ارچ کے اوائل میں، 'کار' کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حوثیوں نے اپنے ڈرون کی رینج اور پے لوڈ کو بڑھانے کے لیے چینی سپلائرز سے ہائیڈروجن فیول سیل حاصل کرنے کی کوشش کی۔

خان نے تصدیق کی، "وہ تجربات کر رہے ہیں اور اپنی ڈرون صلاحیت تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

اس سے قبل اپریل میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی کہا تھا کہ ایک چینی سیٹلائٹ کمپنی امریکی مفادات کے برخلاف حوثیوں کے حملوں میں مدد کر رہی ہے۔

ان کے خیال میں یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ بیجنگ اور ماسکو نے حوثیوں کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ نقصان کا حساب کتاب بدل گیا ہے

دریں اثنا، حوثی غزہ میں حماس اور فلسطینیوں کی اپنی علانیہ حمایت کے تحت بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حملے اور اسرائیل پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فابیان ہنز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دوسری طرف حوثیوں پر امریکی حملے بھی "زیادہ جارحانہ" ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا، "فوجی تعیناتی نقصان کے حساب کتاب پر مبنی ہوتی ہے، جس میں اس بات کا انداہ لگایا جاتا ہے کہ آیا یہ ایک مخصوص نظام کو کسی مخصوص علاقے میں بھیجنے کے قابل ہے۔"

ان کے خیال میں، سب سے زیادہ اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی دباؤ کے تحت اس خطرے کے حساب کتاب کو تبدیل کیا، جیسا کہ جنوری میں حوثیوں کو از سر نو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینا، یا جب مارچ میں ایران کو حوثیوں کو اسلحہ فراہم نہ کرنے کی انتباہ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

تاہم، یمن میں تازہ ترین امریکی کارروائی کے آغاز کے بعد سے ڈی ڈبلیو نے جن متعدد مبصرین سے بات کی ہے، ان کے مطابق اس بات کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے کہ فضائی حملے حوثیوں کو شکست دے سکیں گے، جنہیں برسوں کی سخت خانہ جنگی کے بعد بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر سپلائی ہو رہی ہے۔

دریں اثنا، اس تنازع کا سب سے زیادہ خمیازہ شہری آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی صبا کے مطابق مارچ کے وسط سے اب تک امریکی حملوں میں سینکڑوں شہری مارے جا چکے ہیں۔ نیز، جنوری میں حوثیوں کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیے جانے کے بعد بین الاقوامی امداد کا ایک بڑا حصہ رک گیا ہے۔ مزید برآں، اقوام متحدہ نے فروری میں حوثیوں کے ہاتھوں اقوام متحدہ کے مزید ملازمین کے اغوا ہونے کے بعد انسانی بنیادوں پر کام روک دیا تھا۔

ان سب کے باوجود قرن افریقہ سے کشتیوں کے ذریعے یمن پہنچنے کے خواہشمند تارکین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کے مطابق جنوری اور فروری میں 28,306 نئی آمد ریکارڈ کی گئی، جو پچھلے سال کی اسی مدت (3,481) کے مقابلے میں 713 فیصد زیادہ ہے۔ نئے آنے والوں کی اکثریت ایتھوپیا کی ہے۔ جو اتوار کو دیر گئے یمن کے تارکین وطن کے کیمپ پر امریکی حملے میں مارے جانے والے ایتھوپیائیوں کی بڑی تعداد کی نشاندہی کرتا ہے۔

ج ا ⁄ ص ز (جینیفر ہولیس)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حوثیوں کے خلاف امریکی حملے اقوام متحدہ تارکین وطن میں حوثیوں حوثیوں کو حملوں میں اس بات کا سینٹ کوم کے مطابق انہوں نے رہے ہیں گئے ہیں کے تحت کے لیے نے کہا کے بعد

پڑھیں:

چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی

ڈاکٹر سلیم خان

جنوبی کوریا کے اندر چین نے امریکہ کو لال آنکھ دِ کھا کر دنیا کو بتا دیا کہ آنکھ دکھانا کس کو کہتے ہیں؟ امریکی صدر نے ملیشیا اور جنوبی کوریا کے دورے کا منصوبہ بنایا تو ان کا ارادہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اورچین کے سربراہ جن شی پنگ کے ساتھ ملاقات کا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کنی کاٹ کر وزیر خارجہ کو آسیان کانفرنس میں روانہ کر کے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کرکے ٹیرف جیسے تناعات کو باہمی گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کا نادر موقع گنوا دیا۔ کوالالمپور سے واپسی میں ٹرمپ جنوبی کوریا کے شہر بوسان پہنچ گئے اور وہاں چینی سربراہ مملکت شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ چین پر عائد ٹیرف میں 10 فیصد کمی کا اعلان ہوگیا ۔ کامیاب سفارتکاری اسے کہتے ہیں لیکن اس کی خاطر اپنے خول سے نکل باہر جانا پڑتا۔ بدقسمتی ایسا کرنے کا حوصلہ وزیر اعظم نریندر مودی میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے بر عکس شی جن پنگ نے جس حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ رشک ہے ۔ اس ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی ملاقات کو "انتہائی مثبت قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان متعدد اہم امور پر اتفاق ہو چکا ہے ۔ ایک دو قطبی دنیا یہ بہت بڑی بات ہے ۔
صدر ٹرمپ نے شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعدیہ خوشخبری سنائی کہ وہ آئندہ سال اپریل میں چین کا دورہ کریں گے ۔ یہ معاملہ وہیں نہیں رکے گا بلکہ اس کے بعد صدر شی جن پنگ بھی امریکہ کا دورہ کریں گے ۔ ٹرمپ کا چین سے کر یوکرین کے معاملے پر تعاون کرنے کا مطالبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس معاملے ہندوستان کے ساتھ روسی تیل کی برآمدات کے خلاف کہنی مروڈ کر دباو بنانے کی
حکمت ِعملی پر کاربند ہے ۔ اس ملاقات کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی خاطر تائیوان جیسے ناقابلِ تصفیہ تنازعات سے صرفِ نظر کیا گیا مگر ٹیرف
جیسے تنازع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ
ملاقات نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے تجارتی مسائل پر مہینوں سے برپا ہنگامہ آرائی پر روک لگانے کی جانب اہم پیش رفت
کی۔ یہ چوٹی کانفرنس دراصل دونوں متحارب ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ۔ کوالالمپور میں ہندوستان و امریکہ
کے بیچ یہی سب ہوسکتا تھا لیکن مودی جی میں خود اعتمادی کا فقدان ان کے پیروں کی بیڑی بن گیا۔اس میٹنگ کے بعد ٹرمپ نے کہ، چین
پر موجودہ ٹیرف کی شرح 57 فیصد کو 47 فیصد کر کے فوری طور پر نافذالعمل کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ چین بہت جلد امریکی سویا بین کی
خریداری شروع کر دے گا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ، فینٹینائل سے متعلق چین پر ٹیکس کو 20فیصد سے کم کر کے 10فیصد کر دیا گیا ہے ۔
ٹرمپ کے مطابق شی کے ساتھ ملاقات "حیرت انگیز تھی ۔ وہ بولے ، "ہم بہت سے اہم نکات پر کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچے ہیں اور تقریباً ہر چیز پر
اتفاق کیا ہے ۔ یہ ملاقات کس قدر خوشگوار ماحول میں ہوئی اس کا اندازہ لگانے کے لیے میٹنگ سے قبل کہا جانے والا امریکی صدر کا اپنے
