یوسف تاریگامی اور محبوبہ مفتی نے پاکستانی نژاد خواتین کی ملک بدری کی مخالفت کی
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ نے بی جے پی کی حکومت سے اس فیصلے پر نظرثانی اور ہمدردانہ رویہ اپنانے کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ مودی حکومت کی جانب سے بھارت میں مقیم پاکستانی شہریوں کی بے دخلی کے حکم کے چند روز بعد جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے اور اسے غیر اِنسانی عمل قرار دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کے سینیئر رہنما اور کولگام ضلع سے رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے کہا "یہ بے دخلی مہم غیر انسانی ہے، یہ خواتین کشمیری مردوں سے شادی کے بعد یہاں آباد ہوئیں، یہاں خاندان بسائے اور پُرامن زندگی گزار رہی ہیں، وہ ہمیشہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے معاشرے کا حصہ رہی ہیں، ان کی ملک بدری ان کے خاندانوں کو بکھیر دے گی اور شدید ذہنی اذیت کا سبب بنے گی"۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2006ء میں سی پی آئی (ایم) نے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس کا مقصد ان نوجوانوں کی واپسی کے لئے اقدامات کرنا تھا جو لائن آف کنٹرول پار کر گئے تھے۔
اسی طرح جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بی جے پی کی حکومت سے اس فیصلے پر نظرثانی اور ہمدردانہ رویہ اپنانے کا مطالبہ کیا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت کی حالیہ ہدایت کہ تمام پاکستانی شہریوں کو بھارت سے بے دخل کیا جائے، خاص طور پر جموں و کشمیر میں سنگین انسانی خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کئی خواتین وہ ہیں جو 40 برس پہلے یہاں آئی تھیں، بھارتی شہریوں سے شادی کی، خاندان بسائے اور برسوں سے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے افراد کی بے دخلی، جو دہائیوں سے پُرامن زندگی گزار رہے ہیں، نہ صرف غیر اِنسانی ہے بلکہ ان کے خاندانوں کو شدید جذباتی اور جسمانی نقصان پہنچائے گی۔ بھارتی وزارت داخلہ کی 25 اپریل کی ہدایت کے مطابق تمام پاکستانی شہری جو بھارت میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، انہیں 27 اپریل تک ملک چھوڑنے یا سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
جموں و کشمیر کی حکومت کے مطابق بے دخلی کے خطرے سے دوچار 60 افراد میں خواتین اور بچے شامل ہیں جو اپنے کشمیری شوہروں کے ساتھ 2010ء کی باز آبادکاری پالیسی کے تحت واپس آئے تھے۔ 2010ء میں عمر عبداللہ حکومت کے دوران شروع کی گئی یہ پالیسی اُن کشمیری نوجوانوں کی واپسی کے لئے متعارف کرائی گئی تھی جو ہتھیاروں کی تربیت کے لئے پاکستان چلے گئے تھے، لیکن بعد میں شدت پسندی ترک کر کے عام زندگی کی جانب واپس لوٹنا چاہتے تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسے 4,587 افراد میں سے صرف 489 واپس آئے، جن میں سے اکثر نیپال کے ذریعے بھارت لوٹے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بے دخلی
پڑھیں:
تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟
بھارت کو وسطی ایشیا میں اپنی واحد بیرونِ ملک موجودگی سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ تاجکستان نے بھارتی فوج جو دارالحکومت دوشنبے کے قریب واقع آینی ایئربیس استعمال کرنے کی اجازت واپس لے لی ہے۔ نئی دہلی نے تاجکستان میں اپنی اس موجودگی کو “اسٹریٹجک کامیابی” قرار دیا تھا۔ اب اس اڈے کا مکمل کنٹرول روسی افواج نے سنبھال لیا ہے جبکہ بھارت کے تمام اہلکار اور سازوسامان 2022 میں واپس بلا لیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق بھارت اور تاجکستان کے درمیان 2002 میں ہونے والا معاہدہ چار سال قبل ختم ہوا، اور تاجکستان نے واضح طور پر بھارت کو اطلاع دی کہ فضائی اڈے کی لیز ختم ہو چکی ہے اور اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ تاجک حکومت کو روس اور چین کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ “غیر علاقائی طاقت” یعنی بھارت کو مزید اپنے فوجی اڈے پر برداشت نہ کرے۔
آینی ایئربیس بھارت کے لیے نہ صرف وسطی ایشیا میں قدم جمانے کا ذریعہ تھی بلکہ پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی کا ایک حصہ بھی تھی۔
یہ فضائی اڈہ افغانستان کے واخان کاریڈور کے قریب واقع ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے سے متصل ہے۔ بھارتی فضائیہ نے ماضی میں یہاں لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر تعینات کیے تھے تاکہ بوقتِ جنگ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
مگر اب روس اور چین کی شراکت سے بھارت کی یہ تمام منصوبہ بندی خاک میں مل چکی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق تاجکستان کا یہ فیصلہ بھارت کے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکا ہے، کیونکہ اس اڈے کے ذریعے بھارت وسطی ایشیا میں اپنی موجودگی ظاہر کر رہا تھا۔ تاہم، اب روس اور چین اس خلا کو پر کر چکے ہیں اور بھارت مکمل طور پر خطے سے باہر ہو گیا ہے۔
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے بھی نریندر مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آینی ایئربیس کا بند ہونا بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ہماری اسٹریٹجک سفارت کاری کے لیے ایک اور زبردست جھٹکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت محض دکھاوے کی خارجہ پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ تاجکستان کے اس فیصلے نے وسطی ایشیا میں بھارت کی رسائی محدود کر دی ہے۔ اس خطے میں اب روس اور چین کا مکمل تسلط ہے، اور بھارت کے پاس نہ کوئی اسٹریٹجک بنیاد بچی ہے اور نہ کوئی مؤثر اثرورسوخ بچا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ بھارتی عزائم کے لیے ایک سبق ہے کہ غیر ملکی زمین پر فوجی اڈے بنانے کی کوششیں صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب بڑی طاقتیں آپ کے پیچھے کھڑی ہوں، اور اس وقت بھارت کو نہ واشنگٹن کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور نہ ماسکو یا بیجنگ کا۔
یوں تاجکستان سے بھارتی فوج کا انخلا دراصل نئی دہلی کی “عظیم طاقت بننے” کی خواہش پر کاری ضرب ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ ایک واضح سفارتی فتح ہے، کیونکہ خطے میں بھارت کے تمام تر اسٹریٹجک منصوبے ایک ایک کر کے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