طبقاتی شناخت ہی میں مزدور جدوجہد کی کام یابی ہے
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
مزدوروں کا عالمی دن دنیا بھر میں اس بار اضطرابی ماحول میں منایا جا رہا ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک اور امریکا میں دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتیں اقتدار میں آچکی ہیں جو اپنے جوہر میں مزدور دشمن ایجنڈا لیے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کا پاگل پن سرمایہ داری نظام میں پنپنے والی وحشت کا اظہار ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے دنیا کے اربوں محنت کشوں کو بیروزگاری اور مہنگائی کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے ٹیرف کے نام پر دنیا کو غیریقینی صورت حال سے دوچار کردیا ہے جس کے بد ترین اثرات مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ صنعتی ممالک اپنی مصنوعات پر عائد درآمدی ٹیکس کی وجہ سے نہ ختم ہونے والی بے چینی و بے یقینی کا شکار ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی اسٹاک ایکسچینج بے سمت کاسٹر رولر کی مانند منڈی کی اندھی بہری قوتوں کے رحم وکرم پر ہیں۔
پورے کا پورا سرمایہ دارانہ نظام معیشت خود اپنی جڑوں پر حملہ آور ہے۔ منڈیوں کے چھن جانے کا خوف اور سرحدیں دیگر ممالک کی مصنوعات کے لیے بند کرنے کا عمل اور پھر اس پر ردعمل بحران کو دو آتشہ کر رہا ہے۔ پیداواری عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے ، ایک جانب مال کی کھپت کی محدودیت بے روزگاری کا باعث بن رہی تو دوسری جانب درآمد شدہ اشیا پر نئے عائد ٹیکسوں نے مہنگائی کا طوفان بپا کر رکھا ہے۔
چین، مشرق بعید، یورپ، کینیڈا، امریکا کی پیداواری اٹھان پر ہنگامی روک سی لگ گئی ہے۔ ہندوستان، جنوبی افریقہ، برازیل، میکسیکو جیسے ممالک کی ابھرتی معشیتیں منہ کے بل گرا چاہتی ہیں۔ بنگلادیش اور پاکستان کی پہلے سے بحران میں مبتلا معیشتیں موجودہ حالات میں سہم سی گئیں ہیں۔
سرمایہ داری کے اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر محنت کش ہورہے ہیں جنہیں بے روزگاری اور مہنگائی کی دو دھاری تلوار ہر لحظہ مجروح کر رہی ہے۔ معاشی بحران ہو تو پہلا نشانہ محنت کش ہوتا ہے اور معاشی ترقی کا ثمر ہو تو یہ بالادست اور طاقت ور طبقات کی وراثت ٹھہرتا ہے اور محنت کش کو آسرا ہی کہ اس کے دن بدلنے والے ہیں۔
منڈیوں کی ازسرنو تقسیم ایک نئے نوآبادیاتی نظام کے خدوخال ابھار رہی ہے ، غزہ میں اسرائیلی بربریت، شام میں اقتدار کی جبری تبدیلی اور روس یوکرائن جنگ جیسے سانحات اور چین کی جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں بنا روک ٹوک کثیر سرمایہ کاری ثابت کر رہی ہے کہ طاقت ور کسی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں۔ دنیا کے تمام قانون ضابطہ تیزی سے اپنی وقعت کھوچکے ہیں اور ایک ایسی دنیا تخلیق پا رہی ہے جہاں طاقت کا ننگا راج ہے۔
سرمایہ داری کا چلن اربوں انسانوں میں بھوک افلاس بے روزگاری اور بیماری ہی نہیں بانٹ رہا وہ منافع کی حرص میں خطوں کو جنگوں کی ہول ناکیوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے، اس نظام نے ماحولیاتی تباہی کا وہ ساماں پیدا کیا ہے۔ ہم سب کا مسکن یہ کرۂ ارض ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ ہم وہ آخری نسل انسانی ہیں جو اپنی دنیا کو بچا سکتی ہے۔
