موسمیاتی تبدیلی انسانی بقاء کے لئے خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
سینٹر شیری رحمان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سینٹر شیری رحمان کا موسمیاتی تبدیلی کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی بقاء کے لئے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور سندھ کے کچھ علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہے۔ کلائمیٹ کی سیاست کریں اور اس پر بات کریں۔ موسمیاتی تبدیلی سائنس بیس ایشو ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 73% پاکستان کے نوجوان کلائمیٹ چینج کے بارے میں لاعلم ہیں ۔ 16% طلباء کہتے ہیں کبھی موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سنا نہیں جبکہ 83% کہتے ہیں وہ موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن راستہ نہیں معلوم۔
شیری رحمان کا مزید کہنا تھا کہ 10% خواتین مردوں سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے کی خواہاں ہیں۔
سینیٹر کا کہنا تھا کہ صاف پانی کے بغیر مہلک بیماریاں واپس آرہی ہیں۔ صاف پانی اور صفائی ستھرائی بہت لازم ہے۔ پولیو پاکستان میں صفائی کی کمی کی بنا پر ہوا۔ ہمیں پولیو کو پاکستان میں روکنا ہے۔
شیری رحمان نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ فضائی آلودگی سے مارے جاتے ہیں۔ لاہور میں آپ دیکھ سکتے ہیں اسموگ کی صورتحال۔ نیو دہلی سے بات کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ وہ دونوں ممالک کے درمیان فضا اور پانی کی دیواریں بنا رہے ہیں۔ اپریل میں درجہ حرارت 53 تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت اکیلے اس سب سے نہیں مقابلہ کر سکتی۔ اینٹوں کے بھٹے، فصلوں کے جلنے اور بارڈر پار سے آنے والی آلودگی کی بنا کر پنجاب میں آلودگی ہوتی ہے۔ ہر حکومت کو ذمہ داری لیتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف 9 پارک جائیں، درخت کاٹنے والوں کو روکیں۔ 97 اسکول جانے کے دن موسمیاتی تبدیلی کی بنا پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ پانی ضائع کرنا ختم کرنا ہوگا، پانی بچائیں۔ ہمارا ایک تہائی ملک پانی میں پیچھے ہے۔ سندھ نے بدترین سیلاب کا سامنا کیا تھا۔ بڑی تعداد میں لوگ اس سیلاب کے باعث دربدر ہوئے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی کہا کہ
پڑھیں:
خطے میں کشیدگی کے سبب سائبر حملوں کا خطرہ، ایڈوائزری جاری
اسلام آباد:خطے میں کشیدگی کے پیش نظر سائبر حملوں کا خطرہ بڑھ گیا، نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے ایڈوائزری جاری کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء میں کشیدگی کا فائدہ ہیکرز اٹھا سکتے ہیں، پاکستان میں سرکاری ادارے اور حساس انفراسٹرکچر سائبر حملوں کے بڑے ہدف ہو سکتے ہیں۔
ایڈوائزری کے مطابق پاکستان میں دفاعی، مالی اور میڈیا شعبے سائبر حملوں کا شکار ہو سکتے ہیں، سائبر حملوں کے لیے اسپیر فشنگ، مالوئیر اور ڈیپ فیکس جیسے طریقے استعمال ہونے کا خدشہ ہے، حملہ آور ہیکرز اداروں کی رازداری اور معلومات چوری کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