چینی ہم منصب سے ہاتھ ملاتے ہوئے یہ ک جملہ کافی ہے کہ، "ہم ایک بہت کامیاب ملاقات کرنے جا رہے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں ہے ،۔ امریکی صدر نے پہلے ہی اعتراف کرلیا کہ شی ایک "انتہائی سخت مذاکرات کار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے بارے میں "بہت اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔ کیا ٹرمپ اپنے چہیتے دوست مودی کو اسی طرح خراجِ عقیدت پیش کریں گے ؟ ہر گز نہیں کیونکہ چاپلوسی اور سفارتکاری میں بہت بڑا فرق ہے ۔
امریکی صدر کے جواب میں چینی سربراہ نے جوتیار شدہ بیان اس حقیقت کی تائید کرتا ہے کہ وہ ٹرمپ کی نس نس سے واقف ہیں اور اپنے وقار کو داوں پر لگائے بغیر ان کی خودپسندی سے فائدہ اٹھانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ شی جن پنگ نے اختلافات کے باوجود ایک ساتھ کام کرنے کی خواہش پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ، دنیا کی دو سرکردہ معیشتوں کے درمیان وقتاً فوقتاً تصادم ہونا معمول کی بات ہے مگر اپنے مختلف نوعیت کے قومی حالات کی وجہ سے ، ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتے ۔ صدرٹرمپ نے جب خوشگوار ماحول کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک طویل عرصے تک شاندار تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں، اور آپ کے لیے ہمارے ساتھ رکھنا اعزاز کی بات ہے ۔ تو چینی رہنما اس کے جواب میں بولے کہ انہیں یقین ہے کہ چین کی ترقی ٹرمپ کے ‘ میک امریکہ گریٹ اگین’ کے وژن کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور وہ امریکہ چین تعلقات کی مضبوط بنیاد بنانے کے لیے آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یکساں مرتبے کے دو ممالک نے ایک دوسرے کو تعاون کی پیشکش کرکے تعلقات کو بہتر بنانے کی عمدہ مثال پیش کی ۔ یہ ‘ہاوڈی مودی ‘ اور نمستے ٹرمپ جیسی سطحی شوشے بازی سے بہت مختلف شئے ہے ۔
جن پنگ شی نے خود پسند ٹرمپ کی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی سفارت کاری کو سراہا۔ انہیں غزہ میں جنگ بندی اور کمبوڈیاـ تھائی لینڈ امن معاہدے میں تعاون پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ "چین اور امریکہ مشترکہ طور پر بڑے ممالک کے طور پر ہماری ذمہ داری کو نبھا سکتے ہیں اور دونوں ممالک پوری دنیا کی بھلائی کے لیے مزید عظیم اور ٹھوس چیزوں کو انجام دینے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان کچھ لو اور دو کی بنیاد تعلقات استوار ہورہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں جہاں امریکی ٹیرف کی شرح میں کمی آئی ہے وہیں چین نے اشارے دئیے ہیں کہ وہ نایاب معدنیات پر اپنے برآمدی کنٹرول کو نرم کرنے اور امریکہ سے سویابین خریدنے کے لیے تیار ہے ۔دونوں ممالک نے کئی دیگر معاملات پر معاہدے کیے ہیں، جن کی تفصیلات ابھی تک سرکاری طور پر منظر عام پر نہیں آئی ۔چین اور امریکہ کے درمیان یہ تجارتی معاہدہ عالمی معیشت کے لیے خوش آئند ہوا کا جھونکا ہے ۔ اس معاہدے کے سب سے زیادہ اثرات عالمی سیاسی بساط پرہندوستان کی سفارتی اہمیت پر پڑیں گے ۔ امریکی انتظامیہ نے جب چین کے اثرات کو کم کرنے کی خاطر ہندوستان کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا تو امریکہ نے پاکستان کو چھوڑ کر اس کے حریف اول کو اہمیت دینا شروع کی اور وزیر اعظم نریندر مودی اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ یہ ان کی صلاحیت اور پرکشش شخصیت کا سحر ہے ۔ وقت کے ساتھ سفارتکاری کا رخ بدلا اور امریکہ نے چین کو دشمن کے بجائے دوست بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس طرح جب وہ دونوں حریف ایک دوسرے کے حلیف بن رہے ہیں تو ہندوستان کی اسٹریٹجک ضرورت ختم ہوگئی ۔ مودی جی کے یکہ وتنہا ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے ۔عالمی سفارت کے علاوہ تجارتی تناؤ میں کمی بلا واسطہ ہندوستان پر مثبت ومنفی
