ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے ہی ماہ مقرر کردہ ہدف حاصل کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال مالی سال 2025-2026 کے آغاز میں ہی اہم کامیابی حاصل کرلی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے ماہ جولائی 2025 کے لیے مقررہ 748 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرلیا۔
رواں مالی سال کے پہلے ماہ حاصل ہونیوالی ٹیکس وصولیاں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 89 ارب روپے اضافی ہیں جبکہ جولائی 2024 میں 659 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کیا گیا تھا۔
ایف بی آر حکام کے مطابق جولائی 2024 کا مقررہ ہدف 657 ارب روپے بھی مکمل کیا تھا، رواں مالی سال کے بجٹ میں 400 ارب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس اقدامات متعارف کرائے گئے تھے۔ جس کا مقصد مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنانا اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا تھا۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر کے نئے اقدامات کے نتیجے میں جولائی کے دوران ایف بی آر کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر رہی، جولائی 2025 میں ایف بی آر نے انکم ٹیکس کی مد میں 323 ارب روپے، سیلز ٹیکس سے 352 ارب روپے، کسٹمز ڈیوٹی سے 113 ارب روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) سے 46 ارب روپے وصول کیے۔
حکومت نے مالی سال 2025-2026 کے لیے مجموعی طور پر 14.
ایف بی آر کے مطابق اس کامیابی کا سہرا بہتر نگرانی کے نظام، ڈیجیٹل ٹولز کے استعمال، ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ اور سخت تعمیلی اقدامات کو جاتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رواں مالی سال کے ایف بی ا ر ایف بی آر کے مطابق ارب روپے
پڑھیں:
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ یہ تو آپ محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔
عاصمہ حامد نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔
عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