دنیا کو بدنما بنانے میں ہمارے حکم راں بھی کسی سے پیچھے نہیں، اپنے مربیوں کی طرح وہ بھی عوام دشمن اور مزدور دشمن طرز اپنائے ہوئے ہیں۔ محنت طبقہ کے وہ تمام حقوق عملاً سلب ہوچکے ہیں جنہیں اس نے اپنی صدیوں پر محیط طویل جدوجہد سے حاصل کیے تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ تحریری تقررنامہ، یونین سازی و اجتماعی سودا کاری، کم از کم اجرت، یکساں کام یکساں اجرت، آٹھ گھنٹے کام، ہفتہ وار تعطیل، سوشل سیکیوریٹی، پینشن، بونس، منافع میں حصہ، سالانہ چھٹیاں، زچگی میں معہ اجرت رخصت جیسے بنیادی حقوق اب لیبر قوانین کی کتابوں میں رہ گئے ہیں، ان کی پاس داری اور عمل درآمد کا تقاضا صنعتی ترقی اور صنعتی امن پر حملہ تصور کرلیا گیا ہے۔ مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات، روزگار کی ضمانت، رہائش کی فراہمی، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی کی فراہمی کا ریاست کی ذمے داری کو قصہ پارینہ بنا دیا گیا ہے۔
ریاست، حکومت اور حکومتی اداروں کا اولین فرض طاقت ور حلقوں کی ہر لحظہ بڑھتی مراعات اور ان کے معاشی و سیاسی مفادات کا تحفظ ٹھہرا ہے۔ زمین داروں، صنعت کاروں، مالیاتی اداروں کے مالکان، سول ملٹری بیوروکریسی اور ان کی نمائندہ سویلین سیاسی اشرافیہ نے زندگی کی آسائشوں سے محروم کروڑوں انسانوں کو مزید اذیت میں مبتلا کرنے کے لیے ایک مقدس اتحاد کر رکھا ہے۔ مختلف ناموں سے موجود سیاسی جماعتیں دراصل ایک بڑی پارٹی کے مختلف ونگز ہیں جنہوں نے عوام کو مذہب، فرقہ، نسل، لسان اور دیگر دل لبھانے والے نعروں اور منشور کی بنیاد پر اپنے گرد جمع کر رکھا ہے تاکہ محنت کشوں کو ایک متبادل طبقاتی شناخت کی بنیاد پر سیاسی و سماجی تنظیم کی جستجو سے روکا جا سکے۔
فریب کا یہ جال پھیلانے میں حکم راں طبقات خاصے کام یاب رہے ہیں، یہ حکم راں طبقات کی کام یابی ہی ہے کہ گمبھیر مسائل کا ادراک ہونے کے باوجود محنت کش اپنی بقا اور حقوق کا تحفظ اپنی طبقاتی شناخت کی بنیاد پر کرنے کی بجائے مذہبی گروہوں، لسانی و علاقائی تنظیموں اور اقتداری سیاست والی پارٹیوں میں ڈھونڈتا دکھائی دیتا ہے۔ محنت کش طبقہ عمومی طور پر اپنے طبقاتی مطالبات پر متحرک و منظم ہونے اور اپنے طبقاتی دشمنوں سے نبردآزما ہونے کی بجائے غیرمعاندانہ تضادات کا ایندھن بننے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ ان طبقات، افراد اور گروہوں کو اپنا مسیحا گردانتا ہے جو کہ نسلوں سے اس کے مصائب کا ذمے دار ہے۔
حکم رانوں نے نہایت منظم انداز میں پہلے قوانین اور آئین موجود محنت کشوں کے بنیادی حقوق کو عملاً ناقابل عمل بنایا اور قوانین پر عمل درآمد پر مامور اداروں خصوصاً لیبر ڈیپارٹمنٹ کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا لیبر قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر سام راجی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایما پر سندھ اور پنج آب میں ’’لیبرکوڈ‘‘ مسلط کرنے کی خطرناک سازش رچائی گئی ہے تاکہ کارگاہوں میں پھیلی لاقانونیت کو قانون کا درجہ دے دیز جائے۔
نہ رہے بانس، نہ بجے کی بانسری۔
اس گھناؤنی سازش میں محنت کا بین الاقوامی ادارہ اور حکومتی ذمہ دار برابر کے شریک ہیں۔