اثرات ڈالے گی ۔ اس معاہدے سے عالمی اقتصادی ماحول اگر مستحکم ہوجائے اور دونوں سپر پاورز میں قربت بڑھے تو عالمی منڈیوں میں اعتماد واپس آئے گا اس ہندوستان کا بالواسطہ فائدہ بھی ہوسکتا ہے ملک میں ایف ڈی آئی اور ایف پی آئی میں اضافہ کا امکان بھی ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں میں چین پر عدم اعتماد کے باعث ، دنیا بھر کی کمپنیاں چائنا پلس ون کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ اس کے تحت چین پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے دوسرے ممالک میں پیداواری مراکز تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کو اس حکمت عملی سے بڑا فائدہ ملنے کی امید تھی۔ فی الحال ملک کا سب سے سنگین مسئلہ بیروزگاری ہے ۔ اس کو قابو میں کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہمارے نہ سہی تو کم ازکم دوسروں کے برانڈ بناکر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ چین نے اسی کا فائدہ اٹھاکر اپنے عوام کی مدد سے خود کو سُپر پاور بنالیا۔ ہندوستا ن یہ نہیں کرسکا کیونکہ لال فیتہ شاہی آڑے آگئی۔ اس نے ہمیشہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بددل کرکے دور بھگانے کا کام کیا لیکن اگر اب امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں تو امریکی و دیگر کمپنیاں چین کو چھوڑ کر ہندوستان کی جانب کیوں دیکھیں گی؟ امریکہ اور چین کی باہمی دوستی سے ہندوستان کے علاوہ ویتنام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کا بھی نقصان ہوگا۔
ہندوستان میں ”میک ان انڈیا” مشن ویسے ہی دم توڑ رہا تھا پھر بھی الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل اور آٹو پارٹس کے شعبوں ہندوستانی صنعتکار اپنا لوہا منواتے رہے اب ان پر دباؤ بڑھے گا ۔ نئے معاہدے کے تحت اگرامریکہ ہندوستان کے بجائے چین سے سویابین اور دیگر زرعی مصنوعات کی بڑی مقدار خریدنے لگے تو زرعی برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں ۔ اس سے چین کے بازار میں ہندوستان کے زرعی سامان فروخت کرنے کے مواقع سمٹ جائیں گے ۔ ایسے میں اگر مودی سرکار ٹیرف کم کروانے میں ناکام رہے تو مسابقت کے میدان میں ہندوستانی مصنوعات کھلے بازار مین مقابلہ نہیں کرپائیں گی جو ہندوستان کے لیے تشویش کا مقام ہوگا۔ ایسی نازک صورتحال میں ملک کو عالمی سطح پر نئے انداز میں حوصلے کے ساتھ اپنے عوام کی خوشحالی کے مواقع تلاش کرنے والا رہنما درکارہے مگر ہمارے وزیر اعظم کو داخلی سیاست اور ریاستی انتخاب جیتنے سے ہی فرصت نہیں ہے تو وشو گرو بننے کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ میں پروازوں کی بندش کا خطرہ بڑھ گیا
  • امریکہ کا داعش کی سازش ناکام بنانے کا دعویٰ
  • چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں‘ طالبان
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، طالبان کا الزام
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں؛ طالبان کا الزام
  •  امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر کے کابل میں داخل ہو رہے ہیں، افغانستان
  • یوکرین پرروسی فضائی حملہ، 2 بچوں سمیت 6 افراد ہلاک،بلیک آئوٹ
  • یوکرین کا روسی آئل پورٹ پر ڈرون حملہ، غیرملکی جہازوں کو نقصان
  • یوکرین کا روس کی اہم آئل پورٹ پر ڈرون حملہ، غیرملکی جہازوں کا نقصان