Daily Ausaf:
2025-11-03@10:33:58 GMT

جیسی روح ویسے ہی فرشتے

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

اللہ رب العزت نے جب نظامِ کائنات اور کائنات تخلیق فرمائی تو اپنی ہر مخلوق کو ایک خاص فطرت عطا فرمائی۔ جس طرح انسان کی اولاد انسان ہی پیدا ہوتی ہے ایسے ہی ہر جانور کی اولاد اس کی ہی نسل سے ویسا ہی جانور پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر بیج کی پیداوار وہی ہوتی ہے جس کا وہ بیج ہوتا ہے یعنی گندم سے گندم، کیکر سے کیکر، گلاب سے گلاب، آم سے آم ہی پیدا ہوتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ بیج تو آپ نے زمین میں گندم کا بویا ہو اور فصل جو کی اُگے اور یہ تو ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’جس طرح کے انسانوں کے اعمال ہوں گے ان پر اسی طرح کے حکمران مسلط کیے جائیں گے۔‘‘ اگر ہم بحیثیت مسلمان اس حکم الٰہی پر غور و فکر کریں تو بات بہت آسان، سیدھی اور سچی ہے جو آسانی سے ہماری سمجھ میں آسکتی ہے لیکن شاید ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنا ہی نقصان کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ ہمارے حکمران ہوں یا تمام سیاسی جماعتوں کے سیاسی راہنما وہ سب بھی ہماری طرح اللہ رب العزت کی ہی مخلوق ہیں، وہ بھی ہم آپ کے درمیان سے ہی اٹھ کر ہماری رہنمائی کے دعویٰ دار بننے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہم میں جو سب سے زیادہ تیز و طرار ہوتے ہیں وہ ہماری رہنمائی کے نام پر ہم پر حکمرانی کررہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو کچھ کم بدمعاش یا کم تیز و طرار ہوتے ہیں وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور مخالفین حکومت یا حزب اختلاف کہلاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اپنے حریفوں کو اقتدار سے ہٹا کر حکمرانی کا تخت حاصل کرلیں۔ عوام جن کی رہنمائی و رہبری کا انہوں نے بیڑا اٹھایا ہوتا ہے وہ کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں گو کہ عوامی نمائندگی کے یہ سارے دعویٰ دار خود عوام کا ہی حصہ ہوتے ہیں لیکن اصل میں عوام سے بالاتر ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان سے زیادہ چالاک، ہوشیار اور مفاد پرست ہوتے ہیں۔ عوام ان کی بے اعتنائیوں اور اپنی محرومیوں کا سارا الزام اپنے ان ہی لیڈروں اور حکمرانوں پر ڈالتے ہیں جو ان کی بھیڑ چیر کر ان سے آگے نکل گئے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تیزی میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ انہیں نہ تو پلٹ کر دیکھنے کا موقع ملتا ہے نہ ہی ایسا کرنے کا ان کے پاس وقت ہوتا ہے لیکن عوام خصوصاً غریب عوام اپنے سے آگے نکل جانے والوں سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں حالانکہ آگے جانے والے کسی نے انہیں کوئی خاص امید نہیں دلائی ہوتی لیکن عوام پُر امید سوتے ہیں کہ یہ جو ہماری رہنمائی رہبری کا دعویٰ کر رہے ہیں ضرور ہماری قسمت پلٹ دیں گے۔ جی ہاں وہ قسمت تو پلٹ دیتے ہیں لیکن اپنی اگر عوام کی قسمت کسی طرح ان کے ہاتھوں میں آجاتی ہے تو وہ اسے بھی پلٹ دیتے ہیں اپنے ہر قسم کے مفادات کے حصول کے لیے یہ اور بات ہے کہ وہ عوام کی قسمت کا تختہ ہی کردیتے ہیں۔
دراصل جو کام ہم خود نہیں کرنا چاہتے اس کی امید اور توقع ہم ان سے کرتے ہیں جو ہماری رہنمائی اور حکمرانی کے دعویٰ دار ہوتے ہیں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ شخص جو خود تو کوئی نیک یا اچھا کام نہیں کر رہا ہوتا لیکن اپنی اولاد یا اپنے ماتحت کو نصیحت ضرور کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اچھا کام کرے، نماز پڑھے، اطاعت گزاری کرے اور ساتھ ہی فرماں برداری بھی کرے۔ ہر وہ کام جو میں خود نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا اسے کرنے کی امید میں دوسروں سے رکھتا ہوں اگر انسان خصوصاً مسلمان اللہ کے احکام کو سمجھے، غور و فکر کرے اور سب سے پہلے خود اپنی اصلاح کرے، خود کو ہر طرح سے درست کرے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر کے افراد کی اصلاح و فلاح پر توجہ دے، خود کو اپنے گھر کے افراد کے لیے مثال بنا کر پیش کرے یہ سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے کہ اللہ کی محبوب ترین شخصیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر قول و فعل کو خود عملی طور پر کرکے امت کو دکھایا و سمجھایا ہے۔ کیسا ہی کوئی کام، کوئی فعل و عمل رہا ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کردار اور اپنے عمل سے واضح کیا ہے اور یہی سنتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی ہے اگر آج ہم اپنی اصلاح کا بیڑا اٹھا لیں اور کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے، اسے نصیحت کرنے اور اس کی اصلاح کی خواہش کرنے کے بجائے ہم خود اپنی اصلاح کی کوشش شروع کردیں تو یہ معاشرہ، یہ نظامِ حکومت، یہ نظامِ حیات خودبخود درست ہو جائے گا۔ پہلے ہم خود اپنی اصلاح کرلیں تب ہی ہم کسی کی اصلاح و فلاح کی بات کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہادی برحق ہمارے رہنمائے حقﷺ نے تو ہر ہر طرح ہمیں سکھایا، بتایا، اور سمجھایا ہے۔ اپنے عمل اپنے قول سے لیکن ہم سمجھنے کے لیے ہی تیار نہیں۔
ایک واقعہ تاریخ اسلام میں درج ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خاتون اپنے بچے کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یا رسول ﷺ میرا یہ بیٹا گڑ بہت کھاتا ہے آپ اسے نصیحت فرما دیں کہ یہ گڑ نہ کھایا کرے۔ آپ ﷺنے بچے کی طرف دیکھا تبسم فرمایا اور خاتون سے فرمایا کہ اس بچے کو لے کر کل آنا اور وہ خاتون لگاتار تین روز تک آتی رہیں اور حضور اکرمﷺ اس ہی طرح حیران و پریشان لوٹ جاتیں۔ جب تین روز گزرنے پر وہ دوبارہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بچے کو لے کر حاضر ہوئیں تو اللہ کے رسول ﷺنے بڑی شفقت و محبت سے بچے کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا کہ گڑ نہ کھایا کرو ایسا تمہاری ماں کی خواہش ہے۔ خاتون حیران رہ گئیں اور انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺیہ بات تو آپ اس وقت بھی فرما سکتے تھے جب میں پہلے آپ کے پاس حاضر ہوئی تھی تب آپﷺ نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ بی بی اس وقت تو میں خود بھی گڑ کھاتا تھا پھر میں کیسے اس بچے کو گڑ کھانے سے روک سکتا تھا۔ اللہ اکبر… نبی کریم ﷺنے کیسی عظیم مثالیں قائم فرمائی ہیں۔ اپنے ہر قول کو اپنے عمل سے ثابت فرمایا ہے اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بحیثیت مسلمان نبی کریم ﷺکی امت ہیں تو ہمیں صرف نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق خود کو ڈھال لینا چاہیے پھر دیکھیں کہ مسلمان کس طرح دنیا کی سپر پاور بن جاتے ہیں۔ اللہ بھی ان کی ہی مدد فرماتا ہے جو خود اپنی مدد آپ پر کمر کس لیتے ہیں اور یہ تو اللہ کا فرمان ہے کہ اگر میرا کوئی بندہ میری طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو میں خود اپنے بندے کی طرف دس قدم بڑھتا ہوں اگر ہم سب اپنی انفرادی اصلاح کرلیں تو پھر از خود معاشرے کی اصلاح ممکن ہوسکے گی کیونکہ افراد سے ہی ملت اور قوم وجود پاتی ہے اور جب کوئی قوم اللہ کی راہ پر چل پڑے تو پھر اس کا راستہ روکنے والا کوئی اس روئے زمین پر نہیں رہتا جو اسے روک سکے ورنہ تو یہی ہوتا ہے جیسی روح ویسے ہی فرشتے۔ اللہ رب العزت ہمیں اسلام کی سمجھ عطا فرمائے، صحیح معنوں میں مومن بنائے اور اپنی اصلاح کرنے اور سنت رسول مقبول ﷺپر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہماری ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے، ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والا بنائے، ہمیں نیک صالح اور اللہ کا خوف رکھنے والے حکمران عطا فرمائے آمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اصلاح جاتے ہیں کی اصلاح ہوتے ہیں خود اپنی ہوتا ہے نہیں کر ہیں کہ بچے کو

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • میری دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • تجدید وتجدّْ
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • نادرا نے عوام کیلئے ایک اور سہولت متعارف کروادی
  • گلگت بلتستان میرا گھر ہے، یہاں کے عوام نے اپنی مرضی سے 1947 میں پاکستان کا انتخاب کیا، صدر آصف زرداری
  • جماعت اسلامی کااجتماعِ عام “حق دو عوام کو” کا اگلا قدم ثابت ہوگا، ناظمہ ضلع وسطی
  • پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خود مختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھائے گا: ترجمان دفتر خارجہ