اگر ترقی یافتہ صنعتی ریاستوں سے لے کر پاکستان جیسی ریاستوں کے حکم راں اپنے سرشت میں محنت کش دشمن ہیں اور وہ اپنے طرزعمل سے ثابت بھی کر رہے ہیں تو پھر محنت کش طبقے کو بھی ملکی اور بین الااقوامی سطح پر ایک نئی صف بندی کی ضرورت ہے جو طبقاتی شناخت کی بنا پر ہو۔ مزدور طبقے نے شکاگو سے لے کر آج تک جب بھی اپنی طبقاتی شناخت کے شعور کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔
سرمائے کے عفریت کی ہر شکل کو شکست دینے میں کام یاب رہا ہے۔ مزدور طبقے کو اپنے حقوق اور ایک بڑی سماجی تبدیلی کی جنگ میں دیگر تمام شناختی علامات سے برات کا اعلان کرنا ہوگا تاکہ سرمایہ کے عفریت پر فتح یاب ہوا جاسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طبقاتی شناخت میں مبتلا رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے
سٹی42: کشمیر کی آزادی کے لئے زندگی بھر بھارتی سامراج سے لڑنے اور طویل ترین جدوجہد کرنے والے ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔
پروفیسر غنی بھٹ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے نا قابلِ شکست سرخیل تھے، انہوں نے بچپن سے مرتے دم تک آزادی کی جدوجہد میں پہلی صف میں رہ کر عدم تشدد کی تلاور سے پر امن لڑائی لری اور غاصب کو بد ترین شکستوں سے دوچار کئے رکھا۔
بلاول بھٹو زرداری کا اپنی سالگرہ سیلاب زدگان کے نام کرنے کا فیصلہ
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
ارضِ کشمیر اپنے جاں نثار اور جری فرزند سے محروم ہو گئی اورتحریکِ آزادیٔ کشمیر آج ایک عظیم کارکن سےمحروم ہو گئی، تحریک آزادی کے کارکن انتھک محنت کرنے اور کبھی سمجھوتہ نہ کرنے والے اوللعزم رہنما سے محروم ہوگئے۔
غنی بھٹ پہشہ کے لحاظ سے پروفیسر تھے، انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی جدوجہد کے کارزار میں قدم رکھ دیا تھا اور زندگی کے آخری دم تک غاصب کو سخت جدوجہد سے ناکوں چنے چبوائے۔
ایشیا کپ ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ؛ پاکستان متحدہ عرب امارات میچ کا ٹاس ہو گیا
پروفیسر غنی بھٹ کل جماعتی حریت کانفرنس کے متحدہ پلیٹ فارم پر مادرِ وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام کشمیریوں کو متحد رکھنے والی عظیم قوتِ محرکہ تھے۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چئیر مین بھی رہے اور دوسری پوزیشنوں مین بھی خدمت کرتے رہے۔
پروفیسر عبدالغنی بھٹ کا انتقال سوپور میں ان کے گھر پر ہوا۔
پروفیسر بھٹ نے بے پناہ جدوجہد کر کے کشمیریوں کی کئی جنریشنوں میں آزادی کے شعور کو پروان چڑھایا، ان کی اپنی زندگی کے ساتھ ان کے سارے گھرانے کی زندگیاں کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد کے لیے وقف ہیں۔
سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر کی اچانک طبیعت ناساز ،آئی سی یو میں داخل
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے کارکنوں نے پروفیسر غنی بھٹ کی وفات پر کہا ہے کہ ان کی بلند سوچ، جرات مندانہ موقف اور سیاسی بصیرت کشمیری عوام کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔
پروفیسر غنی بھٹ کی وفات نہ صرف کشمیر ی قوم اور تحریکِ آزادی کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے بلکہ یہ پاکستان کے لئے بھی بہت بھاری نقصان ہے۔ پروفیسر غنی بھٹ پاکستان کے دیرینہ رفیق تھے،۔
Waseem Azmet